جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس کھجور کے درخت ہوں یا زمین ہو تو وہ اسے اس وقت تک نہ بیچے، جب تک کہ اسے اپنے شریک پر پیش نہ کر دے“۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کو بیچنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے اپنے پڑوسی پر پیش کرے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6131، ومصباح الزجاجة: 883) (صحیح)» (سند میں سماک ہیں، جن کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے، لیکن سابق شواہد سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: باب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر پڑوسی یا شریک نہ خریدنا چاہے تب دوسروں کے ہاتھ بیچے۔
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا هشيم ، انبانا عبد الملك ، عن عطاء ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الجار احق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَةِ جَارِهِ يَنْتَظِرُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، اس کا انتظار کیا جائے گا اگر وہ موجود نہ ہو جب دونوں کا راستہ ایک ہو“۔
شرید بن سوید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایک زمین ہے جس میں کسی کا حصہ نہیں اور نہ کوئی شرکت ہے، سوائے پڑوسی کے (تو اس کے بارے میں فرمائیے؟!) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑوسی اپنی نزدیکی زمین کا زیادہ حقدار ہے“۔
وضاحت: ۱؎: جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث اور اس حدیث میں بظاہر تعارض ہے، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان دونوں میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شفعہ کی دو قسمیں ہیں: ایک شعفہ یہ ہے کہ مالک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ شفیع پر پیش کرے، اور دوسروں پر اسے ترجیح دے، اور اس شفعہ پر قضاء میں وہ مجبور نہ کیا جائے، اور یہی اس پڑوسی کا حق ہے جو شریک نہیں ہے، اور دوسری قسم یہ ہے کہ اس شفعہ پر اسے قضاء میں مجبور کیا جائے گا، اور یہ اس پڑوسی کے حق میں ہے جو شریک بھی ہے، (حجۃ اللہ البالغۃ ۲/۱۱۳)۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جائیداد میں شفعہ کا حکم دیا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، لیکن جب تقسیم ہو جائے اور حد بندی ہو تو شفعہ نہیں ہے۔
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔ ابوعاصم کہتے ہیں: سعید بن مسیب کی روایت مرسل ہے، اور ابوسلمہ کی روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے متصل ہے۔
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شریک (ساجھی دار) اپنی قریبی جائیداد کا زیادہ حقدار ہے، خواہ کوئی بھی چیز ہو“۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شفعہ اونٹ کی رسی کھولنے کے مانند ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7292، ومصباح الزجاجة: 886) (ضعیف جدا)» (سند میں محمد بن الحارث ضعیف ہے، اور محمد بن عبد الرحمن البیلمانی متہم بالکذب ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1542)
وضاحت: ۱؎: یعنی جیسے اونٹ کے کھٹنے کی رسی کھول دی جائے تو اونٹ فوراً اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسی طرح بیع کی خبر ہوتے ہی اگر شفیع شفعہ لے تو ٹھیک ہے، اور اگر دیر کرے تو شفعہ کا حق باطل ہو گیا، یہ حدیث حنفیہ کی دلیل ہے جن کے نزدیک شفیع کو جب بیع کی خبر پہنچے تو فوراً اس کو طلب کرنا چاہئے، فقہ حنفی میں ہے کہ مجلس علم میں شفعہ طلب کرنا کافی ہے، اگرچہ مجلس دیر تک رہے، پس احناف کے نزدیک اگر شفیع فوراً یا اس مجلس میں شفعہ کا مطالبہ نہ کرے تو اس کا حق باطل ہو جاتا ہے۔ اور اہل حدیث کے نزدیک دیر کرنے سے شفعہ کا حق باطل نہیں ہوتا کیونکہ شفعہ کی احادیث مطلق ہیں، اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث جس سے حنفیہ نے استدلال کیا ہے سخت ضعیف ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا محمد بن الحارث: ضعيف وشيخه محمد بن عبد الرحمٰن بن البيلماني: ضعيف والسند ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 469