سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
102. . بَابُ : أَجْرِ بُيُوتِ مَكَّةَ
باب: مکہ میں مکانات کا کرایہ لینے کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 3107
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ نَضْلَةَ ، قَالَ:" تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَمَا تُدْعَى رِبَاعُ مَكَّةَ إِلَّا السَّوَائِبَ مَنِ احْتَاجَ سَكَنَ، وَمَنِ اسْتَغْنَى أَسْكَنَ".
علقمہ بن نضلہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے انتقال کے وقت تک مکہ کے گھروں کو صرف «سوائب» کہا جاتا تھا ۱؎ جو ضرورت مند ہوتا ان میں رہتا، اور جس کو حاجت نہ ہوتی، وہ دوسروں کو اس میں رہنے کے لیے دے دیتا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10018، ومصباح الزجاجة: 1075) (ضعیف)» (علقمہ بن نضلہ کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی بے کرایہ والے گھر اور وقف شدہ مکان۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
صححه البوصيري علي شرط مسلم (!) وضعفه الدميري وقال: ”علقمة بن نضلة لا يصح له صحبة“ وقوله ھو الصواب،وقال ابن حجر: ”تابعي صغير،أخطأ من عده في الصحابة“ (تقريب:4683)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 487