سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: شفعہ کے احکام و مسائل
The Chapters on Pre-emption
1. بَابُ: مَنْ بَاعَ رِبَاعًا فَلْيُؤْذِنْ شَرِيكَهُ
1. باب: جائیداد بیچتے وقت اپنے شریک کو خبر دینے کا بیان۔
Chapter: One Who Sells A Property Should Notify His Partner (Of His Intention)
حدیث نمبر: 2492
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، ومحمد بن الصباح ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كانت له نخل او ارض فلا يبيعها حتى يعرضها على شريكه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ نَخْلٌ أَوْ أَرْضٌ فَلَا يَبِيعُهَا حَتَّى يَعْرِضَهَا عَلَى شَرِيكِهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس کھجور کے درخت ہوں یا زمین ہو تو وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے، جب تک کہ اسے اپنے شریک پر پیش نہ کر دے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 78 (4650)، (تحفة الأشراف: 2765)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساقاة 28 (1608)، سنن ابی داود/البیوع 75 (3513)، مسند احمد (3/312، 316، 357) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2493
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن سنان ، والعلاء بن سالم ، قالا: حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا شريك ، عن سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من كانت له ارض فاراد بيعها فليعرضها على جاره".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانَ ، وَالْعَلَاءُ بْنُ سَالِمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَأَرَادَ بَيْعَهَا فَلْيَعْرِضْهَا عَلَى جَارِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کو بیچنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے اپنے پڑوسی پر پیش کرے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6131، ومصباح الزجاجة: 883) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں سماک ہیں، جن کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے، لیکن سابق شواہد سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے)

وضاحت:
۱؎: باب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر پڑوسی یا شریک نہ خریدنا چاہے تب دوسروں کے ہاتھ بیچے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
2. بَابُ: الشُّفْعَةِ بِالْجِوَارِ
2. باب: پڑوس ہونے کی وجہ سے حق شفعہ کا بیان۔
Chapter: Preemption By Virtue Of Being Neighbors
حدیث نمبر: 2494
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا هشيم ، انبانا عبد الملك ، عن عطاء ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الجار احق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَةِ جَارِهِ يَنْتَظِرُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، اس کا انتظار کیا جائے گا اگر وہ موجود نہ ہو جب دونوں کا راستہ ایک ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 75 (3518)، سنن الترمذی/الأحکام 32 (1369)، (تحفة الأشراف: 2434)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/البیوع 83 (2669) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
حدیث نمبر: 2495
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن إبراهيم بن ميسرة ، عن عمرو بن الشريد ، عن ابي رافع ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الجار احق بسقبه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ".
ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے نزدیکی مکان کا زیادہ حقدار ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشفعة 2 (2258)، الحیل 14 (6977)، 15 (6981، 6978)، سنن ابی داود/البیوع 75 (3516)، سنن النسائی/البیوع 107 (4706)، (تحفة الأشراف: 12027)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/389، 390، 6/10، 390) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 2496
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، عن حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن عمرو بن الشريد بن سويد ، عن ابيه الشريد بن سويد ، قال: قلت: يا رسول الله، ارض ليس فيها لاحد قسم ولا شرك إلا الجوار، قال:" الجار احق بسقبه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ الشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرْضٌ لَيْسَ فِيهَا لِأَحَدٍ قِسْمٌ وَلَا شِرْكٌ إِلَّا الْجِوَارُ، قَالَ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ".
شرید بن سوید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک زمین ہے جس میں کسی کا حصہ نہیں اور نہ کوئی شرکت ہے، سوائے پڑوسی کے (تو اس کے بارے میں فرمائیے؟!) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنی نزدیکی زمین کا زیادہ حقدار ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 107 (4707)، (تحفة الأشراف: 4840) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث اور اس حدیث میں بظاہر تعارض ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان دونوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شفعہ کی دو قسمیں ہیں: ایک شعفہ یہ ہے کہ مالک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شفیع پر پیش کرے، اور دوسروں پر اسے ترجیح دے، اور اس شفعہ پر قضاء میں وہ مجبور نہ کیا جائے، اور یہی اس پڑوسی کا حق ہے جو شریک نہیں ہے، اور دوسری قسم یہ ہے کہ اس شفعہ پر اسے قضاء میں مجبور کیا جائے گا، اور یہ اس پڑوسی کے حق میں ہے جو شریک بھی ہے، (حجۃ اللہ البالغۃ ۲/۱۱۳)۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
3. بَابُ: إِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ فَلاَ شُفْعَةَ
3. باب: جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔
Chapter: If The Boundaries Have Been Fixed Then There Is No Preemption
حدیث نمبر: 2497
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، وعبد الرحمن بن عمر ، قالا: حدثنا ابو عاصم ، حدثنا مالك بن انس ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، وابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قضى بالشفعة فيما لم يقسم فإذا وقعت الحدود فلا شفعة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَضَى بِالشُّفْعَةِ فِيمَا لَمْ يُقْسَمْ فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ فَلَا شُفْعَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جائیداد میں شفعہ کا حکم دیا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، لیکن جب تقسیم ہو جائے اور حد بندی ہو تو شفعہ نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13241، 15249)، مصباح الزجاجة: 884)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع 75 (3515) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
حدیث نمبر: 2497M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن حماد الطهراني ، حدثنا ابو عاصم ، عن مالك ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، وابي سلمة ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه. قال ابو عاصم: سعيد بن المسيب مرسل، وابو سلمة، عن ابي هريرة متصل.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَمَّادٍ الطِّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، وَأَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ مُرْسَلٌ، وَأَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مُتَّصِلٌ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔ ابوعاصم کہتے ہیں: سعید بن مسیب کی روایت مرسل ہے، اور ابوسلمہ کی روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے متصل ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13241، 15249، ومصباح الزجاجة: 885)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2498
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن الجراح ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن إبراهيم بن ميسرة ، عن عمرو بن الشريد ، عن ابي رافع ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشريك احق بسقبه ما كان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشَّرِيكُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ مَا كَانَ".
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شریک (ساجھی دار) اپنی قریبی جائیداد کا زیادہ حقدار ہے، خواہ کوئی بھی چیز ہو۔

تخریج الحدیث: «انظرحدیث رقم: (2495) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 2499
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، عن معمر ، عن الزهري ، عن ابي سلمة ، عن جابر بن عبد الله ، قال:" إنما جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم الشفعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود، وصرفت الطرق فلا شفعة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" إِنَّمَا جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ، وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 96 (2213)، 97 (2214)، الشفعة 2 (2257)، الحیل 14 (76 69)، الشرکة 8 (95 24)، سنن ابی داود/البیوع 75 (3514)، سنن الترمذی/الأحکام 33 (1370)، (تحفة الأشراف: 3153)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/البیوع 107 (4708)، موطا امام مالک/الشفعة 1 (1)، مسند احمد (3/372، 399)، سنن الدارمی/البیوع 83 (2670) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ وہ جائیداد جو تقسیم کے قابل نہ ہو، اس میں بھی شفعہ نہیں ہے، جیسے حمام اور کنواں وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
4. بَابُ: طَلَبِ الشُّفْعَةِ
4. باب: شفعہ کا مطالبہ۔
Chapter: Requesting Preemption
حدیث نمبر: 2500
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن الحارث ، عن محمد بن عبد الرحمن البيلماني ، عن ابيه ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشفعة كحل العقال".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْبَيْلَمَانِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشُّفْعَةُ كَحَلِّ الْعِقَالِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفعہ اونٹ کی رسی کھولنے کے مانند ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7292، ومصباح الزجاجة: 886) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن الحارث ضعیف ہے، اور محمد بن عبد الرحمن البیلمانی متہم بالکذب ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1542)

وضاحت:
۱؎: یعنی جیسے اونٹ کے کھٹنے کی رسی کھول دی جائے تو اونٹ فوراً اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسی طرح بیع کی خبر ہوتے ہی اگر شفیع شفعہ لے تو ٹھیک ہے، اور اگر دیر کرے تو شفعہ کا حق باطل ہو گیا، یہ حدیث حنفیہ کی دلیل ہے جن کے نزدیک شفیع کو جب بیع کی خبر پہنچے تو فوراً اس کو طلب کرنا چاہئے، فقہ حنفی میں ہے کہ مجلس علم میں شفعہ طلب کرنا کافی ہے، اگرچہ مجلس دیر تک رہے، پس احناف کے نزدیک اگر شفیع فوراً یا اس مجلس میں شفعہ کا مطالبہ نہ کرے تو اس کا حق باطل ہو جاتا ہے۔ اور اہل حدیث کے نزدیک دیر کرنے سے شفعہ کا حق باطل نہیں ہوتا کیونکہ شفعہ کی احادیث مطلق ہیں، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث جس سے حنفیہ نے استدلال کیا ہے سخت ضعیف ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
محمد بن الحارث: ضعيف
وشيخه محمد بن عبد الرحمٰن بن البيلماني: ضعيف
والسند ضعفه البوصيري
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 469

1    2    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.