عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے چرواہوں کو رخصت دی کہ وہ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو رمی کر لیں، پھر یوم النحر کے بعد کے دو دنوں کی رمی ایک ساتھ جمع کر لیں، خواہ گیارہویں، بارہویں دونوں کی رمی بارہویں کو کریں، یا گیارہویں کو بارہویں کی بھی رمی کر لیں ۱؎۔ مالک بن انس کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا: پہلے دن رمی کریں پھر جس دن کوچ کرنے لگیں اس دن کر لیں۔
تخریج الحدیث: «أنظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5030) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ وہ اونٹ چرانے کے لیے منیٰ سے دور چلے جاتے ہیں، ان کو روزی روٹی کے لیے منیٰ میں آنا دشوار ہے، اس لیے دونوں کی رمی ایک دن آ کر کر سکتے ہیں، مثلاً یوم النحر کو رمی کر کے چلے جائیں پھر ۱۱ ذی الحجہ کو نہ کریں،۱۲ کو آ کر دونوں دن کی رمی ایک بار لیں۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے تھے، ہم نے بچوں کی طرف سے لبیک پکارا، اور ان کی طرف سے رمی کی۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 84 (927)، (تحفة الأشراف: 2662)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/314) (ضعیف) (أ شعث بن سوار ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (927) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 485
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار تھا، تو میں برابر آپ کا تلبیہ سنتا رہا یہاں تک کہ آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، جب آپ نے اس کی رمی کر لی تو لبیک کہنا ترک کر دیا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب تم رمی جمار کر چکتے ہو تو ہر چیز سوائے بیوی کے حلال ہو جاتی ہے، اس پر ایک شخص نے کہا: ابن عباس! اور خوشبو؟ تو انہوں نے کہا: میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سر میں مشک ملتے ہوئے دیکھا، کیا وہ خوشبو ہے یا نہیں؟ ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی سے فراغت کے بعد پہلی حلت حاصل ہو جاتی ہے یعنی محرم کے لیے خوشبو لگانے، احرام کھولنے اور سلے کپڑے پہننے وغیرہ کی اجازت ہو جاتی ہے، وہ صرف بیوی سے صحبت نہیں کرے یہاں تک کہ وہ طواف افاضہ سے فارغ ہو جائے۔ طواف کے بعد یوم النحر کو جب رمی سے فارغ ہو تو اگر قربانی اس پر واجب ہو تو قربانی کرے، پھر سر منڈوائے یا بال کترواے، اور غسل کرے، اور کپڑے بدلے اور خوشبو لگائے، اور مکہ میں جا کر بیت اللہ کا طواف کرے اس طواف کو طواف افاضہ اور طواف صدر اور طواف زیارہ کہتے ہیں، اور یہ حج کا ایک بڑا رکن ہے اور فرض ہے، پھر منیٰ میں لوٹ آئے اور ظہر منیٰ میں آ کر پڑھے، ایسا ہی حدیث میں وارد ہے، اور اب سب چیزیں حلال ہو گئیں یہاں تک کہ عورتوں سے صحبت کرنا بھی، اور مستحب ہے کہ یہ طواف، رمی، نحر اور حلق کے بعد کیا جائے اگر کسی نے اس طواف کو یوم النحر کو ادا نہ کیا تو ۱۱، یا ۱۲ ذی الحجہ کو کر لے اس پر دم نہ ہو گا، لیکن جب تک یہ طواف نہ کرے گا حج پورا نہ ہو گا، اور عورتیں حلال نہ ہوں گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (3086) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 486
وضاحت: ۱؎: «حلق» یعنی سر منڈانا اور «تقصیر» یعنی بال کترانا دونوں جائز ہیں، لیکن «حلق» افضل ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار «حلق» کرانے والوں کے لیے دعا کی، حج میں حلق» ا فضل ہے، «حلق» اور «تقصیر» حج اور عمرہ کا ایک رکن ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سر منڈانے والوں کو بخش دے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور بال کتروانے والوں کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! سر منڈانے والوں کو بخش دے“، آپ نے یہ تین بار فرمایا: تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اور بال کتروانے والوں کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور بال کتروانے والوں کو بھی“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 127 (1728)، صحیح مسلم/الحج 55 (1302)، (تحفة الأشراف: 14904)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/231) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ سر منڈانا کتروانے سے افضل ہے کیونکہ سر منڈوانے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دعا کی، اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار اور وہ بھی آخر میں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، واحمد بن ابي الحواري الدمشقي ، قالا: حدثنا عبد الله بن نمير ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" رحم الله المحلقين"، قالوا: والمقصرين، يا رسول الله؟، قال:" رحم الله المحلقين"، قالوا: والمقصرين، يا رسول الله؟، قال:" رحم الله المحلقين"، قالوا: والمقصرين، يا رسول الله؟، قال:" والمقصرين". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَأَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْحَوَارِيِّ الدمشقي ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ"، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ"، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ"، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" وَالْمُقَصِّرِينَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے“، لوگوں نے عرض کیا: اور بال کٹوانے والوں پر؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے“، لوگوں نے عرض کیا: اور بال کٹوانے والوں پر؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے“، لوگوں نے عرض کیا: اور بال کٹوانے والوں پر؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور بال کٹوانے والوں پر بھی“۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول! آپ نے بال منڈوانے والوں کے لیے تین بار دعا فرمائی، اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے شک نہیں کیا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6410، ومصباح الزجاجة: 1058)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/353) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: بلکہ جس حکم کو اللہ تعالیٰ نے پہلی بار بیان کیا اسی پر عمل کیا، قرآن شریف میں ہے: «محلقين رؤوسكم ومقصرين»(سورة الفتح: 27) تو پہلے حلق کو ذکر فرمایا۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عبد اللّٰه ابن أبي نجيح عنعن وھو مدلس انوار الصحيفه، صفحه نمبر 486
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا بات ہے لوگوں نے اپنے عمرے سے احرام کھول دیا، اور آپ نے نہیں کھولا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے سر کی تلبید ۱؎ کی تھی، اور ہدی (کے جانور) کو قلادہ پہنایا تھا ۲؎ اس لیے جب تک میں قربانی نہ کر لوں حلال نہیں ہو سکتا ۳؎۔
وضاحت: ۱؎: تلبید کہتے ہیں بالوں کو گوند وغیرہ سے جما لینا تاکہ پریشان نہ ہوں، اور احرام کے وقت گرد و غبار سے سر محفوظ رہے۔ ۲؎: ہدی کے جانور کو قلادہ پہنانے کو تقلید کہتے ہیں، تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔ ۳؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تلبید جائز ہی نہیں بلکہ مسنون ہے۔