حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس حاجی کی ہڈی ٹوٹ جائے، یا لنگڑا ہو جائے، تو وہ حلال ہو جائے (احرام کھول ڈالے) اب اس پر دوسرا حج ہے“۱؎۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بیان کی تو ان دونوں نے کہا: حجاج نے سچ کہا۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج و عمرہ کی نیت سے گھر سے نکلنے والے کو اگر اچانک کوئی مرض لاحق ہو جائے تو وہ وہیں پر حلال ہو جائے گا لیکن اگر یہ حج فرض ہو تو آئندہ سال اس کو حج کرنا ہو گا۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے غلام عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حجاج بن عمرو رضی اللہ عنہ سے محرم کے رک جانے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جس شخص کی ہڈی ٹوٹ گئی، یا بیمار ہو گیا، یا لنگڑا ہو گیا تو وہ حلال ہو گیا اور اس پر آئندہ سال حج ہے“۱؎۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بیان کی تو انہوں نے کہا: حجاج نے سچ کہا۔ عبدالرزاق کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث ہشام صاحب دستوائی کی کتاب میں ملی، تو اسے لے کر میں معمر کے پاس آیا، تو انہوں نے یہ حدیث مجھے پڑھ کر سنائی یا میں نے ا نہیں پڑھ کر سنائی۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، ومحمد بن الوليد ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الرحمن بن الاصبهاني ، عن عبد الله بن معقل ، قال: قعدت إلى كعب بن عجرة في المسجد فسالته عن هذه الآية: ففدية من صيام او صدقة او نسك سورة البقرة آية 196، قال كعب : في انزلت كان بي اذى من راسي، فحملت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والقمل يتناثر على وجهي، فقال:" ما كنت ارى الجهد بلغ بك ما ارى، اتجد شاة؟"، قلت: لا، قال: فنزلت هذه الآية: ففدية من صيام او صدقة او نسك سورة البقرة آية 196، قال:" فالصوم ثلاثة ايام، والصدقة على ستة مساكين لكل مسكين نصف صاع من طعام، والنسك شاة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ: قَعَدْتُ إِلَى كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فِي الْمَسْجِدِ فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ كَعْبٌ : فِيَّ أُنْزِلَتْ كَانَ بِي أَذًى مِنْ رَأْسِي، فَحُمِلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي، فَقَالَ:" مَا كُنْتُ أُرَى الْجُهْدَ بَلَغَ بِكَ مَا أَرَى، أَتَجِدُ شَاةً؟"، قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ:" فَالصَّوْمُ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، وَالصَّدَقَةُ عَلَى سِتَّةِ مَسَاكِينَ لِكُلِّ مِسْكِينٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ طَعَامٍ، وَالنُّسُكُ شَاةٌ.
عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں مسجد میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تو میں نے ان سے آیت کریمہ: «ففدية من صيام أو صدقة أو نسك»(سورۃ البقرہ: ۱۹۶) کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے، میرے سر میں تکلیف تھی تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں لایا گیا کہ جوئیں (میرے سر میں اتنی کثرت سے تھیں کہ) میرے منہ پر گر رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمہیں اس قدر تکلیف ہو گی، کیا ایک بکری تمہیں مل سکتی ہے“؟ میں نے عرض کیا: نہیں، تب یہ آیت اتری: «ففدية من صيام أو صدقة أو نسك» یعنی ”فدیہ ہے صوم کا یا صدقہ کا یا قربانی کا“، تو صوم تین دن کا ہے، اور صدقہ چھ مسکینوں کو کھانا دینا ہے، ہر مسکین کو آدھا صاع، اور قربانی ایک بکری کی ہے ۱؎۔
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس وقت جوؤں نے مجھے پریشان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنا سر منڈوا ڈالوں، اور تین دن روزے رکھوں، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں ایک درد کی وجہ سے جو آپ کو ہوا تھا، پچھنے لگوائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2778، ومصباح الزجاجة: 1069)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/357، 363) (صحیح)» (سند میں محمد بن أبی الضیف ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث دوسرے طرق سے صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3863) نسائي (2851) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 487
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں اپنے سر میں زیتون کا تیل لگاتے تھے جو «مقتت»(خوشبودار) نہ ہوتا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 114 (962)، (تحفة الأشراف: 7060)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/25، 29، 59، 72، 126، 145) (ضعیف)» (سند میں فرقد سبخی ضعیف اور کثیر الخطا راوی ہے، اس وجہ سے ترمذی نے حدیث پر غریب کا حکم لگایا ہے، یعنی ضعیف ہے، لیکن صحیح بخاری میں یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً مروی ہے: الحج 18 (1537)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (962) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 487
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عمرو بن دينار ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس : ان رجلا اوقصته راحلته وهو محرم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اغسلوه بماء، وسدر، وكفنوه في ثوبيه، ولا تخمروا وجهه ولا راسه، فإنه يبعث يوم القيامة ملبيا"، (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَجُلًا أَوْقَصَتْهُ رَاحِلَتُهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ، وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوا وَجْهَهُ وَلَا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا"،
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ احرام کی حالت میں ایک شخص کی اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، اور اس کے دونوں کپڑوں ہی میں اسے کفنا دو، اس کا منہ اور سر نہ ڈھانپو کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا“۔
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی کے مثل مروی ہے مگر اس میں «أوقصته» کے بجائے «أعقصته راحلته» ہے اور اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو خوشبو نہ لگاؤ کیونکہ وہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھایا جائے گا“۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے شکار کئے ہوئے بجو کے کفارہ میں ایک مینڈھا متعین فرمایا، اور اسے شکار قرار دیا ۱؎۔