عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دیت میں) انگلیاں سب برابر ہیں، ہر ایک میں دس دس اونٹ دینے ہوں گے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8808)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الدیات 20 (4556)، سنن النسائی/القسامة 38 (4847)، مسند احمد (2/207)، سنن الدارمی/الدیات 15 (2414) (حسن)»
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان ، عن محمد بن إسحاق ، عن عطاء ، عن صفوان بن عبد الله ، عن عميه يعلى وسلمة ابني امية، قالا: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك ومعنا صاحب لنا فاقتتل هو ورجل آخر ونحن بالطريق، قال: فعض الرجل يد صاحبه فجذب صاحبه يده من فيه فطرح ثنيته، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم يلتمس عقل ثنيته، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يعمد احدكم إلى اخيه فيعضه كعضاض الفحل، ثم ياتي يلتمس العقل لا عقل لها" قال: فابطلها رسول الله صلى الله عليه وسلم. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَمَّيْهِ يَعْلَى وَسَلَمَةَ ابني أمية، قَالَا: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَمَعَنَا صَاحِبٌ لَنَا فَاقْتَتَلَ هُوَ وَرَجُلٌ آخَرُ وَنَحْنُ بِالطَّرِيقِ، قَالَ: فَعَضَّ الرَّجُلُ يَدَ صَاحِبِهِ فَجَذَبَ صَاحِبُهُ يَدَهُ مِنْ فِيهِ فَطَرَحَ ثَنِيَّتَهُ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْتَمِسُ عَقْلَ ثَنِيَّتِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ فَيَعَضُّهُ كَعِضَاضِ الْفَحْلِ، ثُمَّ يَأْتِي يَلْتَمِسُ الْعَقْلَ لَا عَقْلَ لَهَا" قَالَ: فَأَبْطَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
یعلیٰ بن امیہ اور سلمہ بن امیہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک میں نکلے، ہمارے ساتھ ہمارا ایک ساتھی تھا، وہ اور ایک دوسرا شخص دونوں آپس میں لڑ پڑے، جب کہ ہم لوگ راستے میں تھے، ان میں سے ایک نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ لیا اور جب اس نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے کے دانت گر گئے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنے دانت کی دیت مانگنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(عجیب ماجرا ہے) تم میں سے کوئی ایک اپنے ساتھی کے ہاتھ کو اونٹ کی طرح چبانا چاہتا ہے اور پھر دیت مانگتا ہے، اس کی کوئی دیت نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باطل قرار دیا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ اس کا دانت اسی کے قصور سے گرا نہ وہ کاٹتا نہ دوسرا شخص اپنا ہاتھ کھینچتا، اور جب اس نے کاٹا تو وہ بے چارہ کیا کرتا آخر ہاتھ چھڑانا ضروری تھا۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے کے بازو کو کاٹا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا سامنے کا دانت گر گیا، مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باطل قرار دیا، اور فرمایا: ”تم میں سے ایک (دوسرے کے ہاتھ کو) ایسے چباتا ہے جیسے اونٹ“۔
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا تمہارے پاس کوئی ایسا علم ہے جو دیگر لوگوں کے پاس نہ ہو؟ وہ بولے: نہیں، اللہ کی قسم! ہمارے پاس وہی ہے جو لوگوں کے پاس ہے، ہاں مگر قرآن کی سمجھ جس کی اللہ تعالیٰ کسی کو توفیق بخشتا ہے یا وہ جو اس صحیفے میں ہے اس (صحیفے) میں ان دیتوں کا بیان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، اور آپ کا یہ فرمان بھی ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ ۱؎
وضاحت: ۱؎: امام بخاری کی روایت میں ہے کہ ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ کے پاس کوئی ایسی وحی ہے جو قرآن مجید میں نہ ہو؟ یعنی موجودہ قرآن میں جو سب لوگوں کے پاس ہے، اس سے شیعوں کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ قرآن پورا نہیں ہے اس میں سے چند سورتیں غائب ہیں، اور پورا قرآن نبی کریم ﷺ کے بعد علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، پھر ہر ایک امام کے پاس آتا رہا یہاں تک کہ امام مہدی کے پاس آیا اور وہ غائب ہیں،جب ظاہر ہوں گے تو دنیا میں پورا قرآن پھیلے گا، معاذ اللہ یہ سب اکاذیب اور خرافات ہیں، حدیث میں علی رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر بتا دیا کہ ہمارے پاس وہی علم ہے جو اور لوگوں کے پاس ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۱؎، اور نہ وہ (کافر) جس کی حفاظت کا ذمہ لیا گیا ہو“۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6030، ومصباح الزجاجة: 937) (وستأتي بقیتہ برقم: 2683) (صحیح)» (سند میں حنش حسین بن قیس ابو علی الرحبی ضعیف ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یہاں کافر سے مراد حربی کافر ہے، اور اہل علم کا اجماع ہے کہ مسلمان کافر حربی کے بدلے نہ مارا جائے گا۔ ۲؎: جس غیر مسلم کی حفاظت کا عہد کیا جائے اس کا قتل بھی ناجائز ہے، اس لیے کہ دین اسلام میں عہدشکنی کسی حال میں جائز نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف حنش: حسين بن قيس أبو علي الرحبي متروك و قوله: ((لا يقتل مؤمن بكافر۔)) صحيح بالشواھد و قوله: ”و لا ذو عھد في عھده“ ضعيف وله شواھد ضعيفة عند ابن حبان (الموارد: 1699) و أبي داود (4530) وغيرھما انوار الصحيفه، صفحه نمبر 474
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”باپ کو بیٹے کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدیات 9 (1400)، (تحفة الأشراف: 10582)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/22، 49) (صحیح)» (سند میں حجاج بن أرطاة ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، ا لإ رواء: 2214)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1400) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 474