Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
4. بَابُ : النَّهْيِ أَنْ يُعَابَ الطَّعَامُ
باب: کھانے میں عیب نکالنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3259
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" مَا عَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ إِنْ رَضِيَهُ أَكَلَهُ، وَإِلَّا تَرَكَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر آپ کو کھانا اچھا لگتا تو اسے کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 23 (3564)، الأطعمة 21 (5409)، صحیح مسلم/الأشربة 35 (2064)، سنن ابی داود/الأطعمة 14 (3763)، سنن الترمذی/البروالصلة 84 (2031)، (تحفة الأشراف: 13403)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/474، 479، 481) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3259 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3259  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر پکانے والے سے کھانا پکانے میں کوئی کمی رہ جائے تو برداشت کرنی چاہیے۔
معمولی بات پر آپے سے باہر ہو جانا اخلاق کے منافی ہے۔

(2)
بعض اوقات کوئی انسان کو پسند نہیں ہوتا تب طبیعت پر جبر کرکے کھانا ضروری نہیں اور نہ پیش کرنے والے ہی پر ناراض ہونا چاہیے کہ یہ کھانا کیوں پکایا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3259