(مرفوع) اخبرنا عبدة بن عبد الله، واحمد بن سليمان، واللفظ له، قالا: حدثنا ابو داود، عن بدر بن عثمان، قال: إملاء علي، حدثنا ابو بكر بن ابي موسى، عن ابيه، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم سائل يساله عن مواقيت الصلاة، فلم يرد عليه شيئا،" فامر بلالا فاقام بالفجر حين انشق، ثم امره فاقام بالظهر حين زالت الشمس، والقائل يقول: انتصف النهار وهو اعلم، ثم امره فاقام بالعصر والشمس مرتفعة، ثم امره فاقام بالمغرب حين غربت الشمس، ثم امره فاقام بالعشاء حين غاب الشفق، ثم اخر الفجر من الغد حين انصرف، والقائل يقول: طلعت الشمس، ثم اخر الظهر إلى قريب من وقت العصر بالامس، ثم اخر العصر حتى انصرف، والقائل يقول: احمرت الشمس، ثم اخر المغرب حتى كان عند سقوط الشفق، ثم اخر العشاء إلى ثلث الليل، ثم قال:" الوقت فيما بين هذين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ بَدْرِ بْنِ عُثْمَانَ، قال: إِمْلَاءً عَلَيَّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قال: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَائِلٌ يَسْأَلُهُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا،" فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ بِالْفَجْرِ حِينَ انْشَقَّ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ بِالظُّهْرِ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: انْتَصَفَ النَّهَارُ وَهُوَ أَعْلَمُ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ بِالْعَصْرِ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ بِالْمَغْرِبِ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ بِالْعِشَاءِ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْفَجْرَ مِنَ الْغَدِ حِينَ انْصَرَفَ، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: طَلَعَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ وَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعَصْرَ حَتَّى انْصَرَفَ، وَالْقَائِلُ يَقُولُ: احْمَرَّتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى كَانَ عِنْدَ سُقُوطِ الشَّفَقِ، ثُمَّ أَخَّرَ الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ:" الْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سائل آیا وہ آپ سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جس وقت فجر کی پو پھٹ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی جب سورج ڈھل گیا، اور کہنے والے نے کہا: کیا دوپہر ہو گئی؟ حالانکہ وہ خوب جانتا ہوتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے عصر کی اقامت کہی جبکہ سورج بلند تھا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے مغرب کی تکبیر کہی جب سورج ڈوب گیا، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت کہی جب شفق غائب ہو گئی، پھر دوسرے دن آپ نے فجر کو مؤخر کیا جس وقت پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا کہ سورج نکل آیا، پھر ظہر کو کل کے عصر کی وقت کے قریب وقت تک مؤخر کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کو دیر سے پڑھی یہاں تک کہ پڑھ کر لوٹے تو کہنے والے نے کہا سورج سرخ ہو گیا ہے، پھر آپ نے مغرب دیر سے پڑھی یہاں تک کہ شفق کے ڈوبنے کا وقت ہو گیا، پھر عشاء کو آپ نے تہائی رات تک مؤخر کیا، پھر فرمایا: ”نماز کا وقت ان دو وقتوں کے درمیان ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا زيد بن الحباب، قال: حدثنا خارجة بن عبد الله بن سليمان بن زيد بن ثابت، قال: حدثني الحسين بن بشير بن سلام، عن ابيه، قال: دخلت انا ومحمد بن علي، على جابر بن عبد الله الانصاري، فقلنا له: اخبرنا عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم وذاك زمن الحجاج بن يوسف، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم" فصلى الظهر حين زالت الشمس وكان الفيء قدر الشراك، ثم صلى العصر حين كان الفيء قدر الشراك وظل الرجل، ثم صلى المغرب حين غابت الشمس، ثم صلى العشاء حين غاب الشفق، ثم صلى الفجر حين طلع الفجر، ثم صلى من الغد الظهر حين كان الظل طول الرجل، ثم صلى العصر حين كان ظل الرجل مثليه قدر ما يسير الراكب سير العنق إلى ذي الحليفة، ثم صلى المغرب حين غابت الشمس، ثم صلى العشاء إلى ثلث الليل او نصف الليل شك زيد، ثم صلى الفجر فاسفر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قال: حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قال: حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ بَشِيرِ بْنِ سَلَّامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: دَخَلْتُ أَنَا وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ، فَقُلْنَا لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَاكَ زَمَنَ الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَصَلَّى الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَانَ الْفَيْءُ قَدْرَ الشِّرَاكِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ الْفَيْءُ قَدْرَ الشِّرَاكِ وَظِلِّ الرَّجُلِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْغَدِ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ الظِّلُّ طُولَ الرَّجُلِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ مِثْلَيْهِ قَدْرَ مَا يَسِيرُ الرَّاكِبُ سَيْرَ الْعَنَقِ إِلَى ذِي الْحُلَيْفَةِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ أَوْ نِصْفِ اللَّيْلِ شَكَّ زَيْدٌ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ".
بشیر بن سلام کہتے ہیں کہ میں اور محمد بن علی دونوں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور ان سے ہم نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق بتائیے (یہ حجاج بن یوسف کا عہد تھا) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ نے ظہر پڑھائی جس وقت سورج ڈھل گیا، اور «فىء»(زوال کے بعد کا سایہ) تسمے کے برابر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی جس وقت «فىء» تسمے کے اور آدمی کے سایہ کے برابر ہو گیا، پھر آپ نے مغرب پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھائی جب شفق غائب ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی جس وقت فجر طلوع ہو گئی، پھر دوسرے دن آپ نے ظہر پڑھائی جب سایہ آدمی کی لمبائی کے برابر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی جب آدمی کا سایہ اس کے دوگنا ہو گیا، اور اس قدر دن تھا جس میں سوار متوسط رفتار میں ذوالحلیفہ تک جا سکتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پڑھائی جس وقت سورج ڈوب گیا، پھر تہائی رات یا آدھی رات کو عشاء پڑھائی (یہ شک زید کو ہوا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی تو آپ نے خوب اجالا کر دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 2217) (صحیح) بما تقدم برقم: 505 وما یأتی بأرقام 527، 528 (اس کے راوی ’’حسین‘‘ لین الحدیث ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، الحسين بن بشير بن سلام الأنصاري مجهول الحال،ذكره ابن حبان وحده فى الثقات (6/ 206) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 324
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا عوف، قال: حدثني سيار بن سلامة، قال: دخلت على ابي برزة فساله ابي: كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة؟ قال: كان" يصلي الهجير التي تدعونها الاولى حين تدحض الشمس، وكان يصلي العصر حين يرجع احدنا إلى رحله في اقصى المدينة والشمس حية، ونسيت ما قال في المغرب، وكان يستحب ان يؤخر العشاء التي تدعونها العتمة وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها، وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف الرجل جليسه، وكان يقرا بالستين إلى المائة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قال: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قال: حَدَّثَنِي سَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ، قال: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي بَرْزَةَ فَسَأَلَهُ أَبِي: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ؟ قَالَ: كَانَ" يُصَلِّي الْهَجِيرَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْأُولَى حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ، وَكَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ حِينَ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ، وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ الْعِشَاءَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْعَتَمَةَ وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ، وَكَانَ يَقْرَأُ بِالسِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ".
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو میرے والد نے ان سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا، اور عصر پڑھتے جب ہم میں سے مدینہ کے آخری کونے پر رہنے والا آدمی اپنے گھر لوٹ کر آتا، تو سورج تیز اور بلند ہوتا، مغرب کے سلسلہ میں جو انہوں نے کہا میں اسے بھول گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کو جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہو مؤخر کرنا پسند کرتے تھے، اور اس سے پہلے سونا اور اس کے بعد گفتگو کرنا ناپسند فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، اور آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله بن المبارك، عن حسين بن علي بن حسين، قال: اخبرني وهب بن كيسان، قال: حدثنا جابر بن عبد الله، قال:" جاء جبريل عليه السلام إلى النبي صلى الله عليه وسلم حين زالت الشمس، فقال: قم يا محمد فصل الظهر حين مالت الشمس، ثم مكث حتى إذا كان فيء الرجل مثله جاءه للعصر، فقال: قم يا محمد فصل العصر، ثم مكث حتى إذا غابت الشمس جاءه، فقال: قم فصل المغرب فقام فصلاها حين غابت الشمس سواء، ثم مكث حتى إذا ذهب الشفق جاءه، فقال: قم فصل العشاء فقام فصلاها، ثم جاءه حين سطع الفجر في الصبح، فقال: قم يا محمد فصل فقام فصلى الصبح، ثم جاءه من الغد حين كان فيء الرجل مثله، فقال: قم يا محمد فصل فصلى الظهر، ثم جاءه جبريل عليه السلام حين كان فيء الرجل مثليه، فقال: قم يا محمد فصل فصلى العصر، ثم جاءه للمغرب حين غابت الشمس وقتا واحدا لم يزل عنه، فقال: قم فصل فصلى المغرب، ثم جاءه للعشاء حين ذهب ثلث الليل الاول، فقال: قم فصل فصلى العشاء، ثم جاءه للصبح حين اسفر جدا، فقال: قم فصل فصلى الصبح، فقال:" ما بين هذين وقت كله". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، قال: أَخْبَرَنِي وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، قال: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال:" جَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ الظُّهْرَ حِينَ مَالَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا كَانَ فَيْءُ الرَّجُلِ مِثْلَهُ جَاءَهُ لِلْعَصْرِ، فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ الْعَصْرَ، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ جَاءَهُ، فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ الْمَغْرِبَ فَقَامَ فَصَلَّاهَا حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ سَوَاءً، ثُمَّ مَكَثَ حَتَّى إِذَا ذَهَبَ الشَّفَقُ جَاءَهُ، فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ الْعِشَاءَ فَقَامَ فَصَلَّاهَا، ثُمَّ جَاءَهُ حِينَ سَطَعَ الْفَجْرُ فِي الصُّبْحِ، فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ فَقَامَ فَصَلَّى الصُّبْحَ، ثُمَّ جَاءَهُ مِنَ الْغَدِ حِينَ كَانَ فَيْءُ الرَّجُلِ مِثْلَهُ، فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام حِينَ كَانَ فَيْءُ الرَّجُلِ مِثْلَيْهِ، فَقَالَ: قُمْ يَا مُحَمَّدُ فَصَلِّ فَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ جَاءَهُ لِلْمَغْرِبِ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ وَقْتًا وَاحِدًا لَمْ يَزُلْ عَنْهُ، فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ جَاءَهُ لِلْعِشَاءِ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَوَّلُ، فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ فَصَلَّى الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَهُ لِلصُّبْحِ حِينَ أَسْفَرَ جِدًّا، فَقَالَ: قُمْ فَصَلِّ فَصَلَّى الصُّبْحَ، فَقَالَ:" مَا بَيْنَ هَذَيْنِ وَقْتٌ كُلُّهُ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب سورج ڈھل گیا، اور کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اٹھیں اور جا کر جس وقت سورج ڈھل جائے ظہر پڑھیں، پھر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ جب آدمی کا سایہ اس کے مثل ہو گیا، تو وہ آپ کے پاس عصر کے لیے آئے اور کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اٹھیں اور عصر پڑھیں، پھر وہ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ جب سورج ڈوب گیا، تو پھر آپ کے پاس آئے اور کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اٹھیں اور مغرب پڑھیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر جس وقت سورج اچھی طرح ڈوب گیا مغرب پڑھی، پھر ٹھہرے رہے یہاں تک کہ جب شفق ختم ہو گئی تو جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: اٹھیں اور عشاء پڑھیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر عشاء کی نماز پڑھی، پھر وہ آپ کے پاس صبح میں آئے جس وقت فجر روشن ہو گئی، اور کہنے لگے: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اٹھیں اور نماز پڑھیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر ادا فرمائی، پھر وہ آپ کے پاس دوسرے دن اس وقت آئے جب آدمی کا سایہ اس کے ایک مثل ہو گیا، اور کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اٹھیں اور نماز ادا کریں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی، پھر آپ کے پاس اس وقت آئے جس وقت آدمی کا سایہ اس کے دو مثل ہو گیا، اور کہنے لگے: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اٹھیں اور نماز پڑھیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھی، پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مغرب کے لیے اس وقت آئے جس وقت سورج ڈوب گیا جس وقت پہلے روز آئے تھے، اور کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اٹھیں اور نماز ادا کریں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پڑھی، پھر وہ آپ کے پاس عشاء کے لیے آئے جس وقت رات کا پہلا تہائی حصہ ختم ہو گیا، اور کہا: اٹھیں اور نماز ادا کریں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی، پھر وہ آپ کے پاس آئے جس وقت خوب اجالا ہو گیا، اور کہا: اٹھیں اور نماز ادا کریں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر ادا کی، پھر انہوں نے کہا: ان دونوں کے بیچ میں پورا وقت ہے۔
محمد بن عمرو بن حسن کہتے ہیں کہ حجاج آئے تو ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دوپہر میں (سورج ڈھلتے ہی) پڑھتے تھے، اور عصر اس وقت پڑھتے جب سورج سفید اور صاف ہوتا، اور مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا، اور عشاء جب آپ دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھ لیتے، اور جب دیکھتے کہ لوگ دیر کر رہے ہیں تو مؤخر کرتے۔
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں اس نماز یعنی عشاء آخرہ کا وقت لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے ۱؎۔
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں اس نماز یعنی عشاء کا وقت لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: باب سے حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ عشاء کا وقت شفق کے غائب ہونے پر ہی شروع ہوتا ہے، گویا شفق تیسرے دن کے چاند کے غائب ہونے تک رہتی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن عوف، عن سيار بن سلامة، قال: دخلت انا وابي على ابي برزة الاسلمي، فقال له ابي اخبرنا كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة، قال: كان" يصلي الهجير التي تدعونها الاولى حين تدحض الشمس، وكان يصلي العصر ثم يرجع احدنا إلى رحله في اقصى المدينة والشمس حية، قال: ونسيت ما قال في المغرب، قال: وكان يستحب ان تؤخر صلاة العشاء التي تدعونها العتمة، قال: وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها، وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف الرجل جليسه، وكان يقرا بالستين إلى المائة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ، قال: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي أَخْبِرْنَا كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ، قَالَ: كَانَ" يُصَلِّي الْهَجِيرَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْأُولَى حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ، وَكَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، قَالَ: وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ، قَالَ: وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ تُؤَخَّرَ صَلَاةُ الْعِشَاءِ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْعَتَمَةَ، قَالَ: وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ، وَكَانَ يَقْرَأُ بِالسِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ".
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد دونوں ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو میرے والد نے ان سے پوچھا: ہمیں بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے تھے پھر ہم میں سے ایک آدمی (نماز پڑھ کر) مدینہ کے آخری کونے پر واقع اپنے گھر کو لوٹ آتا، اور سورج تیز اور بلند ہوتا، اور انہوں نے مغرب کے بارے میں جو کہا میں (اسے) بھول گیا، اور کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہوتا خیر سے پڑھنے کو پسند کرتے تھے، اور اس سے قبل سونے اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔
(مرفوع) اخبرني إبراهيم بن الحسن، ويوسف بن سعيد، واللفظ له، قالا: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: قلت لعطاء: اي حين احب إليك ان اصلي العتمة إماما او خلوا؟ قال: سمعت ابن عباس، يقول: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة بالعتمة حتى رقد الناس واستيقظوا ورقدوا واستيقظوا. فقام عمر، فقال: الصلاة الصلاة، قال عطاء: قال ابن عباس: خرج نبي الله صلى الله عليه وسلم كاني انظر إليه الآن يقطر راسه ماء واضعا يده على شق راسه، قال: واشار، فاستثبت عطاء كيف وضع النبي صلى الله عليه وسلم يده على راسه، فاوما إلي، كما اشار ابن عباس فبدد لي عطاء بين اصابعه بشيء من تبديد ثم وضعها فانتهى اطراف اصابعه إلى مقدم الراس، ثم ضمها يمر بها كذلك على الراس حتى مست إبهاماه طرف الاذن مما يلي الوجه ثم على الصدغ وناحية الجبين لا يقصر ولا يبطش شيئا إلا كذلك، ثم قال:" لولا ان اشق على امتي لامرتهم ان لا يصلوها إلا هكذا". (مرفوع) أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، وَيُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قال: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: أَيُّ حِينٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أُصَلِّيَ الْعَتَمَةَ إِمَامًا أَوْ خِلْوًا؟ قال: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ بِالْعَتَمَةِ حَتَّى رَقَدَ النَّاسُ وَاسْتَيْقَظُوا وَرَقَدُوا وَاسْتَيْقَظُوا. فَقَامَ عُمَرُ، فَقَالَ: الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: خَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الْآنَ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى شِقِّ رَأْسِهِ، قَالَ: وَأَشَارَ، فَاسْتَثْبَتُّ عَطَاءً كَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، فَأَوْمَأَ إِلَيَّ، كَمَا أَشَارَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَبَدَّدَ لِي عَطَاءٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ بِشَيْءٍ مِنْ تَبْدِيدٍ ثُمَّ وَضَعَهَا فَانْتَهَى أَطْرَافُ أَصَابِعِهِ إِلَى مُقَدَّمِ الرَّأْسِ، ثُمَّ ضَمَّهَا يَمُرُّ بِهَا كَذَلِكَ عَلَى الرَّأْسِ حَتَّى مَسَّتْ إِبْهَامَاهُ طَرَفَ الْأُذُنِ مِمَّا يَلِي الْوَجْهَ ثُمَّ عَلَى الصُّدْغِ وَنَاحِيَةِ الْجَبِينِ لَا يُقَصِّرُ وَلَا يَبْطُشُ شَيْئًا إِلَّا كَذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ لَا يُصَلُّوهَا إِلَّا هَكَذَا".
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا: عشاء کی امامت کرنے یا تنہا پڑھنے کے لیے کون سا وقت آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم کو کہتے سنا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء مؤخر کی یہاں تک کہ لوگ سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے (پھر) سو گئے، (پھر) بیدار ہوئے، تو عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہنے لگے: صلاۃ! صلاۃ! تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے۔ گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور آپ اپنا ہاتھ سر کے ایک حصہ پر رکھے ہوئے تھے۔ راوی (ابن جریج) کہتے ہیں: میں نے عطاء سے جاننا چاہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر کیسے رکھا؟ تو انہوں نے مجھے اشارہ کے ذریعہ بتایا جیسا کہ ابن عباس نے انہیں اشارہ سے بتایا تھا، عطاء نے اپنی انگلیوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ کیا، پھر اسے رکھا یہاں تک کہ ان کی انگلیوں کے سرے سر کے اگلے حصہ تک پہنچ گئے، پھر انہیں ملا کر سر پر اس طرح گزارتے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں انگوٹھے کان کے کناروں کو جو چہرہ سے ملا ہوتا ہے چھو لیتے، پھر کنپٹی اور پیشانی کے کناروں پر پھیرتے، نہ دیر کرتے نہ جلدی سوائے اتنی تاخیر کے - پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت کے لیے دشوار نہیں سمجھتا تو انہیں حکم دیتا کہ وہ اسی قدر تاخیر سے عشاء پڑھیں“۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور المكي، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عطاء، عن ابن عباس، وعن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس، قال: اخر النبي صلى الله عليه وسلم العشاء ذات ليلة حتى ذهب من الليل، فقام عمر رضي الله عنه فنادى: الصلاة يا رسول الله، رقد النساء والولدان، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم والماء يقطر من راسه، وهو يقول:" إنه الوقت، لولا ان اشق على امتي". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الْمَكِّيُّ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال: أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ذَاتَ لَيْلَةٍ حَتَّى ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَامَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَنَادَى: الصَّلَاةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَقَدَ النِّسَاءُ وَالْوِلْدَانُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمَاءُ يَقْطُرُ مِنْ رَأْسِهِ، وَهُوَ يَقُولُ:" إِنَّهُ الْوَقْتُ، لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ رات کا (ایک حصہ) گزر گیا، تو عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اور آواز دی: اللہ کے رسول! صلاۃ! عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور آپ فرما رہے تھے: ”یہی (مناسب اور پسندیدہ) وقت ہے، اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا“(تو اسے انہیں اسی وقت پڑھنے کا حکم دیتا)۔