ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بےزبان (جانور) کا زخم بے قیمت اور بیکار ہے، کان اور کنویں میں گر کر مر جائے تو وہ بھی بیکار ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جانور، کان اور کنواں کے مالک سے دیت نہیں لی جائے گی، یہ جب ہے کہ کوئی اپنی زمین میں کنواں کھودے یا مباح زمین میں راستہ میں کنواں کھودے اور کوئی اس میں گر پڑے یا دوسرے کی زمین میں کھودے تو کھودنے والا پکڑا جائے گا۔
عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بےزبان (جانور) کا زخم بیکار ہے، اور کان میں گر کر مر جائے تو وہ بھی بیکار ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 10781، ومصباح الزجاجة: 944) (صحیح)» (کثیر بن عبد اللہ ضعیف راوی ہے، لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے)
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”کان بیکار ہے اور کنواں بیکار و رائیگاں ہے، اور «عجماء» چوپائے وغیرہ حیوانات کو کہتے ہیں، اور «جبار» ایسے نقصان کو کہتے ہیں جس میں جرمانہ اور تاوان نہیں ہوتا، کنواں بیکار و رائیگاں ہے، اور بےزبان (جانور) کا زخم بیکار و رائیگاں ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 5063، ومصباح الزجاجة: 945)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/326، 327) (صحیح)» (سند میں اسحاق بن یحییٰ اور عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن سابقہ شاہد سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن حكيم ، حدثنا بشر بن عمر ، سمعت مالك بن انس ، حدثني ابو ليلى بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سهل ، عن سهل بن ابي حثمة انه اخبره، عن رجال من كبراء قومه، ان عبد الله بن سهل ومحيصة خرجا إلى خيبر من جهد اصابهم فاتي محيصة فاخبر ان عبد الله بن سهل قد قتل والقي في فقير او عين بخيبر فاتى يهود فقال: انتم والله قتلتموه، قالوا: والله ما قتلناه، ثم اقبل حتى قدم على قومه، فذكر ذلك لهم ثم اقبل هو واخوه حويصة وهو اكبر منه وعبد الرحمن بن سهل فذهب محيصة يتكلم وهو الذي كان بخيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمحيصة:" كبر، كبر" يريد السن، فتكلم حويصة ثم تكلم محيصة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إما ان يدوا صاحبكم، وإما ان يؤذنوا بحرب" فكتب رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم في ذلك، فكتبوا: إنا والله ما قتلناه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لحويصة: ومحيصة وعبد الرحمن:" تحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟" قالوا: لا، قال:" فتحلف لكم يهود؟" قالوا: ليسوا بمسلمين، فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده، فبعث إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم مائة ناقة حتى ادخلت عليهم الدار. فقال سهل: فلقد ركضتني منها ناقة حمراء. (مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ ، سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو لَيْلَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ كُبَرَاءِ قَوْمِهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَأُلْقِيَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ بِخَيْبَرَ فَأَتَى يَهُودَ فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُمْ ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ يَتَكَلَّمُ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُحَيِّصَةَ:" كَبِّرْ، كَبِّرْ" يُرِيدُ السِّنَّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ" فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فِي ذَلِكَ، فَكَتَبُوا: إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ: وَمُحَيِّصَةَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ:" تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ؟" قَالُوا: لَا، قَالَ:" فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ؟" قَالُوا: لَيْسُوا بِمُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةَ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ. فَقَالَ سَهْلٌ: فَلَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ.
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما دونوں محتاجی کی وجہ سے جو ان کو لاحق تھی (روزگار کی تلاش میں) اس یہودی بستی خیبر کی طرف نکلے، محیصہ رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے ہیں، اور انہیں خیبر کے ایک گڑھے یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، وہ یہودیوں کے پاس گئے، اور کہا: اللہ کی قسم، تم لوگوں نے ہی ان (عبداللہ بن سہل) کو قتل کیا ہے، وہ قسم کھا کر کہنے لگے کہ ہم نے ان کا قتل نہیں کیا ہے، اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ خیبر سے واپس اپنی قوم کے پاس پہنچے، اور ان سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ، اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور محیصہ رضی اللہ عنہ جو کہ خیبر میں تھے بات کرنے بڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”بڑے کا لحاظ کرو“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عمر میں بڑے سے تھی چنانچہ حویصہ رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی، اور اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ نے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”یا تو یہود تمہارے آدمی کی دیت ادا کریں ورنہ اس کو اعلان جنگ سمجھیں“ اور یہود کو یہ بات لکھ کر بھیج دی، انہوں نے بھی جواب لکھ بھیجا کہ اللہ کی قسم، ہم نے ان کو قتل نہیں کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہم سے کہا: ”تم قسم کھا کر اپنے ساتھی کی دیت کے مستحق ہو سکتے ہو“، انہوں نے انکار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر یہود قسم کھا کر بری ہو جائیں گے“ وہ کہنے لگے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں، (کیا ان کی قسم کا اعتبار کیا جائے گا) آخر کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی دیت ادا کی، اور ان کے لیے سو اونٹنیاں بھیجیں جنہیں ان کے گھر میں داخل کر دیا گیا۔ سہل رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک لال اونٹنی نے مجھے لات ماری۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب قاتل کا پتہ نہ لگے تو مقتول کی دیت بیت المال سے دی جائے گی، اور مسلم نے ایک صحابی سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قسامت کی دیت کو باقی رکھا اسی طریقہ پر جیسے جاہلیت کے زمانہ میں رائج تھی، اور جاہلیت میں یہی طریقہ تھا کہ مقتول کے اولیاء مدعی علیہم میں سے لوگوں کو چنتے، پھر ان کو اختیار دیتے، چاہیں وہ قسم کھا لیں چاہیں دیت ادا کریں، جیسے اس قسامت میں ہوا جو بنی ہاشم میں ہوئی، علماء نے قسامت کی کیفیت میں اختلاف کیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جب قاتل ایک معین جماعت میں سے ہو تو اس میں سے مقتول کا ولی قاتل کی جماعت سے لوگوں کو چن کر پچاس قسمیں کھلوائے، اگر وہ حلف اٹھا لیں تو بری ہوں گئے ورنہ ان کو دیت دینی ہوگی۔ (ملاحظہ ہو: الروضۃ الندیہ ۳/۳۸۸)۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد ، حدثنا ابو خالد الاحمر ، عن حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان حويصة ومحيصة ابني مسعود، وعبد الله وعبد الرحمن ابني سهل خرجوا يمتارون بخيبر فعدي على عبد الله فقتل فذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" تقسمون وتستحقون؟"، فقالوا: يا رسول الله، كيف نقسم ولم نشهد؟ قال: فتبرئكم يهود، قالوا: يا رسول الله إذا تقتلنا، قال: فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ حُوَيِّصَةَ وَمُحَيِّصَةَ ابْنَيْ مَسْعُودٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ ابْنَيْ سَهْلٍ خَرَجُوا يَمْتَارُونَ بِخَيْبَرَ فَعُدِيَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ فَقُتِلَ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" تُقْسِمُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ؟"، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُقْسِمُ وَلَمْ نَشْهَدْ؟ قَالَ: فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِذًا تَقْتُلَنَا، قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ و محیصہ رضی اللہ عنہما اور سہل کے دونوں بیٹے عبداللہ و عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہما خیبر کی جانب تلاش رزق میں نکلے، عبداللہ پر ظلم ہوا، اور انہیں قتل کر دیا گیا، اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم کھاؤ اور (دیت کے) مستحق ہو جاؤ“ وہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! جب ہم وہاں حاضر ہی نہیں تھے تو قسم کیوں کر کھائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو یہود (قسم کھا کر) تم سے بری ہو جائیں گے“ وہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! تب تو وہ ہمیں مار ہی ڈالیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کر دی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 8678، ومصباح الزجاجة: 949)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/القسامة 2 (4718) (صحیح)» (سند میں حجاج بن ارطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)۔ لیکن شاہد کی بنا پر صحیح ہے
سلمہ بن روح بن زنباع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، انہوں نے اپنے غلام کو خصی کر دیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کو مثلہ (ناک کان یا کوئی عضو کاٹ دینا) کئے جانے کی بناء پر آزاد کر دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 3650، ومصباح الزجاجة: 947) (حسن)» (سند میں اسحاق بن عبد اللہ ضعیف ہے، اور سلمہ بن روح مجہول، لیکن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی اگلی حدیث سے تقویت پاکر اور دوسرے شواہد سے حسن ہے)
(مرفوع) حدثنا رجاء بن المرجى السمرقندي ، حدثنا النضر بن شميل ، حدثنا ابو حمزة الصيرفي ، حدثني عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم صارخا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما لك؟"، قال: سيدي رآني اقبل جارية له، فجب مذاكيري، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" علي بالرجل"، فطلب فلم يقدر عليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اذهب فانت حر"، قال: على من نصرتي يا رسول الله؟ قال: يقول: ارايت إن استرقني مولاي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" على كل مؤمن او مسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا رَجَاءُ بْنُ الْمُرَجَّى السَّمَرْقَنْدِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَمْزَةَ الصَّيْرَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَارِخًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لَكَ؟"، قَالَ: سَيِّدِي رَآنِي أُقَبِّلُ جَارِيَةً لَهُ، فَجَبَّ مَذَاكِيرِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيَّ بِالرَّجُلِ"، فَطُلِبَ فَلَمْ يُقْدَرْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْهَبْ فَأَنْتَ حُرٌّ"، قَالَ: عَلَى مَنْ نُصْرَتِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: يَقُولُ: أَرَأَيْتَ إِنِ اسْتَرَقَّنِي مَوْلَايَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ أَوْ مُسْلِمٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چیختا ہوا آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”کیا بات ہے“؟ وہ بولا: میرے مالک نے مجھے اپنی ایک لونڈی کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھ لیا، تو میرے اعضاء تناسل ہی کاٹ ڈالے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس آدمی کو میرے پاس لاؤ“ جب اسے ڈھونڈا گیا تو وہ نہیں مل سکا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ تم آزاد ہو، غلام بولا: اللہ کے رسول! میری مدد کون کرے گا؟ یعنی اگر میرا مالک مجھے پھر غلام بنا لے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی صورت میں ہر مومن یا مسلمان پر تمہاری مدد لازم ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 7 (4519)، (تحفة الأ شراف: 8716)، و قد أخرجہ: مسند احمد (2/182، 225) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: ان دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو سخت ایذا دے مثلاً اس کا کوئی عضو کاٹے یا اس کا بدن جلائے تو حاکم اس کو آزاد کر سکتا ہے، اور اس کے مالک کو جو سزا مناسب سمجھے وہ دے سکتا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل کے مسئلہ میں اہل ایمان سب سے زیادہ پاکیزہ اور بہتر ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9441)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجہاد 120 (2666)، مسند احمد (1/393) (ضعیف)» (ہشیم بن بشیر اور شباک دونوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز سند میں اضطراب ہے ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1232)
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ وہ ناحق اور بے جا قتل نہیں کرتے، اور وہ انسان ہی نہیں بلکہ جانور کو بھی بری طرح تکلیف دے کر نہیں مارتے، اور وہ تیز چھری سے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2666) مغيرة و إبراهيم النخعي عنعنا وانظر الحديث الآتي (2682) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 475
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قتل کے مسئلہ میں اہل ایمان سب سے پاکیزہ لوگ ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 120 (2666)، (تحفة الأ شراف: 9476) (ضعیف)» (ہنی بن نویرہ مقبول عند المتابعہ ہیں، اور سند میں اضطراب ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1232)
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ بے جا قتل نہیں کرتے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2666) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 475