سنن نسائي
كتاب المواقيت
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
19. بَابُ : الشَّفَقِ
باب: شفق کا بیان۔
حدیث نمبر: 530
أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قال: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّاسِ بِوَقْتِ هَذِهِ الصَّلَاةِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ،" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهَا لِسُقُوطِ الْقَمَرِ لِثَالِثَةٍ".
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں اس نماز یعنی عشاء کا وقت لوگوں سے زیادہ جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: باب سے حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ عشاء کا وقت شفق کے غائب ہونے پر ہی شروع ہوتا ہے، گویا شفق تیسرے دن کے چاند کے غائب ہونے تک رہتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 530 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 530
530 ۔ اردو حاشیہ:
➊تیسری رات کا چاند تقریباً اڑھائی گھنٹے کے بعد غروب ہوتا ہے۔
➋ان احادیث کی شفق سے کوئی مناسبت نظر نہیں آتی کیونکہ شفق تو تیسری رات کے چاند سے بہت قبل غروب ہو جاتی ہے۔ اصل میں یہ اشارہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ وغیرہ کے اس موقف کی طرف ہے کہ شفق سے سفیدی مراد ہے نہ کہ سرخی جیسا کہ ان کی اس تبویب «ذکر ما یستدل به علی أن الشفق البیاض» [السنن الکبریٰ للنسائي: 1؍472]
سے ظاہر ہوتا ہے۔ مگر سفیدی بھی اس سے بہت پہلے ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا اس سے امام صاحب رحمہ اللہ کا استدلال غیرواضح ہے۔ واللہ اعلم۔ صحیح بات یہ ہے کہ شفق سے مراد سورج غروب ہونے کے بعد افق پر ظاہر ہونے والی سرخی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائي: 7؍57۔ 60]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 530
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 419
´عشاء کے وقت کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ اس نماز یعنی عشاء کے وقت کو جانتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز تیسری رات کا چاند ڈوب جانے کے وقت پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 419]
419۔ اردو حاشیہ:
➊ نعمت علم کے اظہار کے لیے بعض اوقات یہ انداز اختیار کرنا مباح ہے کہ ”میں سب سے بڑھ کرجانتا ہوں“ اور یہ اسلوب سامعین کے لیے مؤثر بھی ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ حضرت نعمان نے یہ بات ان دنوں میں کہی ہو جب صحابہ کی غالب تعداد موجود نہ رہی ہو۔
➋ تیسری رات کے چاند ڈوبنے کا وقت قطعی طو ر پر منضبط نہیں ہے۔ یہ غروب آفتاب کے بعد تقریبا سوا دو گھٹنے سے لے کر ڈھائی تین گھنٹے تک ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 419
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 165
´نماز عشاء کے وقت کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ اس نماز عشاء کے وقت کو لوگوں میں سب سے زیادہ میں جانتا ہوں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اسے تیسری تاریخ کا چاند ڈوبنے کے وقت پڑھتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 165]
اردو حاشہ:
1؎:
حدیث جبرائیل میں یہ بات آچکی ہے کہ عشاء کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے،
یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں،
رہی یہ بات کہ اس کا آخری وقت کیا ہے تو صحیح اورصریح احادیث سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ اس کا آخری وقت طلوع فجرتک ہے جن روایتوں میں آدھی رات تک کا ذکر ہے اس سے مراد اس کا افضل وقت ہے جو تیسری رات کے چاند ڈوبنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے،
اسی لیے رسول اللہ ﷺ عموماً اسی وقت نمازِ عشاء پڑھتے تھے،
لیکن مشقت کے پیش نظر امت کو اس سے پہلے پڑھ لینے کی اجازت دے دی۔
(دیکھئے اگلی حدیث رقم 167)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 165