ناجیہ خزاعی رضی اللہ عنہ (جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے اونٹ لے جایا کرتے تھے) کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہدی کا جو اونٹ تھک کر مرنے کے قریب ہو جائے اسے میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو نحر (ذبح) کر ڈالو، اور اس کی جوتی اسی کے خون میں ڈبو کر اس کے پٹھے میں مار لگا دو، پھر اس کو چھوڑ دو کہ لوگ اسے کھائیں“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 19 (1762)، سنن الترمذی/الحج 71 (910)، (تحفة الأشراف: 11581)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 47 (148)، مسند احمد (4/333)، سنن الدارمی/المناسک 66 (1950) (صحیح)»
علقمہ بن نضلہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے انتقال کے وقت تک مکہ کے گھروں کو صرف «سوائب» کہا جاتا تھا ۱؎ جو ضرورت مند ہوتا ان میں رہتا، اور جس کو حاجت نہ ہوتی، وہ دوسروں کو اس میں رہنے کے لیے دے دیتا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10018، ومصباح الزجاجة: 1075) (ضعیف)» (علقمہ بن نضلہ کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی بے کرایہ والے گھر اور وقف شدہ مکان۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف صححه البوصيري علي شرط مسلم (!) وضعفه الدميري وقال: ”علقمة بن نضلة لا يصح له صحبة“ وقوله ھو الصواب،وقال ابن حجر: ”تابعي صغير،أخطأ من عده في الصحابة“ (تقريب:4683) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 487
عبداللہ بن عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنی اونٹنی پر حزورہ (مکہ میں ایک مقام) میں کھڑے فرما رہے تھے: ”قسم اللہ کی! بلاشبہ تو اللہ کی ساری زمین سے بہتر ہے، اور اللہ کی زمین میں مجھے سب سے زیادہ پسند ہے، قسم اللہ کی! اگر میں تجھ سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 69 (3925)، (تحفة الأشراف: 6641)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/305)، سنن الدارمی/السیر 67 (2552) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا يونس بن بكير ، حدثنا محمد بن إسحاق ، حدثنا ابان بن صالح ، عن الحسن بن مسلم بن يناق ، عن صفية بنت شيبة ، قالت: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب عام الفتح، فقال:" يا ايها الناس إن الله حرم مكة يوم خلق السموات والارض، فهي حرام إلى يوم القيامة، لا يعضد شجرها ولا ينفر صيدها ولا ياخذ لقطتها إلا منشد"، فقال العباس: إلا الإذخر، فإنه للبيوت والقبور، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إلا الإذخر". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ يَنَّاقٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ عَامَ الْفَتْحِ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهِيَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا يَأْخُذُ لُقْطَتَهَا إِلَّا مُنْشِدٌ"، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ لِلْبُيُوتِ وَالْقُبُورِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَّا الْإِذْخِرَ".
صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے سال خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اللہ نے مکہ کو اسی دن حرام قرار دے دیا جس دن اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، اور وہ قیامت تک حرام رہے گا، نہ وہاں کا درخت کاٹا جائے گا، نہ وہاں کا شکار بدکایا جائے گا، اور نہ وہاں کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے گی، البتہ اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے“، اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اذخر (نامی گھاس) کا اکھیڑنا جائز فرما دیجئیے کیونکہ وہ گھروں اور قبروں کے کام آتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اذخر اکھاڑنا جائز ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15908، ومصباح الزجاجة: 1076)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز 76 (1349 تعلیقاً) (حسن)» (ابان بن صالح ضعیف ہیں، لیکن شاہد کی تقویت سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 4 /249)
عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ امت برابر خیر اور بھلائی میں رہے گی جب تک وہ اس حرمت والے شہر کی اس طرح تعظیم کرتی رہے گی جیسا کہ اس کی تعظیم کا حق ہے، پھر جب لوگ اس کی تعظیم کو چھوڑ دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11012، ومصباح الزجاجة: 1077)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/347) (ضعیف)» (یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يزيد بن أبي زياد: ضعيف مشهور انوار الصحيفه، صفحه نمبر 487
وضاحت: ۱؎: اس طرح آخری زمانہ میں اسلام بھی سب ملکوں سے ہوتا ہوا مدینہ میں آ کر دم لے گا، سابق میں مدینہ ہی سے اسلام ساری دنیا میں پھیلا اخیر زمانہ میں سمٹ کر پھر مدینہ ہی میں آ جائے گا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو مدینہ میں مر سکے تو وہ ایسا ہی کرے، کیونکہ جو وہاں مرے گا میں اس کے لیے گواہی دوں گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 68 (3917)، (تحفة الأشراف: 7553)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/74، 104) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ابراہیم تیرے خلیل (گہرے دوست) اور تیرے نبی ہیں، اور تو نے مکہ کو بزبان ابراہیم حرام ٹھہرایا ہے، اے اللہ! میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، اور میں مدینہ کو اس کی دونوں کالی پتھریلی زمینوں کے درمیان کی جگہ کو حرام ٹھہراتا ہوں“۱؎۔ ابومروان کہتے ہیں: «لابتيها» کے معنی مدینہ کے دونوں طرف کی کالی پتھریلی زمینیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14040، ومصباح الزجاجة: 1078)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 85 (1372)، سنن الترمذی/الدعوات 54 (3454)، موطا امام مالک/الجامع 1 (2) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جو دونوں طرف مدینہ کے کناروں پر ہیں، اور اس وقت حرہ شرقیہ اور حرہ غربیہ کے نام سے دو بڑے آباد محلے ہیں، ایک جماعت علماء اور اہل حدیث کا یہ مذہب ہے کہ مدینہ کا حرم بھی حرمت میں مکہ کے حرم کی طرح ہے، اور وہاں کا درخت بھی اکھیڑنا منع ہے، اسی طرح وہاں کے شکار کا ستانا اور حنفیہ اور جمہور علماء یہ کہتے ہیں کہ مدینہ کا حرم احکام میں مکہ کے حرم کی طرح نہیں ہے، اور اس حدیث سے صر ف اس کی تعظیم مراد ہے، یعنی وہ ہلاک اور تباہ ہو جائے گا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ والوں کو جو کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح گھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15068)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 89 (1386)، مسند احمد (2/279، 309، 357) (صحیح)»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے، اور ہم اس سے، اور وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ پر قائم ہے، اور عیر (یہ بھی ایک پہاڑ ہے) جہنم کے باغات میں سے ایک باغ پر قائم ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 977، ومصباح الزجاجة: 1079) (ضعیف)» (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور ان کے شیخ عبداللہ بن مکنف مجہول ہیں، لیکن حدیث کا پہلا ٹکڑا صحیح ہے، جب کہ صحیح بخاری میں دوسری سند سے انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، (2889- 3367)، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1820)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن وشيخه عبد اللّٰه بن مكنف:مجهول (تقريب: 3639) وضعفه البخاري وغيره وشطر الحديث ((إن أحدًا جبل يحبنا ونحبه)) صحيح متفق عليه (البخاري 4083،مسلم 1393/504) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 487