(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا ابو اسامة ، عن عوف ، عن زرارة بن اوفى ، حدثني عبد الله بن سلام ، قال: لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، انجفل الناس قبله، وقيل: قد قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قد قدم رسول الله، قد قدم رسول الله، ثلاثا، فجئت في الناس لانظر فلما تبينت وجهه , عرفت ان وجهه ليس بوجه كذاب، فكان اول شيء سمعته تكلم به , ان قال:" يا ايها الناس افشوا السلام، واطعموا الطعام، وصلوا الارحام، وصلوا بالليل والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، انْجَفَلَ النَّاسُ قِبَلَهُ، وَقِيلَ: قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، قَدْ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ، ثَلَاثًا، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ فَلَمَّا تَبَيَّنْتُ وَجْهَهُ , عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، فَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ تَكَلَّمَ بِهِ , أَنْ قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ".
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف تیزی سے بڑھے، اور کہا گیا کہ اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، یہ تین بار کہا، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ پہنچا تاکہ (آپ کو) دیکھوں، جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہو سکتا، اس وقت سب سے پہلی بات جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنی وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو، اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز ادا کرو، (ایسا کرنے سے) تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب یہ سارے اچھے کام کرو گے تو ضرور تم کو جنت ملے گی، سبحان اللہ کیا عمدہ نصیحتیں ہیں، اور یہ سب اصولی ہیں، سعادت و نیک بختی اور خوش اخلاقی کے ناتے جوڑنا، یعنی اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ عمدہ سلوک کرنا، امام نووی کہتے ہیں کہ ابتداً سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے، اگر جماعت کو سلام کرے تو بعضوں کا جواب دینا کافی ہو گا، اور افضل یہ ہے کہ جماعت میں ہر ایک ا بتداء سلام کرے، اور ہر ایک جواب ضروری دے اور کم درجہ یہ ہے کہ السلام علیکم کہے اور کامل یہ ہے کہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے، اور السلام علیکم تو اتنی آواز سے کہنا کہ مخاطب سنے، اسی طرح سلام کا فوری جواب دینا ضروری ہے، جب کوئی شخص غائب کی طرف سے سلام پہنچائے اور بہتر ہے کہ یوں کہے علیک وعلیہ السلام، السلام علیکم الف ولام کے ساتھ افضل ہے، سلام علیکم بغیر الف اورلام کے بھی درست ہے، اور قرآن شریف میں ہے: «سلام عليكم طبتم فادخلوها خالدين»(سورة الزمر: 73)۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، اور بھائی بھائی ہو جاؤ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7670، ومصباح الزجاجة: 1117)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/156) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 587)»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا اسلام بہتر ہے ۱؎؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھانا کھلانا، ہر شخص کو سلام کرنا، چاہے اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو“۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہوتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب ایک آدمی پیٹ بھر کھاتا ہو، تو وہ دو آدمیوں کو کافی ہو جائے گا، اس پر گزارہ کر سکتے ہیں گو خوب آسودہ نہ ہوں، بعضوں نے کہا: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کھانے کی قلت ہو، اور مسلمان بھوکے ہوں، تو ہر ایک آدمی کو مستحب ہے کہ اپنے کھانے میں ایک اور بھائی کو شریک کرے، اس صورت میں دونوں زندہ رہ سکتے ہیں اور کم کھانے میں فائدہ بھی ہے کہ آدمی چست چالاک رہتا ہے اور صحت عمدہ رہتی ہے، بعضوں نے کہا: مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کے کھانے میں دو بھائی مسلمان شریک ہوں گے، اور اللہ تعالی کا نام لے کر کھائیں گے، تو وہ کھانا دونوں کو کفایت کر جائے گا، اور برکت ہوگی، واللہ اعلم۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے، دو کا کھانا تین اور چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا پانچ اور چھ کے لیے کافی ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10535، ومصباح الزجاجة: 1118) (ضعیف جدا)» (سند میں عمرو بن دینار ہیں، جنہوں نے سالم سے منکر احادیث روایت کی ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 561)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عمرو بن دينار قھرمان آل الزبير ضعيف و الحديث السابق (الأصل: 3255) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 493
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 12 (5376، 5397)، (تحفة الأشراف: 13412)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الأشربة 34 (2062، 2063)، سنن الترمذی/الأطعمة 20 (1818، 1819)، موطا امام مالک/صفة النبی صلی اللہ علیہ وسلم 6 (9)، مسند احمد (2/21، 43، 74، 145، 257، 415، 435، 437، 455، 3/333، 346، 357، 392، 4/336، 5/370، 6/335، 397)، سنن الدارمی/الأطعمة 13 (2086) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر کئی طرح کا کھانا کھاتا ہے، سود کا، رشوت کا، غبن کا، چوری کا، ڈاکہ کا، بددیانتی کا، ملاوٹ کا، اور مومن صرف حلال کا کھانا کھاتا ہے۔ حدیث کا مقصود یہ ہے کہ کافر بہت کھاتا ہے اور مومن کم کھاتا ہے نیز یہ بات بطور اکثر کے ہے یہ مطلب نہیں کہ بہت کھانے والے کافر ہی ہوتے ہیں بعض مسلمان بھی بہت کھاتے ہیں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر کی تمام تر حرص پیٹ ہوتا ہے اور مومن کا اصل مقصود آخرت ہوا کرتی ہے پس مومن کی شان ہے کہ وہ کھانا کم کھاتا ہے اور زیادہ کھانے کی حرص کفر کی خصلت ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر آپ کو کھانا اچھا لگتا تو اسے کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ ہم اس سلسلے میں لوگوں کی مخالفت کرتے ہیں، لوگ «(الأعمش عن أبي حازم (عن أبي هريرة)» کہتے ہیں (اس کے بجائے میں «الأعمش عن أبي يحيى عن أبي هريرة» روایت کرتا ہوں)۔