ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سلام تو ہمیں معلوم ہے، لیکن «استئذان» کیا ہے؟ (یعنی ہم اجازت کیسے طلب کریں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «استئذان» یہ ہے کہ آدمی تسبیح، تکبیر اور تحمید (یعنی «سبحان الله، الله أكبر، الحمد لله» کہہ کر یا کھنکار کر) سے گھر والوں کو خبردار کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3498، ومصباح الزجاجة: 1292) (ضعیف)» (سند میں ابوسورہ منکر الحدیث ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف واصل بن السائب وأبوسورة:ضعيفان (تقريب: 7383،ضعيف) والسند ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 510
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کے لیے میرے دو وقت مقرر تھے: ایک رات میں، ایک دن میں، تو میں جب آتا اور آپ نماز کی حالت میں ہوتے تو آپ میرے لیے کھنکار دیتے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/السہو 17 (1212)، (تحفة الأشراف: 10202)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/80) (ضعیف)» (سند میں عبداللہ بن نجی اور حارث ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (1212،1213) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 510
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (اندر آنے کی) اجازت طلب کی تو آپ نے (مکان کے اندر سے) پوچھا: ”کون ہو“؟ میں نے عرض کیا: ”میں“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں، میں کیا؟ (نام لو)“۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح کیسے کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نہ آج روزہ رکھا، نہ بیمار کی عیادت (مزاج پرسی) کی خیریت سے ہوں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2380، ومصباح الزجاجة: 1293) (حسن)» (سند میں عبداللہ بن مسلم ضعیف راوی ہے، لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاہد اور دوسری احادیث کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الالبانی 100 و صحیح الأدب المفرد: 878- 1133)
وضاحت: ۱؎: یہ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی تقصیر ظاہر کی باوجود اس کے کہ میں نے روزہ نہیں رکھا بیمار پرسی نہیں کی، لیکن مالک کا احسان ہے کہ میری صبح خیریت کے ساتھ اس نے کرائی، سبحان اللہ، رسول اکرم ﷺ باوجود کثرت عبادت، ریاضت، قرب الٰہی اور گناہوں سے پاک اور صاف ہونے کے اپنی تقصیر کا اقرار اور مالک کی نعمتوں کا اظہار کرتے تھے، اور کسی بندے کی کیا مجال ہے جو اپنی عبادت و طاعت اور تقویٰ پر نازاں ہو، یا اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ہم کو کھلاتا اور پلاتا ہے، اور خیریت اور عافیت سے ہماری صبح اور شام گزارتا ہے، اے اللہ! ہم تیرے احسان اور نعمت کا شکر جتنا شکر کریں سب کم ہے۔
ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے تو فرمایا: ” «السلام عليكم»“ انہوں نے (جواب میں) «وعليك السلام ورحمة الله وبركاته» کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «كيف أصبحتم» آپ نے صبح کیسے کی“؟ جواب دیا: «بخير نحمد الله» خیریت سے کی اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، لیکن آپ نے کیسے کی؟ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «الحمد لله» میں نے بھی خیریت کے ساتھ صبح کی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11193، ومصباح الزجاجة: 1294) (ضعیف)» (سند میں عبد اللہ بن عثمان مستور راوی ہیں، امام بخاری فرماتے ہیں، «مالک بن حمزہ عن أبیہ عن جدہ أن النبی ﷺ دعا للعباس، الحدیث لایتابع علیہ» اس کا کوئی متابع نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه بن عثمان بن إسحاق: مستور (تقريب: 3464) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 510
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہارے پاس کسی قوم کا کوئی معزز آدمی آئے تو تم اس کا احترام کرو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8440، ومصباح الزجاجة: 1295) (حسن)» (سند میں سعید بن مسلمہ ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1205)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا يزيد بن هارون , عن سليمان التيمي , عن انس بن مالك , قال: عطس رجلان عند النبي صلى الله عليه وسلم , فشمت احدهما او سمت ولم يشمت الآخر , فقيل: يا رسول الله , عطس عندك رجلان , فشمت احدهما ولم تشمت الآخر , فقال:" إن هذا حمد الله , وإن هذا لم يحمد الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: عَطَسَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا أَوْ سَمَّتَ وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ , فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , عَطَسَ عِنْدَكَ رَجُلَانِ , فَشَمَّتَّ أَحَدَهُمَا وَلَمْ تُشَمِّتِ الْآخَرَ , فَقَالَ:" إِنَّ هَذَا حَمِدَ اللَّهَ , وَإِنَّ هَذَا لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں نے چھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کے جواب میں «يرحمك الله»”اللہ تم پر رحم کرے“ کہا، اور دوسرے کو جواب نہیں دیا، تو عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ کے سامنے دو آدمیوں نے چھینکا، آپ نے ایک کو جواب دیا دوسرے کو نہیں دیا، اس کا سبب کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک نے (چھینکنے کے بعد) «الحمد لله» کہا، اور دوسرے نے نہیں کہا“۔
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھینکنے والے کو تین مرتبہ جواب دیا جائے، جو اس سے زیادہ چھینکے تو اسے زکام ہے“۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو «الحمد لله» کہے، اس کے پاس موجود لوگ «يرحمك الله» کہیں، پھر چھینکنے والا ان کو جواب دے «يهديكم الله ويصلح بالكم»”اللہ تمہیں ہدایت دے، اور تمہاری حالت درست کرے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10218، ومصباح الزجاجة: 1296)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأدب 3 (2741)، مسند احمد (1/120، 122)، سنن الدارمی/الإستئذان 30 (2701) (صحیح)» (سند میں محمد بن عبدالرحمن ابن ابی الیلیٰ ضعیف ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2741) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 510
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد , حدثنا وكيع , عن ابي يحيى الطويل رجل من اهل الكوفة , عن زيد العمي , عن انس بن مالك , قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم ," إذا لقي الرجل فكلمه , لم يصرف وجهه عنه حتى يكون هو الذي ينصرف , وإذا صافحه لم ينزع يده من يده حتى يكون هو الذي ينزعها , ولم ير متقدما بركبتيه جليسا له قط". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ أَبِي يَحْيَى الطَّوِيلِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلُ الْكُوفَةِ , عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ," إِذَا لَقِيَ الرَّجُلَ فَكَلَّمَهُ , لَمْ يَصْرِفْ وَجْهَهُ عَنْهُ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْصَرِفُ , وَإِذَا صَافَحَهُ لَمْ يَنْزِعْ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الَّذِي يَنْزِعُهَا , وَلَمْ يُرَ مُتَقَدِّمًا بِرُكْبَتَيْهِ جَلِيسًا لَهُ قَطُّ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب کسی شخص سے ملاقات ہوتی اور آپ اس سے بات کرتے تو اس وقت تک منہ نہ پھیرتے جب تک وہ خود نہ پھیر لیتا، اور جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک کہ وہ خود نہ چھوڑ دیتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلایا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 841، ومصباح الزجاجة: 1297)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/صفة القیامة 46 (2490)، بعضہ وقال: غریب) (ضعیف)» (زید العمی ضعیف راوی ہے، لیکن مصافحہ کا جملہ صحیح اور ثابت ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 4285)
قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا جملة المصافحة فهي ثابتة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2490) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 510