عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کو بیچنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ وہ اسے اپنے پڑوسی پر پیش کرے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: باب کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر پڑوسی یا شریک نہ خریدنا چاہے تب دوسروں کے ہاتھ بیچے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6131، ومصباح الزجاجة: 883) (صحیح)» (سند میں سماک ہیں، جن کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے، لیکن سابق شواہد سے تقویت پاکر حدیث صحیح ہے)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2493
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جب دو آدمی ایک زمین یا مکان کے مشترکہ طورپرمالک ہوں اورایک آدمی اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تواسے چاہیے کہ پہلے اپنے اس ساتھی کو بتائے جو اس کے ساتھ شریک ہے اگر وہ مناسب قیمت پرخریدنے پر رضا مند ہو تو ٹھیک ہے ورنہ کہہ وه دے کہ میں نہیں خریدنا چاہتا جسے چاہو فروخت کردو۔
(2) اگر راستےجدا جدا ہیں اورشراکت یا حصہ نہیں بھی ہے محض ہمسائیگی ہے تو پھر بھی ہمسایہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ مکان یا زمین بیچتے وقت اسے بتایا جائےتاکہ وہ چاہے تو خرید لے۔
(3) شفعہ کے قانون کی بنیاد باہمی ہمددردی پر ہے کیونکہ عموما ہمسائے کو اس قطعہ زمین کےخریدنے سے اجنبی کی نسبت زیادہ فوائدہ حاصل ہوتے ہیں جب کہ بیچنے والے کے لیے ہمسائے کے ہاتھ بیچنا یا اجنبی کے ہاتھ فروخت کرنا برابرہے لہٰذا اگر ہمسائے کو زائد فائدہ حاصل ہو جائے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2493