عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل بن مالک ہذلی لحیانی رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی کی دیت میں سے میراث دلائی جس کو ان کی دوسری بیوی نے قتل کر دیا تھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5064، ومصباح الزجاجة: 932)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/79) (صحیح)» (اسحاق بن یحییٰ مجہول ہے، اور عبادہ رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات بھی نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسحاق لم يدرك عبادة رضي اللّٰه عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 474
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: ”دونوں اہل کتاب کی دیت مسلمان کی دیت کے مقابلہ میں آدھی ہے، اور دونوں اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: سنن ابی داود میں ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار تھی اور آٹھ ہزار درہم، اور اہل کتاب کی دیت مسلمانوں کے نصف تھی، جب عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو انہوں نے مسلمان کی دیت کو بڑھا دیا اور کافر کی دیت وہی رہنے دی۔
وضاحت: ۱؎: یہ اس کے جرم کی سزا ہے، اکثر لوگ اپنے مورث کو ترکہ پر قبضہ کرنے کے لیے مار ڈالتے ہیں، تو شریعت نے قاتل کو ترکہ ہی سے محروم کر دیا تاکہ کوئی ایسا جرم نہ کرے۔
عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی مدلج کے ابوقتادہ نامی شخص نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے دیت کے سو اونٹ لیے: تیس حقے، تیس جذعے، اور چالیس حاملہ اونٹنیاں، پھر فرمایا: مقتول کا بھائی کہاں ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”قاتل کے لیے کوئی میراث نہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15654، ومصباح الزجاجة: 934)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/49)، موطا امام مالک/العقول 17 (10) (صحیح) (شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: «حقہ»: ایسی اونٹنی جو تین سال پورے کر کے چوتھے میں لگ جائے۔ «جذعہ»: ایسی اونٹنی جو چار سال پورے کر کے پانچویں میں لگ جائے۔ مقتول کا بھائی کہاں ہے؟ یعنی مقتول کے بھائی کو سارا مال دلا دیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنده منقطع،عمرو بن شعيب لم يدرك عمر رضي اللّٰه عنه و روي أبو داود (4564) عن رسول اللّٰه ﷺ قال: ((ليس للقاتل شئ و إن لم يكن له وارث فوارثه أقرب الناس إليه و لا يرث القاتل شيئًا)) وھو حديث حسن و ھو يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 474
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت پر واجب دیت کو اس کے عصبہ (باپ کے رشتہ دار) ادا کریں گے، لیکن اس عورت کی میراث سے انہیں وہی حصہ ملے گا جو ورثاء سے بچ جائے گا، اگر عورت قتل کر دی جائے، تو اس کی دیت اس کے ورثاء کے درمیان تقسیم ہو گی، اور وہی اس کے قاتل کو قتل کریں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 8715،)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/القسامة 30 (4809) (حسن)»
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبہ (باپ کے رشتہ داروں) پر ٹھہرائی تو مقتولہ کے عصبہ نے کہا: اس کی میراث کے حقدار ہم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میراث اس کے شوہر اور اس کے لڑکے کو ملے گی“۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى ابو موسى ، حدثنا خالد بن الحارث ، وابن ابي عدي ، عن حميد ، عن انس ، قال: كسرت الربيع عمة انس ثنية جارية، فطلبوا العفو، فابوا فعرضوا عليهم الارش، فابوا، فاتوا النبي صلى الله عليه وسلم فامر بالقصاص، فقال انس بن النضر: يا رسول الله تكسر ثنية الربيع والذي بعثك بالحق لا تكسر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا انس كتاب الله القصاص"، قال: فرضي القوم فعفوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن من عباد الله من لو اقسم على الله لابرة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى أَبُو مُوسَى ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: كَسَرَتْ الرُّبَيِّعُ عَمَّةُ أَنَسٍ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَطَلَبُوا الْعَفْوَ، فَأَبَوْا فَعَرَضُوا عَلَيْهِمُ الْأَرْشَ، فَأَبَوْا، فَأَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرُّبَيِّعِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تُكْسَرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ"، قَالَ: فَرَضِيَ الْقَوْمُ فَعَفَوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّةُ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نضر رضی اللہ عنہا نے ایک لڑکی کے سامنے کا دانت توڑ ڈالا، تو ربیع کے لوگوں نے معافی مانگی، لیکن لڑکی کی جانب کے لوگ معافی پر راضی نہیں ہوئے، پھر انہوں نے دیت کی پیش کش کی، تو انہوں نے دیت لینے سے بھی انکار کر دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دیا، تو انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ربیع کا دانت توڑا جائے گا؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ایسا نہیں ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انس! اللہ کی کتاب قصاص کا حکم دیتی ہے“، پھر لوگ معافی پر راضی ہو گئے، اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے“۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دیت کے معاملہ میں) سب دانت برابر ہیں، سامنے کے دانت اور داڑھ برابر ہیں“۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(دیت میں) یہ اور یہ یعنی چھنگلیا (سب سے چھوٹی انگلی) اور انگوٹھا سب برابر ہیں“۱؎۔