سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
Chapters on Hajj Rituals
57. بَابُ : مَنْ أَتَى عَرَفَةَ قَبْلَ الْفَجْرِ لَيْلَةَ جَمْعٍ
57. باب: مزدلفہ کی رات میں فجر سے پہلے عرفات آنے کا بیان۔
Chapter: One who comes to `Arafat before Fajr on the night of Jam`
حدیث نمبر: 3015
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن بكير بن عطاء ، سمعت عبد الرحمن بن يعمر الديلي ، قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو واقف بعرفة، واتاه ناس من اهل نجد، فقالوا: يا رسول الله، كيف الحج؟، قال:" الحج عرفة، فمن جاء قبل صلاة الفجر ليلة جمع، فقد تم حجه، ايام منى ثلاثة، فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه، ومن تاخر فلا إثم عليه"، ثم اردف رجلا خلفه، فجعل ينادي بهن.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَعْمَرَ الدِّيلِيَّ ، قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ، وَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الْحَجُّ؟، قَالَ:" الْحَجُّ عَرَفَةُ، فَمَنْ جَاءَ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ لَيْلَةَ جَمْعٍ، فَقَدْ تَمَّ حَجُّهُ، أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثَةٌ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ"، ثُمَّ أَرْدَفَ رَجُلًا خَلْفَهُ، فَجَعَلَ يُنَادِي بِهِنَّ.
عبدالرحمن بن یعمر دیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، آپ عرفات میں وقوف فرما تھے، اہل نجد میں سے کچھ لوگوں آپ کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! حج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج عرفات میں وقوف ہے، جو مزدلفہ کی رات فجر سے پہلے عرفات میں آ جائے اس کا حج پورا ہو گیا، اور منیٰ کے تین دن ہیں (گیارہ بارہ اور تیرہ ذی الحجہ)، جو جلدی کرے اور دو دن کے بعد بارہ ذی الحجہ ہی کو چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، اور جو تیسرے دن بھی رکا رہے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنے پیچھے سوار کر لیا، وہ ان باتوں کا اعلان کر رہا تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحج 69 (1949)، سنن الترمذی/الحج 57 (889، 890)، سنن النسائی/الحج 203 (3019)، 211 (3047)، (تحفة الأشراف: 9735)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/309، 310، 335)، سنن الدارمی/المناسک 54 (1929) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی دسویں ذی الحجہ کے طلوع فجر سے پہلے ایک گھڑی کے لئے بھی عرفات کا وقوف پا لے تو اس کا حج ہو گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   جامع الترمذي2975عبد الرحمن بن يعمرالحج عرفات أيام منى ثلاث فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تأخر فلا إثم عليه
   جامع الترمذي889عبد الرحمن بن يعمرالحج عرفة فمن جاء ليلة جمع قبل طلوع الفجر فقد أدرك الحج أيام منى ثلاثة فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تأخر فلا إثم عليه
   سنن أبي داود1949عبد الرحمن بن يعمرالحج يوم عرفة فمن جاء قبل صلاة الصبح من ليلة جمع فتم حجه أيام منى ثلاثة فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تأخر فلا إثم عليه
   سنن ابن ماجه3015عبد الرحمن بن يعمرالحج عرفة فمن جاء قبل صلاة الفجر ليلة جمع فقد تم حجه أيام منى ثلاثة فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تأخر فلا إثم عليه
   سنن النسائى الصغرى3019عبد الرحمن بن يعمرالحج عرفة فمن أدرك ليلة عرفة قبل طلوع الفجر من ليلة جمع فقد تم حجه
   سنن النسائى الصغرى3047عبد الرحمن بن يعمرالحج عرفة فمن جاء ليلة جمع قبل صلاة الصبح فقد أدرك حجه أيام منى ثلاثة أيام من تعجل في يومين فلا إثم عليه ومن تأخر فلا إثم عليه
   مسندالحميدي923عبد الرحمن بن يعمرالحج عرفات، من أدرك عرفة قبل الفجر فقد أدرك الحج، أيام منى ثلاثة فمن تعجل في يومين فلا إثم عليه، ومن تأخر فلا إثم عليه
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3015 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3015  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وقوف عرفات حج کا اہم ترین رکن ہے۔
جس کو یہ رکن بروقت ادا کرنے کا موقع مل گیا اس کا حج فوت نہیں ہوگا۔
اور جو شخص اتنا لیٹ ہوگیا کہ وہ وقت پر وقوف عرفات نہیں کرسکا تو اس کا حج فوت ہوگیا۔
اگر استطاعت ہوتو دوبارہ حج کرے۔

(2)
وقوف عرفات کا اصل وقت نو ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے۔
اس عرصے میں اگر کسی شخص نے چند منٹ بھی عرفات میں گزارلیے تو اس کا یہ رکن ادا ہوگیا۔

(3)
جو شخص سورج غروب ہونے تک عرفات میں نہ پہنچ سکے وہ رات کو صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے عرفات میں حاضر ہوجائے تو اس کا بھی حج ادا ہوجائے گا۔
اس کو چاہیے کہ عرفات میں تھوڑی دیر ٹھہر کر مزولفہ آ جائے اور باقی رات وہیں گزارے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3015   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1949  
´جسے عرفات کا وقوف نہ مل سکے اس کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن یعمر دیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ عرفات میں تھے، اتنے میں نجد والوں میں سے کچھ لوگ آئے، ان لوگوں نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے آواز دی: اللہ کے رسول! حج کیوں کر ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے پکار کر کہا: حج عرفات میں وقوف ہے ۱؎ جو شخص مزدلفہ کی رات کو فجر سے پہلے (عرفات میں) آ جائے تو اس کا حج پورا ہو گیا، منیٰ کے دن تین ہیں (گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ)، جو شخص دو ہی دن کے بعد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تیسرے دن بھی رکا رہے اس پر کوئی گناہ نہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنے پیچھے بٹھا لیا وہ یہی پکارتا جاتا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسی طرح مہران نے سفیان سے «الحج الحج» دو بار نقل کیا ہے اور یحییٰ بن سعید قطان نے سفیان سے «الحج» ایک ہی بار نقل کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1949]
1949. اردو حاشیہ: وقوف عرفات حج کا رکن ہے۔خواہ معمولی وت کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس وقت نو ذوالحجہ کوزوال کے وقت سےلے کر اگلے دن صبح صادق سے پہلے تک ہے۔ جس سے یہ وقوف فوت ہو جائے اس کا حج نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1949   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3019  
´عرفہ میں ٹھہرنے کی فرضیت کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن یعمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا کہ اتنے میں کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور انہوں نے حج کے متعلق آپ سے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج عرفات میں ٹھہرنا ہے جس شخص نے عرفہ کی رات مزدلفہ کی رات طلوع فجر سے پہلے پا لی تو اس کا حج پورا ہو گیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3019]
اردو حاشہ:
وقوف عرفات حج کا رکن اعظم ہے۔ اگر کوئی مجبور شخص سیدھا میقات سے عرفات پہنچ جائے، خواہ عرفہ کے دن یا اس سے اگلی رات یا طلوع فجر سے قبل یا طلوع فجر کے وقت اور چند لمحوں کا وقوف کر لے تو اس کا حج ہو جاتا ہے، لیکن اگر اس سے بھی لیٹ ہو جائے تو اس کا حج نہیں ہوگا۔ فرض ہو تو دوبارہ کرنا ہوگا ورنہ معاف ہے۔ مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ دراصل وقوف عرفات ہی حج ہے، باقی تو سنن وواجبات ہیں جو عام حالات میں تو ترک نہیں کی جا سکتیں مگر مجبور ومعذور کے لیے کچھ گنجائش ہے۔ وقوف کی قضا وقت کے بعد نہیں ہو سکتی جبکہ دیگر سنن حج کی قضا وقت کے بعد بھی ہو سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3019   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3047  
´مزدلفہ میں فجر امام کے ساتھ نہ پڑھ سکنے والے کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن یعمر دیلی کہتے ہیں کہ میں عرفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ آپ کے پاس نجد سے کچھ لوگ آئے تو انہوں نے ایک شخص کو حکم دیا، تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا: حج عرفہ (میں وقوف) ہے، جو شخص مزدلفہ کی رات میں صبح کی نماز سے پہلے عرفہ آ جائے، تو اس نے اپنا حج پا لیا۔ منیٰ کے دن تین دن ہیں، تو جو دو ہی دن قیام کر کے چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3047]
اردو حاشہ:
(1) منیٰ کے دن تین ہیں ویسے تو چار دن ہیں مگر چونکہ یوم نحر میں دوسرے کام بھی ہوتے ہیں، اس لیے اسے شمار نہیں فرمایا۔ 11، 12، 13 منیٰ کے دن ہیں۔ ان ایام میں تینوں جمروں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں لیکن اگر کوئی شخص 12 تاریخ کو رمی کر کے منیٰ سے چلا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اسے 13 تاریخ کی رمی معاف ہے، لیکن اگر کوئی شخص ٹھہرا رہے تو اسے 13 تاریخ کی رمی بھی کرنی پڑے گی۔
(2) اس پر بھی کوئی گناہ نہیں بلکہ ثواب ہوگا۔ گناہ کی نفی پہلے جملے کی مناسبت سے ہے، ورنہ ٹھہرنا گناہ کا احتمال نہیں رکھتا، البتہ جلدی چلے جانے میں گناہ کا احتمال ہو سکتا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3047   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 889  
´جس نے امام کو مزدلفہ میں پا لیا، اس نے حج کو پا لیا۔`
عبدالرحمٰن بن یعمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نجد کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اس وقت آپ عرفہ میں تھے۔ انہوں نے آپ سے حج کے متعلق پوچھا تو آپ نے منادی کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا: حج عرفات میں ٹھہرنا ہے ۱؎ جو کوئی مزدلفہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے عرفہ آ جائے، اس نے حج کو پا لیا ۲؎ منی کے تین دن ہیں، جو جلدی کرے اور دو دن ہی میں چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو دیر کرے تیسرے دن جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ (یحییٰ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ نے ایک شخص کو پیچھے بٹھایا اور اس نے آواز لگا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 889]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہو جانے سے حج فوت ہو جاتا ہے۔

2؎:
یعنی اس نے عرفہ کا وقوف پا لیا جو حج کا ایک رکن ہے اور حج کے فوت ہو جانے سے مامون و بے خوف ہو گیا،
یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہو گیا اور اسے اب کچھ اور نہیں کرنا ہے،
ابھی تو طواف افاضہ جو حج کا ایک اہم رکن ہے باقی ہے بغیر اس کے حج کیسے پورا ہو سکتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 889   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2975  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبدالرحمٰن بن یعمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج عرفات کی حاضری ہے، حج عرفات کی حاضری ہے۔ حج عرفات کی حاضری ہے، منیٰ (میں قیام) کے دن تین ہیں۔ مگر جو جلدی کر کے دو دنوں ہی میں واپس ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور جو تین دن پورے کر کے گیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۲؎ اور جو طلوع فجر سے پہلے عرفہ پہنچ گیا، اس نے حج کو پا لیا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2975]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎ اس میں ارشاد باری تعالیٰ:
   ﴿وَاذْكُرُواْ اللّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ﴾ کی طرف اشارہ ہے (البقرۃ: 203)۔

2؎:
یعنی:
بارہ ذی الحجہ ہی کو رمی جمار کر کے واپس ہو جائے یا تین دن مکمل قیام کر کے تیرہ ذی الحجہ کو جمرات کی رمی (کنکری مار) کر کے واپس ہو جائے حاجی کو اختیار ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2975   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:923  
923- سیدنا عبدالرحمٰن بن یعمردیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: حج، وقوف عرفات کا نام ہے، جو شخص صبح صادق ہونے سے پہلے عرفہ تک پہنچ جاتا ہے، وہ حج کو پالیتا ہے۔ منیٰ کے مخصوص دن تین ہیں۔ جو شخص دودن گزرنے کے بعد جلدی چلاجائے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور جو شخص ٹھہرا رہے، تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:923]
فائدہ:
اس حدیث میں ذکر ہے کہ عرفات میں پہنچنا حج کا رکن ہے، اور وہاں طلوع فجر سے پہلے پہنچنا فرض ہے، اور ایام منٰی کے تین دنوں سے مراد گیارہ بارہ اور تیرہ ذوالحجہ ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 922   

حدیث نمبر: 3015M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا الثوري ، عن بكير بن عطاء الليثي ، عن عبد الرحمن بن يعمر الديلي ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة فجاءه نفر من اهل نجد، فذكر نحوه. قال محمد بن يحيى: ما ارى للثوري حديثا اشرف منه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ الدِّيلِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَجَاءَهُ نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: مَا أُرَى لِلثَّوْرِيِّ حَدِيثًا أَشْرَفَ مِنْهُ.
عبدالرحمن بن یعمر دیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عرفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اتنے میں اہل نجد کے کچھ لوگ آپ کے پاس آئے، پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث بیان کی۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں کہ میں تو ثوری کی کوئی حدیث اس سے بہتر نہیں سمجھتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.