سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
The Chapters on Wills
7. بَابُ: الدَّيْنُ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ
7. باب: قرض کی ادائیگی وصیت سے پہلے ہو گی۔
Chapter: Debts Before The Will
حدیث نمبر: 2715
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي ، قال:" قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالدين قبل الوصية، وانتم تقرءونها من بعد وصية يوصي بها او دين سورة النساء آية 11 وإن اعيان بني الام ليتوارثون دون بني العلات.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَأَنْتُمْ تَقْرَءُونَهَا مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ سورة النساء آية 11 وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ لَيَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے پہلے قرض (کی ادائیگی) کا فیصلہ فرمایا، حالانکہ تم اس کو قرآن میں پڑھتے ہو: «من بعد وصية يوصي بها أو دين» یہ حصے اس وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو، یا ادائے قرض کے بعد (سورۃ النساء: ۱۱) ۱؎ اور حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی نہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفرائض 5 (2094، 2095)، (تحفة الأ شراف: 10043)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/79، 131، 144)، سنن الدارمی/الفرائض 28 (3027) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں الحارث الاعور ضعیف ہے، لیکن سعد بن الاطول کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: حدیث نمبر 2433، و الإرواء: 1667)

وضاحت:
۱؎: یعنی جب کوئی مر جائے اور سگے بہن بھائی چھوڑ جائے اور علاتی یعنی سوتیلے بھی جن کی ماں جدا ہو، لیکن باپ ایک ہی ہو تو سگوں کو ترکہ ملے گا اور سوتیلے محروم رہیں گے، اس مسئلہ کی پوری تفصیل علم الفرائض میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (2094۔2095،2122) وانظر الحديث الآتي (2739)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 477
8. بَابُ: مَنْ مَاتَ وَلَمْ يُوصِ هَلْ يُتَصَدَّقُ عَنْهُ
8. باب: کوئی شخص وصیت کیے بغیر مر جائے تو کیا اس کی طرف سے صدقہ دیا جائے؟
Chapter: If A Person Dies Without Having Made A Will, Can Charity Be Given On His Behalf?
حدیث نمبر: 2716
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو مروان محمد بن عثمان العثماني ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن العلاء بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن ابي مات وترك مالا ولم يوص فهل يكفر عنه ان تصدقت عنه، قال: نعم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا وَلَمْ يُوصِ فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهُ، قَالَ: نَعَمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور وہ مال چھوڑ گئے ہیں، انہوں نے وصیت نہیں کی ہے، کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کر دوں تو ان کے گناہ معاف ہو جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14043)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الوصیة 2 (1630) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 2717
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن امي افتلتت نفسها ولم توص وإني اظنها لو تكلمت لتصدقت فلها اجر إن تصدقت عنها ولي اجر قال:" نعم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَلَمْ تُوصِ وَإِنِّي أَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ لَتَصَدَّقَتْ فَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا وَلِيَ أَجْرٌ قَالَ:" نَعَمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا: میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا، اور وہ وصیت نہیں کر سکیں، میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات چیت کر پاتیں تو صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو انہیں اور مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (ملے گا)۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 15 (1004)، الوصیة 2 (1630)، (تحفة الأ شراف: 16819)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوصایا 19 (2960)، سنن ابی داود/الوصیة 15 (2881)، سنن النسائی/الوصیة 7 (3679)، موطا امام مالک/الأقضیة 41 (53)، مسند احمد (6/51) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
9. بَابُ: قَوْلِهِ {وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ}
9. باب: آیت کریمہ: «ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف» ”اور جو محتاج ہو وہ عرف کے مطابق یتیم کے مال سے کھائے“ کی تفسیر۔
Chapter: Allah's (SWT) Saying “But If he is poor, let him have for himself what is just and reasonable."
حدیث نمبر: 2718
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا روح بن عبادة ، حدثنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: لا اجد شيئا وليس لي مال ولي يتيم له مال، قال:" كل من مال يتيمك غير مسرف ولا متاثل مالا قال: واحسبه قال ولا تقي مالك بماله".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَا أَجِدُ شَيْئًا وَلَيْسَ لِي مَالٌ وَلِي يَتِيمٌ لَهُ مَالٌ، قَالَ:" كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَلَا تَقِي مَالَكَ بِمَالِهِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میرے پاس کچھ بھی نہیں اور نہ مال ہی ہے، البتہ میری پرورش میں ایک یتیم ہے جس کے پاس مال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یتیم کے مال میں سے فضول خرچی کئے اور بغیر اپنے لیے پونجی بنائے کھاؤ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا مال بچانے کے لیے اس کا مال اپنے مصرف میں نہ خرچ کرو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الوصایا 8 (2872)، سنن النسائی/الوصایا 10 (3698)، (تحفة الأ شراف: 8681)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/186، 216) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
مثلاً کسی نے آپ سے قرض مانگا تو یتیم کا مال دے دیا، اور اپنے مال کو رکھ چھوڑا یہ جائز نہیں، مقصد یہ ہے کہ یتیم کے مال میں اس شخص کو اس قدر تصرف کی اجازت ہے جو یتیم کی پرورش کرتا ہو اور بالکل محتاج ہو کہ ضرورت کے مطابق اس میں سے کھا لے، لیکن مال برباد کرنا اور اسراف کرنا یا ضرورت سے زیادہ خرچ کر دینا یہ کسی طرح صحیح نہیں ہے، ہر حال میں بہتر یہی ہے کہ اگر محتاج بھی ہو تو محنت کر کے اس میں سے کھائے، اور یتیم کے مال کو محفوظ رکھے، صرف یتیم پر ضرورت کے مطابق خرچ کرے، قرآن شریف میں ہے کہ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

Previous    1    2    3    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.