1. باب: اللہ عزوجل کے فرمان: «إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا ...» ۔
Chapter: Interpreting The Saying Of Allah, The Mighty And Sublime: When You Intend To Offer Salah (The Prayer), wash your faces and your hands (forearms) up to your elbows
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا استيقظ احدكم من نومه، فلا يغمس يده في وضوئه حتى يغسلها ثلاثا، فإن احدكم لا يدري اين باتت يده". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ، فَلَا يَغْمِسْ يَدَهُ فِي وَضُوئِهِ حَتَّى يَغْسِلَهَا ثَلَاثًا، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي أَيْنَ بَاتَتْ يَدُهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے جاگ جائے تو اپنا ہاتھ اپنے وضو کے پانی میں نہ ڈالے، یہاں تک کہ اسے تین بار دھو لے، کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا ہاتھ رات میں کہاں کہاں رہا ہے۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ مسواک کر رہے تھے اور مسواک کا سرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر تھا، اور آپ: «عأعأ» کی آواز نکال رہے تھے ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، حدثنا يحيى وهو ابن سعيد، قال: حدثنا قرة بن خالد، قال: حدثنا حميد بن هلال، قال: حدثني ابو بردة، عن ابي موسى، قال: اقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ومعي رجلان من الاشعريين، احدهما عن يميني والآخر عن يساري ورسول الله صلى الله عليه وسلم يستاك فكلاهما سال العمل قلت: والذي بعثك بالحق نبيا، ما اطلعاني على ما في انفسهما وما شعرت انهما يطلبان العمل، فكاني انظر إلى سواكه تحت شفته قلصت، فقال:" إنا لا او لن نستعين على العمل من اراده، ولكن اذهب انت"، فبعثه على اليمن ثم اردفه معاذ بن جبل رضي الله عنهما. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ، أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِي وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِي وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا، مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ قَلَصَتْ، فَقَالَ:" إِنَّا لَا أَوْ لَنْ نَسْتَعِينَ عَلَى الْعَمَلِ مَنْ أَرَادَهُ، وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ"، فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ ثُمَّ أَرْدَفَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا.
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے، ان میں سے ایک میرے دائیں اور دوسرا میرے بائیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، تو ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کام (نوکری) کی درخواست کی ۲؎، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، ان دونوں نے اپنے ارادے سے مجھے آگاہ نہیں کیا تھا، اور نہ ہی مجھے اس کا احساس تھا کہ وہ کام (نوکری) کے طلب گار ہیں، گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک کو (جو اس وقت آپ کر رہے تھے) آپ کے ہونٹ کے نیچے دیکھ رہا ہوں اور ہونٹ اوپر اٹھا ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کام پر اس شخص سے مدد نہیں لیتے جو اس کا طلب گار ہو ۳؎، لیکن (اے ابوموسیٰ!) تم جاؤ“(یعنی ان دونوں کے بجائے میں تمہیں کام دیتا ہوں)، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا ذمہ دار بنا کر بھیجا، پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کو ان کے پیچھے بھیجا۔
وضاحت: ۱؎ نسخہ نظامیہ میں «يستاك» کا لفظ ہے، بقیہ تمام نسخوں میں «يستن» کا لفظ موجود ہے۔ ۲؎: یعنی اس بات کی درخواست کی کہ آپ ہمیں عامل بنا دیجئیے یا حکومت کی کوئی ذمہ داری ہمارے سپرد کر دیجئیے۔ ۳؎: کیونکہ اللہ کی توفیق و مدد ایسے شخص کے شامل حال نہیں ہوتی، وہ اپنے نفس کے سپرد کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا: «لا تسال الإمارة فإنك إن اعطيتها عن مسالة وكلت إليها» ”حکومت کا سوال نہ کرنا اس لیے کہ اگر تمہیں مانگنے کے بعد حکومت ملی تو تم اس کے حوالے کر دئیے جاؤ گے“(صحیح البخاری: ۷۱۴۶)۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسواک منہ کی پاکیزگی، رب تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے۔“
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت کے لیے باعث مشقت نہ سمجھتا تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 8 (887)، موطا امام مالک/الطھارة: 32 (114)، (تحفة الأشراف: 13842)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الطہارة 15 (252)، سنن ابی داود/ فیہ 25 (46)، سنن الترمذی/ فیہ 18 (22)، سنن ابن ماجہ/فیہ 7 (287)، موطا امام مالک/فیہ32 (114)، مسند احمد 2/245، 250، 399، 400، سنن الدارمی/الطہارة 17 (710)، یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ فرمائیں 535 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی وجوبی حکم دیتا، رہا مسواک کا ہر نماز کے وقت مسنون ہونا تو وہ ثابت ہے، اور باب سے مناسبت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم عام ہے، صائم اور غیر صائم دونوں کو شامل ہے، اسی طرح صبح، دوپہر اور شام سبھی وقتوں کو شامل ہے۔
شریح کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو کون سا کام پہلے کرتے؟ انہوں نے کہا: مسواک سے (پہل کرتے)۱؎۔