انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفات کے لیے چلے، تو ہم میں سے کچھ لوگ اللہ اکبر کہتے تھے اور کچھ لوگ لبیک پکارتے تھے، تو اس نے نہ اس پر عیب لگایا اور نہ اس نے اس پر، اور بسا اوقات انہوں نے یوں کہا: نہ انہوں نے ان لوگوں پر عیب لگایا، اور نہ ان لوگوں نے ان پر۔
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، وعمرو بن عبد الله ، قالا: حدثنا وكيع ، انبانا نافع بن عمر الجمحي ، عن سعيد بن حسان ، عن ابن عمر " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينزل بعرفة في وادي نمرة. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: فلما قتل الحجاج ابن الزبير، ارسل إلى ابن عمر : اي ساعة، كان النبي صلى الله عليه وسلم يروح في هذا اليوم، قال: إذا كان ذلك رحنا، فارسل الحجاج رجلا ينظر اي ساعة يرتحل، فلما اراد ابن عمر ان يرتحل، قال: ازاغت الشمس؟، قالوا: لم تزغ بعد، فجلس ثم قال: ازاغت الشمس؟، قالوا: لم تزغ بعد، فجلس ثم قال: ازاغت الشمس؟، قالوا: لم تزغ بعد، فجلس ثم قال: ازاغت الشمس؟، قالوا: نعم، فلما قالوا: قد زاغت، ارتحل"، قال وكيع: يعني راح. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، أَنْبَأَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْزِلُ بِعَرَفَةَ فِي وَادِي نَمِرَةَ. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: فَلَمَّا قَتَلَ الْحَجَّاجُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ : أَيَّ سَاعَةٍ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُوحُ فِي هَذَا الْيَوْمِ، قَالَ: إِذَا كَانَ ذَلِكَ رُحْنَا، فَأَرْسَلَ الْحَجَّاجُ رَجُلًا يَنْظُرُ أَيَّ سَاعَةٍ يَرْتَحِلُ، فَلَمَّا أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ أَنْ يَرْتَحِلَ، قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟، قَالُوا: لَمْ تَزِغْ بَعْدُ، فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟، قَالُوا: لَمْ تَزِغْ بَعْدُ، فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟، قَالُوا: لَمْ تَزِغْ بَعْدُ، فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟، قَالُوا: نَعَمْ، فَلَمَّا قَالُوا: قَدْ زَاغَتْ، ارْتَحَلَ"، قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي رَاحَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کی وادی نمرہ میں ٹھہرتے، راوی کہتے ہیں: جب حجاج نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس یہ پوچھنے کے لیے آدمی بھیجا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آج کے دن کس وقت (نماز اور خطبہ کے لیے) نکلتے تھے؟ انہوں نے کہا: جب یہ وقت آئے گا تو ہم خود چلیں گے، حجاج نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ دیکھتا رہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کب نکلتے ہیں؟ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے چلنے کا ارادہ کیا، تو پوچھا: کیا سورج ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا ہے، تو وہ بیٹھ گئے، پھر پوچھا: کیا اب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا ہے، پھر آپ بیٹھ گئے، پھر آپ نے کہا: کیا اب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو جب لوگوں نے کہا: ہاں، تو وہ چلے۔ وکیع نے «ارتحل» کا معنی «راح»(چلے) بتایا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/المناسک 61 (1914)، (تحفة الأشراف: 7073)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 87 (1660)، موطا امام مالک/الحج 64 (195)، مسند احمد (2/25) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1914) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 485
یزید بن شیبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عرفات میں ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے، جس کو ہم موقف (ٹھہرنے کی جگہ) سے دور سمجھ رہے تھے، اتنے میں ہمارے پاس ابن مربع آئے اور کہنے لگے: میں تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد بن کر آیا ہوں، آپ فرما رہے ہیں: ”تم لوگ اپنی اپنی جگہوں پر رہو، کیونکہ تم آج ابراہیم علیہ السلام کے وارث ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اس روز عرفات میں کہیں بھی ٹھہرنے سے سنت ادا ہو جائے گی، گرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھہرنے کی جگہ سے دور ہی کیوں نہ ہو، نیز ابراہیم علیہ السلام کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان جگہوں پر ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ ہی سے بطور وراثت وقوف چلا آ رہا ہے، لہذا تم سب کا وہاں وقوف (یعنی مجھ سے دور) صحیح ہے اور وارث ہونے کے ہم معنی ہے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورا عرفات جائے وقوف ہے، اور بطن عرفہ سے اٹھ جاؤ یعنی وہاں نہ ٹھہرو، اور پورا (مزدلفہ) ٹھہرنے کی جگہ ہے، اور بطن محسر سے اٹھ جاؤ یعنی وہاں نہ ٹھہرو، اور پورا منٰی منحر (مذبح) ہے، سوائے جمرہ عقبہ کے پیچھے کے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3069، ومصباح الزجاجة: 1052)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/المناسک 65 (1936)، سنن الدارمی/المناسک 50 (1921) (صحیح)» (سند میں قاسم بن عبداللہ العمری متروک راوی ہے، اس لئے «إلا ما وراء العقبة» کے لفظ کے ساتھ یہ صحیح نہیں ہے، اصل حدیث کثرت طرق اور شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 1665 - 692 1 - 1693)
وضاحت: ۱؎: بطن عرفہ سے اٹھ جاؤ: اس لئے کہ وہ میدان عرفات کی حد سے باہر ہے۔ بطن محسر سے اٹھ جاؤ: اس لئے کہ وہاں منیٰ کی حد ختم ہو جاتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله إلا ما وراء العقبة
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا القاسم بن عبد اللّٰه: متروك (تقريب: 5468) وأصل الحديث صحيح إلا ”ماوراء العقبة“ انظر صحيح مسلم (1218) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 485
(قدسي) حدثنا ايوب بن محمد الهاشمي ، حدثنا عبد القاهر بن السري السلمي ، حدثنا عبد الله بن كنانة بن عباس بن مرداس السلمي ، ان اباه اخبره، عن ابيه ان النبي صلى الله عليه وسلم دعا لامته عشية عرفة بالمغفرة، فاجيب: إني قد غفرت لهم ما خلا الظالم، فإني آخذ للمظلوم منه، قال:" اي رب، إن شئت اعطيت المظلوم من الجنة، وغفرت للظالم"، فلم يجب عشيته، فلما اصبح بالمزدلفة اعاد الدعاء، فاجيب إلى ما سال، قال: فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، او قال: تبسم، فقال له ابو بكر وعمر: بابي انت وامي، إن هذه لساعة ما كنت تضحك فيها، فما الذي اضحكك، اضحك الله سنك؟، قال:" إن عدو الله إبليس لما علم ان الله عز وجل قد استجاب دعائي وغفر لامتي، اخذ التراب فجعل يحثوه على راسه، ويدعو بالويل والثبور، فاضحكني ما رايت من جزعه". (قدسي) حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقَاهِرِ بْنُ السَّرِيِّ السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كِنَانَةَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ السُّلَمِيُّ ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لِأُمَّتِهِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ بِالْمَغْفِرَةِ، فَأُجِيبَ: إِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ مَا خَلَا الظَّالِمَ، فَإِنِّي آخُذُ لِلْمَظْلُومِ مِنْهُ، قَالَ:" أَيْ رَبِّ، إِنْ شِئْتَ أَعْطَيْتَ الْمَظْلُومَ مِنَ الْجَنَّةِ، وَغَفَرْتَ لِلظَّالِمِ"، فَلَمْ يُجَبْ عَشِيَّتَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ أَعَادَ الدُّعَاءَ، فَأُجِيبَ إِلَى مَا سَأَلَ، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: تَبَسَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، إِنَّ هَذِهِ لَسَاعَةٌ مَا كُنْتَ تَضْحَكُ فِيهَا، فَمَا الَّذِي أَضْحَكَكَ، أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ؟، قَالَ:" إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِيسَ لَمَّا عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدِ اسْتَجَابَ دُعَائِي وَغَفَرَ لِأُمَّتِي، أَخَذَ التُّرَابَ فَجَعَلَ يَحْثُوهُ عَلَى رَأْسِهِ، وَيَدْعُو بِالْوَيْلِ وَالثُّبُورِ، فَأَضْحَكَنِي مَا رَأَيْتُ مِنْ جَزَعِهِ".
عباس بن مرداس سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کی مغفرت کی دعا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب ملا کہ میں نے انہیں بخش دیا، سوائے ان کے جو ظالم ہوں، اس لیے کہ میں اس سے مظلوم کا بدلہ ضرور لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے رب! اگر تو چاہے تو مظلوم کو جنت دے اور ظالم کو بخش دے“، لیکن اس شام کو آپ کو جواب نہیں ملا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں صبح کی تو پھر یہی دعا مانگی، آپ کی درخواست قبول کر لی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یا مسکرائے، پھر آپ سے ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ ایسا وقت ہے کہ آپ اس میں ہنستے نہیں تھے تو آپ کو کس چیز نے ہنسایا؟ اللہ آپ کو ہنساتا ہی رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے دشمن ابلیس کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری دعا قبول فرما لی ہے، اور میری امت کو بخش دیا ہے، تو وہ مٹی لے کر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور کہنے لگا: ہائے خرابی، ہائے تباہی! جب میں نے اس کا یہ تڑپنا دیکھا تو مجھے ہنسی آ گئی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5140، ومصباح الزجاجة: 1053)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب 168 (5234)، مسند احمد (4/14) (ضعیف)» (عبد اللہ بن کنانہ مجہول ہیں، اور ان کی حدیث صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 2603)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (5234) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 485
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جتنا عرفہ کے دن اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں، اللہ تعالیٰ قریب ہو جاتا ہے، اور ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور فرماتا ہے: میرے ان بندوں نے کیا چا ہا“؟ ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کس چیز کی خواہش اور طلب میں اس قدر لوگ اس میدان میں جمع ہیں؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: تیری مغفرت چاہتے ہیں، اور تیرے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے میں نے ان کو بخش دیا۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن بكير بن عطاء ، سمعت عبد الرحمن بن يعمر الديلي ، قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو واقف بعرفة، واتاه ناس من اهل نجد، فقالوا: يا رسول الله، كيف الحج؟، قال:" الحج عرفة، فمن جاء قبل صلاة الفجر ليلة جمع، فقد تم حجه، ايام منى ثلاثة، فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه، ومن تاخر فلا إثم عليه"، ثم اردف رجلا خلفه، فجعل ينادي بهن. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَعْمَرَ الدِّيلِيَّ ، قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، وَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الْحَجُّ؟، قَالَ:" الْحَجُّ عَرَفَةُ، فَمَنْ جَاءَ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ لَيْلَةَ جَمْعٍ، فَقَدْ تَمَّ حَجُّهُ، أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثَةٌ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ"، ثُمَّ أَرْدَفَ رَجُلًا خَلْفَهُ، فَجَعَلَ يُنَادِي بِهِنَّ.
عبدالرحمن بن یعمر دیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، آپ عرفات میں وقوف فرما تھے، اہل نجد میں سے کچھ لوگوں آپ کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! حج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج عرفات میں وقوف ہے، جو مزدلفہ کی رات فجر سے پہلے عرفات میں آ جائے اس کا حج پورا ہو گیا، اور منیٰ کے تین دن ہیں (گیارہ بارہ اور تیرہ ذی الحجہ)، جو جلدی کرے اور دو دن کے بعد بارہ ذی الحجہ ہی کو چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جو تیسرے دن بھی رکا رہے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنے پیچھے سوار کر لیا، وہ ان باتوں کا اعلان کر رہا تھا ۱؎۔
عبدالرحمن بن یعمر دیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اتنے میں اہل نجد کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے، پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث بیان کی۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں کہ میں تو ثوری کی کوئی حدیث اس سے بہتر نہیں سمجھتا۔
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد ، عن عامر يعني الشعبي ، عن عروة بن مضرس الطائي انه حج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يدرك الناس إلا وهم بجمع، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني انضيت راحلتي، واتعبت نفسي، والله إن تركت من حبل إلا وقفت عليه، فهل لي من حج؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" من شهد معنا الصلاة وافاض من عرفات ليلا او نهارا، فقد قضى تفثه، وتم حجه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ يَعْنِي الشَّعْبِيَّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسٍ الطَّائِيِّ أَنَّهُ حَجَّ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُدْرِكِ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ بِجَمْعٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَنْضَيْتُ رَاحِلَتِي، وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي، وَاللَّهِ إِنْ تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْهِ، فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ شَهِدَ مَعَنَا الصَّلَاةَ وَأَفَاضَ مِنْ عَرَفَاتٍ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا، فَقَدْ قَضَى تَفَثَهُ، وَتَمَّ حَجُّهُ".
عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں حج کیا، تو اس وقت پہنچے جب لوگ مزدلفہ میں تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی اونٹنی کو لاغر کر دیا اور اپنے آپ کو تھکا ڈالا، اور قسم اللہ کی! میں نے کوئی ایسا ٹیلہ نہیں چھوڑا، جس پر نہ ٹھہرا ہوں، تو کیا میرا حج ہو گیا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہمارے ساتھ نماز میں حاضر رہا ہو، اور عرفات میں ٹھہر کر دن یا رات میں لوٹے، تو اس نے اپنا میل کچیل دور کر لیا، اور اس کا حج پورا ہو گیا“۱؎۔