سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
57. بَابُ : مَنْ أَتَى عَرَفَةَ قَبْلَ الْفَجْرِ لَيْلَةَ جَمْعٍ
باب: مزدلفہ کی رات میں فجر سے پہلے عرفات آنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3016
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ يَعْنِي الشَّعْبِيَّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسٍ الطَّائِيِّ أَنَّهُ حَجَّ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُدْرِكِ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ بِجَمْعٍ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَنْضَيْتُ رَاحِلَتِي، وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي، وَاللَّهِ إِنْ تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلَّا وَقَفْتُ عَلَيْهِ، فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ شَهِدَ مَعَنَا الصَّلَاةَ وَأَفَاضَ مِنْ عَرَفَاتٍ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا، فَقَدْ قَضَى تَفَثَهُ، وَتَمَّ حَجُّهُ".
عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں حج کیا، تو اس وقت پہنچے جب لوگ مزدلفہ میں تھے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی اونٹنی کو لاغر کر دیا اور اپنے آپ کو تھکا ڈالا، اور قسم اللہ کی! میں نے کوئی ایسا ٹیلہ نہیں چھوڑا، جس پر نہ ٹھہرا ہوں، تو کیا میرا حج ہو گیا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہمارے ساتھ نماز میں حاضر رہا ہو، اور عرفات میں ٹھہر کر دن یا رات میں لوٹے، تو اس نے اپنا میل کچیل دور کر لیا، اور اس کا حج پورا ہو گیا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 69 (1950)، سنن الترمذی/الحج 57 (891)، سنن النسائی/الحج 211 (3042)، (تحفة الأشراف: 9900)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/15، 261، 262)، سنن الدارمی/المناسک 54 (1930) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی حالت احرام میں پراگندہ رہنے کی مدت اس نے پوری کر لی، اب وہ اپنا سارا میل کچیل جو چھوڑ رکھا تھا دور کر سکتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3016 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3016
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس نے میل کچیل دور کرلیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ طواف وغیرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے اور حجامت بنواکر نہا دھو کر کپڑے پہن سکتا ہے۔
(2)
حج کی ادائیگی کے لیے مقرر وقت میں عرفات کی حاضری ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3016
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 624
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو کوئی مزدلفہ میں ہماری نماز میں شامل ہوا اور ہمارے ساتھ وقوف کیا یہاں تک کہ ہم نے کوچ کیا اور اس سے قبل عرفات میں رات یا دن میں قیام کر چکا ہو تو اس کا حج مکمل ہو گیا اور اس نے اپنی میل کچیل اتار لی۔“ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے ترمذی اور ابن خزیمہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 624]
624 لغوی تشریح: «من شهد صلاتنا هذه» جس نماز (فجر) کے لیے اب ہم نکلے ہیں اس میں جو حاضر ہو گیا۔
«ليلا او نهار» اس میں ایک فقہی مسئلہ بیان ہوا ہے کہ عرفہ کے روز زوال آفتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذوالحجہ کی صبح تک جو عرفات میں کسی بھی لمحے قیام پذیر رہا اس نے حج پا لیا جیسا کہ امام خطابی نے کہا ہے: «فقدتم حجة» ”اس نے حج کو پورا کر لیا۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے حج کا بڑا حصہ مکمل کر لیا۔ اس سے عرفات کا وقوف مراد ہے کیونکہ اسی کے فوت ہونے کا خوف اور اندیشہ ہوتا ہے جس کے بغیر حج کا بڑا حصہ نا مکمل رہتا ہے۔
«وقضىٰ تفثه» اس نے اپنا میل کچیل دور کر لیا، یعنی اس نے اپنے مناسک حج ادا کر لیے۔ «تفث» ان کاموں کو کہتے ہیں جنہیں محرم سر کے بال منڈوانے یا کٹوانے کے بعد حلال ہونے کے موقع پر کرتا ہے۔ اس میں اونٹوں کی قربانی اور دیگر سارے مناسک حج کی ادائیگی بھی شامل ہے کیونکہ «تفث» تو اس کے بعد ہی پورا ہوتا ہے۔ اصل میں «تفث» میل کچیل کو کہتے ہیں۔ اس حدیث کے شروع کا حصہ یوں ہے کہ حضرت عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مزدلفہ میں اس وقت پہنچا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میں ”طے“ کے دو پہاڑوں سے آ رہا ہوں۔ میں نے اپنی سواری کو (دوڑا دوڑا کر) تھکا دیا ہے اور اپنے نفس کو مشقت میں مبتلا کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے کوئی ٹیلا (پہاڑ) ایسا نہیں چھوڑا کہ جس پر وقوف نہ کیا ہو۔ (سب ٹیلوں پر وقوف کیا ہے۔) تو کیا میرا حج ہو گیا؟ پھر مذکورہ بالا ساری حدیث ذکر کی۔
فوائد و مسائل:
➊ ”اس نے اپنا میل کچیل دور کر لیا“
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے مناسک حج پورے کر لیے، اب وہ مابعد کے دیگر اعمال حج، یعنی طواف وغیرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے اور حجامت بنوا کر نہا دھو کر کپڑے پہن سکتا ہے۔
➋ حج کی ادائیگی کے لیے مقررہ وقت میں عرفات کی حاضری ضروری ہے۔ اسے ہی وقوف عرفہ کہا جاتا ہے۔
راوی حدیث: حضرت عروہ بن مضرس، ”میم“ پر ضمہ ”ضاد“ پر فتحہ اور ”را“ مشدد کے نیچے زیر ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام طائی۔ مشہور صحابی ہیں۔ حجۃ الوداع میں شامل ہوئے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کر لی۔ ان سے دس احادیث مروی ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 624
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3044
´مزدلفہ میں فجر امام کے ساتھ نہ پڑھ سکنے والے کے حکم کا بیان۔`
عروہ بن مضرس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں طے کے دونوں پہاڑوں سے ہوتا ہوا آیا ہوں، میں نے ریت کا کوئی ٹیلہ نہیں چھوڑا جس پر میں نے وقوف نہ کیا ہو، تو کیا میرا حج ہو گیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے یہ نماز (یعنی نماز فجر) ہمارے ساتھ پڑھی، اور وہ اس سے پہلے عرفہ میں رات یا دن کے کسی حصے میں ٹھہر چکا ہے، تو اس کا حج پور [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3044]
اردو حاشہ:
(1) شاید حضرت عروہ بن مضرس رضی اللہ عنہ کو بروقت رسول اللہﷺ کے اعلان حج کا پتا نہ چلا ہو، بعد میں پتہ چلا تو چل پڑے۔ چونکہ تاخیر ہو چکی تھی، لہٰذا سیدھے عرفات آئے اور وہاں سے مزدلفہ پہنچے۔
(2) ”کسی ٹیلے یا پہاڑ“ یعنی جس کے بارے میں گمان تھا کہ یہاں ٹھہرنا بھی حج کا حصہ ہے کیونکہ حج پہلے سے عربوں میں معروف تھا اور وہ حج کیا کرتے تھے۔ اور وقوف عرفات متفق علیہ مسئلہ تھا، ورنہ یہ مطلب نہیں کہ بنو طے کے علاقے سے شروع ہو کر مزدلفے تک وہ ہر پہاڑ پر وقوف کرتے آئے تھے۔ یہ تو (عملاً) ناممکن بات ہے۔
(3) اگر کوئی شخص مزدلفہ میں رات کو نہ آسکے تو بعض علماء کے نزدیک اس کا حج نہیں ہوگا۔ لیکن درست یہ ہے کہ مزدلفہ میں وقوف، وجوب کی حیثیت رکھتا ہے، جیسا کہ بعض محققین کا موقف ہے۔ اور ادھر کم از کم نماز فجر ادا کرنا شرط کی حیثیت جیسا کہ عروہ بن مضرس کی دوسری صریح حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ اس میں وقوف عرفات اور پھر مزدلفہ میں نماز فجر پانے کے ساتھ اتمام حج کو مقید کیا گیا ہے جو نماز فجر کی مزدلفہ میں رکنیت کی دلیل ہے۔ جمہور کے نزدیک وقوف واجب ہے لیکن دم سے اس کی تلافی ہو جائے گی، مگر حدیث کے ظاہر الفاظ اس کے خلاف ہیں۔ جمہور کا خیال ہے کہ یہاں نفی جنس کی نہیں بلکہ کمال کی ہے۔ لیکن بلا دلیل اس نفی کو کمال پر محمول کرنا اصول کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم
(4) ”میل کچیل دور کر لیا“ یعنی وہ رمی وغیرہ کے بعد عنقریب حلال ہو جائے گا، پھر وہ حجامت وغیرہ کروائے گا اور اچھی طرح نہائے دھوئے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3044
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:924
924- سیدنا عروہ بن مضرس طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں مزدلفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں طے کے دوپہاڑوں سے یہاں آیا ہوں۔ اللہ کی قسم! جب یہاں پہنچا ہوں، تو میں اپنے آپ کوتھکا چکا تھا۔ اپنی سواری کوتھکا چکا تھا میں نے ہر ایک پہاڑ پروقوف کیا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہمارے ساتھ اس نماز میں شریک ہوا اور وہ اس سے پہلے عرفہ میں رات کے وقت یادن کے وقت وقوف کر چکا ہو، تواس کا حج مکمل ہوگیا۔ اس نے اپنے ذمے لازم چیز کو پورا کردیا۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:924]
فائدہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ حاجی مزدلفہ میں بھی ضرور حاضری دے گا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 924