(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لولا ان اشق على امتي لامرتهم بتاخير العشاء وبالسواك عند كل صلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ بِتَأْخِيرِ الْعِشَاءِ وَبِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت کے لیے شاق نہ سمجھتا تو انہیں عشاء کو مؤخر کرنے، اور ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا“۔
(مرفوع) اخبرني عمرو بن عثمان، قال: حدثنا ابن حمير، قال: حدثنا ابن ابي عبلة، عن الزهري، واخبرني عمرو بن عثمان، قال: حدثني ابي، عن شعيب، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بالعتمة، فناداه عمر رضي الله عنه: نام النساء والصبيان، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال: ما ينتظرها غيركم، ولم يكن يصلي يومئذ إلا بالمدينة، ثم قال:" صلوها فيما بين ان يغيب الشفق إلى ثلث الليل" واللفظ لابن حمير. (مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ حِمْيَرٍ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَأَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بِالْعَتَمَةِ، فَنَادَاهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: مَا يَنْتَظِرُهَا غَيْرُكُمْ، وَلَمْ يَكُنْ يُصَلِّي يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِالْمَدِينَةِ، ثُمَّ قَالَ:" صَلُّوهَا فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ" وَاللَّفْظُ لِابْنِ حِمْيَرٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء میں تاخیر کی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، اور فرمایا: ”تمہارے سوا اس نماز کا کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے“۱؎، اور (اس وقت) صرف مدینہ ہی میں نماز پڑھی جا رہی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے شفق غائب ہونے سے لے کر تہائی رات تک پڑھو“۔ اور اس حدیث کے الفاظ ابن حمیر کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «حدیث شعیب بن أبي حمزة عن الزہري عن عروة أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 161 (862)، 162 (864)، مسند احمد 6/ 272، (تحفة الأشراف: 16469)، وحدیث إبراہیم بن أبي عبلة عن الزہري عن عروة قد تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف: 16405) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ یہ شرف فضیلت صرف تم ہی کو حاصل ہے، اس لیے اس انتظار کو تم اپنے لیے باعث زحمت نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے شرف اور رحمت کا باعث ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ رات کا بہت سا حصہ گزر گیا، اور مسجد کے لوگ سو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور نماز پڑھائی، اور فرمایا: ”یہی (اس نماز کا پسندیدہ) وقت ہے، اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا“(تو اسے اس کا حکم دیتا)۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن منصور، عن الحكم، عن نافع، عن ابن عمر، قال: مكثنا ذات ليلة ننتظر رسول الله صلى الله عليه وسلم لعشاء الآخرة، فخرج علينا حين ذهب ثلث الليل او بعده، فقال حين خرج:" إنكم تنتظرون صلاة ما ينتظرها اهل دين غيركم، ولولا ان يثقل على امتي لصليت بهم هذه الساعة". ثم امر المؤذن فاقام ثم صلى. (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قال: مَكَثْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعِشَاءِ الْآخِرَةِ، فَخَرَجَ عَلَيْنَا حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ أَوْ بَعْدَهُ، فَقَالَ حِينَ خَرَجَ:" إِنَّكُمْ تَنْتَظِرُونَ صَلَاةً مَا يَنْتَظِرُهَا أَهْلُ دِينٍ غَيْرُكُمْ، وَلَوْلَا أَنْ يَثْقُلَ عَلَى أُمَّتِي لَصَلَّيْتُ بِهِمْ هَذِهِ السَّاعَةَ". ثُمَّ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ فَأَقَامَ ثُمَّ صَلَّى.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک رات ہم نماز عشاء کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے، جب تہائی یا اس سے کچھ زیادہ رات گزر گئی تو آپ نکل کر ہمارے پاس آئے، اور جس وقت نکل کر آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ایک ایسی نماز کا انتظار کر رہے ہو کہ تمہارے سوا کسی اور دین کا ماننے والا اس کا انتظار نہیں کر رہا ہے، اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو انہیں اسی وقت نماز پڑھاتا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا، تو اس نے اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
(مرفوع) اخبرنا عمران بن موسى، قال: حدثنا عبد الوارث، قال: حدثنا داود، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة المغرب ثم لم يخرج إلينا حتى ذهب شطر الليل، فخرج فصلى بهم، ثم قال:" إن الناس قد صلوا وناموا وانتم لم تزالوا في صلاة ما انتظرتم الصلاة، ولولا ضعف الضعيف وسقم السقيم، لامرت بهذه الصلاة ان تؤخر إلى شطر الليل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قال: حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قال: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ ثُمَّ لَمْ يَخْرُجْ إِلَيْنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَخَرَجَ فَصَلَّى بِهِمْ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَنَامُوا وَأَنْتُمْ لَمْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاةَ، وَلَوْلَا ضَعْفُ الضَّعِيفِ وَسَقَمُ السَّقِيمِ، لَأَمَرْتُ بِهَذِهِ الصَّلَاةِ أَنْ تُؤَخَّرَ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو مغرب پڑھائی، پھر آپ نہیں نکلے یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، پھر نکلے اور آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر فرمایا: ”لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہیں، اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے نماز ہی میں تھے، اگر کمزور کی کمزوری، اور بیمار کی بیماری نہ ہوتی تو میں حکم دیتا کہ اس نماز کو آدھی رات تک مؤخر کیا جائے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 7 (422)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 8 (693)، (تحفة الأشراف: 4314)، مسند احمد 3/5 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل، ح وانبانا محمد بن المثنى، قال: حدثنا خالد، قالا: حدثنا حميد، قال: سئل انس: هل اتخذ النبي صلى الله عليه وسلم خاتما؟ قال: نعم، اخر ليلة صلاة العشاء الآخرة إلى قريب من شطر الليل، فلما ان صلى اقبل النبي صلى الله عليه وسلم علينا بوجهه، ثم قال:" إنكم لن تزالوا في صلاة ما انتظرتموها". قال انس: كاني انظر إلى وبيص خاتمه في حديث علي إلى شطر الليل. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قال: سُئِلَ أَنَسٌ: هَلِ اتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا؟ قَالَ: نَعَمْ، أَخَّرَ لَيْلَةً صَلَاةَ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ شَطْرِ اللَّيْلِ، فَلَمَّا أَنْ صَلَّى أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُوهَا". قَالَ أَنَسٌ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ فِي حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ.
حمید کہتے ہیں: انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی پہنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، ایک رات آپ نے آدھی رات کے قریب تک عشاء مؤخر کی، جب نماز پڑھ چکے تو آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے فرمایا: ”جب تک تم لوگ نماز کا انتظار کرتے رہے برابر نماز میں رہے“۔ انس کہتے ہیں: گویا میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔
تخریج الحدیث: «حدیث إسماعیل عن حمید أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت 25 (572)، الأذان 36 (661)، 156 (847)، اللباس 48 (5869)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 578)، مسند احمد 3/182، 189، 200، 267، وحدیث خالد عن حمید أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الصلاة 8 (692)، (تحفة الأشراف: 635) (صحیح) علی بن حجر کی روایت میں ’’إلی قریب من شطرا للیل‘‘ کے بجائے ’’إلی شطر اللیل“ہے۔»
(مرفوع) اخبرنا عتبة بن عبد الله، قال: قرات على مالك بن انس، ح والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لو يعلم الناس ما في النداء والصف الاول ثم لم يجدوا إلا ان يستهموا عليه لاستهموا، ولو يعلم الناس ما في التهجير لاستبقوا إليه، ولو علموا ما في العتمة والصبح لاتوهما ولو حبوا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ح وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوا، وَلَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي التَّهْجِيرِ لَاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، وَلَوْ عَلِمُوا مَا فِي الْعَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ اس ثواب کو جو اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے میں ہے جان لیتے پھر اس کے لیے سوائے قرعہ اندازی کے کوئی اور راہ نہ پاتے، تو ضرور قرعہ ڈالتے، اور اگر لوگ جان لیتے کہ اول وقت نماز پڑھنے میں کتنا ثواب ہے، تو ضرور اس کی طرف سبقت کرتے، اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ عتمہ (عشاء) اور فجر میں آنے میں کیا ثواب ہے، تو وہ ان دونوں نمازوں میں ضرور آتے خواہ انہیں گھٹنے یا سرین کے بل گھِسٹ کر آنا پڑتا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 9 (615)، 32 (654)، 72 (721)، الشھادات 30 (2689)، صحیح مسلم/الصلاة 28 (437)، سنن الترمذی/الصلاة 52 (225)، موطا امام مالک/الصلاة 1 (3)، الجماعة 2 (6)، (تحفة الأشراف: 12570)، مسند احمد 2/236، 278، 303، 334، 375، 376، 424، 466، 472، 479، 531، 533، ویأتي عند المؤلف في باب 31 برقم: 672) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے اس نماز کے نام کے سلسلہ میں اعراب تم پر غالب نہ آ جائیں ۱؎ وہ لوگ اپنی اونٹنیوں کو دوہنے کے لیے دیر کرتے ہیں (اسی بنا پر دیر سے پڑھی جانے والی اس نماز کو عتمہ کہتے ہیں) حالانکہ یہ عشاء ہے“۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا: ”تمہارے اس نماز کے نام کے سلسلہ میں اعراب تم پر غالب نہ آ جائیں، جان لو اس کا نام عشاء ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے عشاء کو عتمہ کہنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ اعراب (دیہاتیوں) کی اصطلاح ہے، قرآن میں «ومن بعد صلاۃ العشاء» وارد ہے بعض حدیثوں میں جو عشاء کو عتمہ کہا گیا ہے اس کی تاویل کئی طریقے سے کی جاتی ہے، ایک تو یہ کہ یہ اطلاق نہی (ممانعت) سے پہلے کا ہو گا، دوسرے یہ کہ نہی تنزیہی ہے، تیسرے یہ کہ یہ اطلاق ان اعراب کو سمجھانے کے لیے ہو گا جو عشاء کو عتمہ کہتے ہیں۔