(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن الحارث ، عن علي ، قال:" قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالدين قبل الوصية، وانتم تقرءونها من بعد وصية يوصي بها او دين سورة النساء آية 11 وإن اعيان بني الام ليتوارثون دون بني العلات. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَأَنْتُمْ تَقْرَءُونَهَا مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ سورة النساء آية 11 وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ لَيَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے پہلے قرض (کی ادائیگی) کا فیصلہ فرمایا، حالانکہ تم اس کو قرآن میں پڑھتے ہو: «من بعد وصية يوصي بها أو دين» یہ حصے اس وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو، یا ادائے قرض کے بعد (سورۃ النساء: ۱۱)۱؎ اور حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی نہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب کوئی مر جائے اور سگے بہن بھائی چھوڑ جائے اور علاتی یعنی سوتیلے بھی جن کی ماں جدا ہو، لیکن باپ ایک ہی ہو تو سگوں کو ترکہ ملے گا اور سوتیلے محروم رہیں گے، اس مسئلہ کی پوری تفصیل علم الفرائض میں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفرائض 5 (2094، 2095)، (تحفة الأ شراف: 10043)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/79، 131، 144)، سنن الدارمی/الفرائض 28 (3027) (حسن)» (سند میں الحارث الاعور ضعیف ہے، لیکن سعد بن الاطول کے شاہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: حدیث نمبر 2433، و الإرواء: 1667)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2094۔2095،2122) وانظر الحديث الآتي (2739) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 477
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2715
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قرض کی اہمیت وصیت کے مقابلے میں اس لحاظ سے زیادہ ہے کہ قرض زندگی میں بھی واجب الادا ہوتا ہے اور موت کے بعد بھی جبکہ وصیت موت کے بعد ہی قابل عمل ہوتی ہے۔ قرض جتنا بھی ہو ادا کرنا ضروری ہوتا ہے جب کہ وصیت اگر تہائی ترکے سے زیادہ ہو تو تہائی تک قابل عمل ہوتی ہے، زائد نہیں۔
(2) میت کے مال سے سب سے پہلے کفن دفن خرچ کیا جاتا ہے، پھر قرض ادا کیا جاتا ہے، پھر جو کچھ بچے اس کے تہائی مال یا اس سے کم کی جو وصیت ہو، وہ پوری کی جاتی ہے۔ اس کے بعد باقی ترکہ وارثوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(3) آیت میں وصیت کا ذکر قرض سے پہلے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے وصیت پوری کی جائے پھر قرض ادا کیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ دونوں چیزیں واجب ہیں۔ ان میں سے جو چیز پائی جائے وہ ادا کی جائے۔ اگر دونوں (وصیت اورقرض) موجود ہوں تو ترکے میں سے دونوں کی ادائیگی کرنے کے بعد باقی ترکہ تقسیم کیا جائے۔ علاوہ ازیں وصیت کا ذکر پہلے کرنے میں یہ نکتہ بھی ہوسکتا ہے کہ وصیت پر عمل کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ قرض تو لوگ زبردستی بھی وصول کرلیتے ہیں۔ وصیت کو پہلے بیان کرکے واضح کردیا کہ اس پر عمل کرنے میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے، گو اس پرعمل قرض كى ادائیگی کےبعد ہی کیا جائے گا۔
(4) میت کے سگے بہن بھائی اس کے سوتیلے بہن بھائیوں پرمقدم ہیں۔
(5) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے اور مزید اس کی بابت لکھا ہے کہ اسی مفہوم کی ایک حدیث حسن درجے کی پہلے گزر چکی ہے، وہ اس کی شاہد ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک مذکورہ روایت کی کوئی نہ کوئی اصل ضرورہے۔ علاوہ ازیں بعض محققین نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر حسن درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ مزید تفصیل کےلیےدیکھئے: (الإرواء: 6؍107، 109، رقم: 1667)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2715
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2094
´حقیقی بھائیوں کی میراث کا بیان۔` علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ تم لوگ یہ آیت پڑھتے ہو «من بعد وصية توصون بها أو دين»”تم سے کی گئی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد (میراث تقسیم کی جائے گی ۱؎)“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔ (اگر حقیقی بھائی اور علاتی بھائی دونوں موجود ہوں تو) حقیقی بھائی وارث ہوں گے، علاتی بھائی (جن کے باپ ایک اور ماں دوسری ہو) وارث نہیں ہوں گے، آدمی اپنے حقیقی بھائی کو وارث بناتا ہے علاتی بھائی کو نہیں۔“[سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2094]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی: آیت کے سیاق سے ایسا لگتا ہے کہ پہلے میت کی وصیت پوری کی جائے گی، پھرا س کا قرض ادا کیا جائے گا، لیکن رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق پہلے قرض ادا کیا جائے گا، پھر وصیت کا نفاذ ہو گا، یہی تمام علماء کا قول بھی ہے۔
نوٹ: (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کا راوی ”حارث اعور“ ضعیف ہے، دیکھیے: الإرواء رقم: 1667)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2094
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2122
´قرض کی ادا کرنا وصیت پر مقدم ہے۔` علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت (کے نفاذ) سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا، جب کہ تم (قرآن میں) قرض سے پہلے وصیت پڑھتے ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2122]
اردو حاشہ: 1؎: اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت ﴿مِنْ بَعْدِ َوصِيَّةٍ يُّوصِى بِهَا أَوْ دَيْن﴾(النساء: 12) کی طرف ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2122
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:56
56- سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ دیا ہے، (میت کی) وصیت پر عمل کرنے سے پہلے (اس کے ذمہ واجب الادا) قرض ادا کیا جائے گا، حالانکہ تم لوگ (قرآن میں) وصیت کا ذکر قرض سے پہلے پڑھتے ہو ۱؎۔ ۱؎(اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت «من بعد وصية يوصى بها أو دين» کی طرف ہے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:56]
فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ میت کے مال کی تقسیم میں قرض پہلے ادا کرنا چاہیے، پھر اس کے بعد وصیت کو پورا کرنا چاہیے۔ قرآن کریم میں وصیت کو قرض پر مقدم کیا گیا ہے، اس لیے کہ تاکید مراد ہے، کیونکہ وصیت پوری کرنے میں عموما غفلت کی جاتی ہے۔ حدیث میں قرض کا مقدم ہونا ثابت ہے۔ سیدنا علیرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم آیت میں پڑھتے ہو «مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ» حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا ہے۔ (سـنـن الترمذی: 2122) امام ترمذی فرماتے ہیں: تمام اہل علم کا یہی موقف ہے کہ وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 56