Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الديات
کتاب: دیت (خون بہا) کے احکام و مسائل
22. بَابُ : لا يُقْتَلُ الْوَالِدُ بِوَلَدِهِ
باب: باپ کو اپنی اولاد کے بدلے قتل نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2662
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يُقْتَلُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: باپ کو بیٹے کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدیات 9 (1400)، (تحفة الأشراف: 10582)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/22، 49) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں حجاج بن أرطاة ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، ا لإ رواء: 2214)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (1400)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 474

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2662 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2662  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے حسن اور صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کےلیے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسندالإمام أحمد: 1؍16، 22، 49، والإرواء: 7؍271، رقم: 2214، وسنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، رقم: 2662)
بنا بریں ماں باپ کے ہاتھ سے اگر اولاد قتل ہوجائے توماں یا باپ کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ دوسری مناسب سزا ضروری ہے جیسے کہ حدیث 2646 میں دیت لینے کا ذکر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2662   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 997  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ اسے احمد، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن جارود اور بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث میں اضطراب ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 997»
تخریج:
«أخرجه الترمذي، الديات، باب ما جاء في الرجل يقتل ابنه يقاد منه أم لا، حديث:1400، وأحمد:1 /16، 22، وابن ماجه، الديات، حديث:2662، والبيهقي:8 /82، وانظر، التلخيص الحبير(4 /17)
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی وجہ سے حسن اور صحیح قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱ /۱۶‘ ۲۲‘ ۴۹‘ والإرواء:۷ /۲۷۱‘ رقم:۲۲۱۴) 2.مذکورہ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ آدمی نے جب اپنے بیٹے کو قتل کر دیا تو اس کے بدلے میں باپ کو قتل نہیں کیا جائے گا‘ البتہ دوسری مناسب سزا ضروری ہے، جیسا کہ موطا امام مالک (۲ /۸۶۷) اور سنن ابن ماجہ (حدیث: ۲۶۴۶) کی روایات میں دیت لینے کا ذکر ہے۔
اکثر سلف کی بھی یہی رائے ہے کہ قصاص کے بدلے میں باپ سے دیت وصول کی جائے گی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 997   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1400  
´آدمی اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو کیا قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1400]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ بیٹے کے وجود کا سبب ہے،
لہٰذا یہ جائز نہیں کہ بیٹا باپ کے خاتمے کا سبب بنے۔

نوٹ:
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے،
ورنہ حجاج بن ارطاۃ متکلم فیہ راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1400