ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اللہ کے حدود سے کھیل کرتے ہیں، ان میں سے ایک اپنی بیوی سے کہتا ہے: میں نے تجھے طلاق دے دی پھر تجھ سے رجعت کر لی، پھر تجھے طلاق دے دی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9120، ومصباح الزجاجة: 716) (ضعیف)» (سند میں مؤمل بن اسماعیل مختلف فیہ راوی ہیں)
It was narrated from Abu Musa that:
the Messenger of Allah said: What is wrong with people who play with the limits imposed by Allah, and one of them says: "I divorce you, I take you back, I divorce you?"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الثوري و أبو إسحاق عنعنا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 451
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مبغوض چیز طلاق ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 3 (1277، 1278)، (تحفة الأشراف: 7411) (ضعیف)» (سند میں عبید اللہ بن الولید ضعیف راوی ہیں، صواب اس حدیث کا مرسل ہونا ہے اور ثقات نے اسے مرسلاً ہی روایت کیا ہے)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: طلقت امراتي وهي حائض، فذكر ذلك عمر لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" مره فليراجعها حتى تطهر، ثم تحيض، ثم تطهر، ثم إن شاء طلقها قبل ان يجامعها، وإن شاء امسكها، فإنها العدة التي امر الله". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ طَلَّقَهَا قَبْلَ أَنْ يُجَامِعَهَا، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا، فَإِنَّهَا الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں یہاں تک کہ وہ عورت حیض سے پاک ہو جائے پھر اسے حیض آئے، اور اس سے بھی پاک ہو جائے، پھر ابن عمر اگر چاہیں تو جماع سے پہلے اسے طلاق دے دیں، اور اگر چاہیں تو روکے رکھیں یہی عورتوں کی عدت ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد یہ آیت کریمہ ہے: «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ»(سورة الطلاق: 1) یعنی طلاق دو عورتوں کو ان کی عدت کے یعنی طہر کی حالت میں۔
It was narrated that Ibn 'Umar said:
"I divorced my wife when she was menstruating. 'Umar mentioned that to the Messenger of Allah and he said: 'Tell him to take her back until she becomes pure (i.e., her period ends), then she has her period (again), then she becomes pure (again), then if he wishes he may divorce her before having sexual relations with her, and if he wishes he may keep her. This is the waiting period that Allah has enjoined.'"
وضاحت: ۱؎: تاکہ عورت کو عدت کے حساب میں آسانی ہو، اور اسی طہر سے عدت شروع ہو جائے، تین طہر کے بعد وہ مطلقہ بائنہ ہو جائے گی، عدت ختم ہونے کے بعد وہ دوسرے سے شادی کر سکتی ہے، طلاق سنت یہ ہے کہ عورت کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، اور شرط یہ ہے کہ اس طہر سے پہلے جو حیض تھا اس میں طلاق نہ دی ہو، یا حمل کی حالت میں جب حمل ظاہر ہو گیا ہو اور اس کے سوا دوسری طرح طلاق دینا (مثلاً حیض کی حالت میں یا طہر کی حالت میں جب جماع کر چکا ہو یا حمل کی حالت میں جب وہ ظاہر نہ ہوا ہو، لیکن شبہ ہو، اسی طرح تین طلاق ایک بار دینا حرام ہے اور اس کا ذکر آگے آئے گا) اور حدیث میں جو ابن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم ہوا کہ اس طہر کے بعد دوسرے طہر میں طلاق دیں، تو اس میں یہ حکمت تھی کہ طلاق سے رجعت کا علم نہ ہو تو ایک طہر تک عورت کو رہنے دے، اور بعضوں نے کہا کہ یہ سزا ان کے ناجائز فعل کی دی، اور بعضوں نے کہا یہ طہر اسی حیض سے متعلق تھا جس میں طلاق دی گئی تھی اس لئے دوسرے طہر کا انتظار کرے۔
It was narrated that Abdullah said:
"Divorce according to the Sunnah means divorcing her when she is pure, ( i.e., not menstruating) and without having had intercourse with her (during that cycle)."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نسائي (3423۔3424) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 451
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں طلاق سنی یہ ہے کہ عورت کو ہر طہر میں ایک طلاق دے، جب تیسری بار پاک ہو تو آخری طلاق دیدے، اور اس کے بعد عدت ایک حیض ہو گی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد دو حیض پہلے گزر چکے ہیں، یہ صورت اس وقت ہے، جب کہ عورت کو تین طلاق دینی ہو، اور بہتر یہ ہے کہ جب عورت حیض سے پاک ہو تو ایک ہی طلاق پر قناعت کرے، تین حیض یا تین طہر گزر جانے کے بعد وہ مطلقہ بائنہ ہو جائے گی۔ اس میں یہ فائدہ ہے کہ اگر مرد عدت گزر جانے کے بعد بھی چاہے تو اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے، لیکن تین طلاق دینے کے بعد وہ اس سے اس وقت تک شادی نہیں کر سکتا، جب تک کہ وہ عورت کسی دوسرے سے شادی نہ کر لے، پھر وہ اسے طلاق دے دے۔
It was narrated that 'Abdullah said:
"Divorce according to the Sunnah means divorcing her with one divorce in each cycle when she is pure, then when she becomes pure the third time, then he pronounces divorce again, and after that she must wait one more menstrual cycle."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف انظر الحديث السابق (2020) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 451
ابو غلاب یونس بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو انہوں نے کہا: کیا تم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پہچانتے ہو؟ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا کہ ابن عمر رجوع کر لیں، میں نے پوچھا: کیا اس طلاق کا شمار ہو گا؟ انہوں نے کہا: تم کیا سمجھتے ہو، اگر وہ عاجز ہو جائے یا دیوانہ ہو جائے (تو کیا وہ شمار نہ ہو گی یعنی ضرور ہو گی)۔
It was narrated that Yunus bin Jubair, Abu Ghallab, said:
"I asked Ibn 'Umar about a man who divorced his wife when she was menstruating. He said: 'Do you know 'Abdullah bin 'Umar? He divorced his wife when she was menstruating then 'Umar came to the Prophet (ﷺ) (and told him what had happened). He ordered him to take her back.' I said: 'Will that be counted (as a divorce)?' He said: 'Do You think he was helpless and behaving foolishly? [i.e., Yes, it counts (as a divorce).]."'
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ رجوع کر لیں، پھر طہر کی یا حمل کی حالت میں طلاق دیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس میں عدت کی آسانی ہے اگر طہر میں طلاق دے اور حاملہ نہ ہو تو تین طہر یا حیض کے بعد مدت گزر جائے گی، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی عدت ختم جائے گی، عدت کا مقصد یہ ہے کہ حمل کی حالت میں عورت دوسرے شوہر سے جماع نہ کرائے ورنہ بچہ میں دوسرے مرد کا پانی بھی شریک ہو گا، اور یہ معیوب ہے، اس وہم کو دور کرنے کے لئے یہ طریقہ ٹھہرا کہ جس طہر میں جماع نہ کیا جائے اس میں طلاق دے، اور تین حیض تک انتظار اس لئے ہوا کہ کبھی حمل کی حالت میں بھی ایک آدھ بار تھوڑا سا حیض آ جاتا ہے، لیکن جب تک تین حیض برابر آئے تو یقین ہوا کہ وہ حاملہ نہیں ہے، اب دوسرے مرد سے نکاح کرے، یا اگر حاملہ ہو تو وضع حمل ہوتے ہی نکاح کر سکتی ہے اگرچہ طلاق یا شوہر کی موت سے متصل ہی وضع حمل ہو۔
It was narrated from Ibn 'Umar that:
he divorced his wife when she was menstruating, and 'Umar mentioned that to the Prophet (ﷺ). He said: "Tell him to take her back then divorce her when she is pure (not menstruating) or pregnant."
عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ مجھ سے اپنی طلاق کے بارے میں بیان کریں، تو انہوں نے کہا: میرے شوہر نے یمن کے سفر پر نکلتے وقت مجھے تین طلاق دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے جمہور علماء و فقہاء نے دلیل لی ہے کہ اگر کوئی ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے تو تینوں پڑ جائیں گی، اس مسئلہ میں تین مذہب اور ہیں، ایک یہ کہ کچھ نہیں پڑے گا، نہ ایک نہ تین، کیونکہ اس طرح طلاق دینا بدعت اور حرام ہے، اس مذہب کو ابن حزم نے امام احمد سے بھی نقل کیا ہے، اور کہا کہ روافض کا بھی یہی مذہب ہے، واضح رہے کہ تابعین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ اور اہل بیت سے امام باقر، امام صادق اور ناصر کا بھی یہی مذہب ہے،اور ابوعبید اور بعض ظاہریہ بھی اسی کے قائل ہیں، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ طلاق بدعی نہیں پڑتی اور یہ بھی بدعی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر عورت مدخولہ ہے تو تینوں پڑ جائیں گی اور مدخولہ نہیں ہے تو ایک پڑے گی، ایک جماعت کا یہ قول ہے جیسے ابن عباس اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ۔ تیسرے یہ کہ ایک طلاق رجعی پڑے گی خواہ عورت مدخولہ ہو یا نہ ہو، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا صحیح ترین مذہب یہی ہے، اور ابن اسحاق، عطاء، عکرمہ اور اکثر اہل بیت اسی کے قائل ہیں، سارے مذاہب میں یہ صحیح ہے، امام شوکانی نے اس مسئلے پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اور چاروں مذاہب کے دلائل بیان کر کے اخیر قول کو ترجیح دی ہے، اور اس دور میں اس مسئلہ کو اختلافی قرار دیا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے یہ صحیح اور ثابت ہے کہ تین طلاق ایک ہی بار دینے سے ایک ہی طلاق پڑتی تھی عہد نبوت میں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں، اور شروع خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں، اور عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سزا دینے کے لئے یہ فتوی دیا کہ تینوں طلاقیں پڑ جائیں گی، اور یہ ان کا اجتہاد ہے، جو اوروں پر حجت نہیں ہو سکتا، خصوصاً نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتوی ان کے اجتہاد سے رد نہیں ہو سکتا، اور ابن القیم نے اغاثۃ اللہفان میں اس مسئلہ میں طویل کلام کیا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ اس صورت میں ایک ہی طلاق پڑے گی، امام شوکانی کہتے ہیں: ابوموسی اشعری، ابن عباس، طاؤس، عطاء، جابر بن زید، احمد بن عیسی، عبد اللہ بن موسی، علی اور زید بن علی سے ایسا ہی منقول ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم دونوں اسی طرف گئے ہیں، اور ابن مغیث نے کتاب الوثائق میں علی، ابن مسعود، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم اور مشائخ قرطبہ کی جماعت سے ایسا ہی نقل کیا ہے، اور ابن منذر نے اصحاب ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ اس باب میں جو حدیثیں آئی ہیں ان سب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے،جو صحیح مسلم میں ہے کہ تین طلاقیں نبی کریم ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور شروع عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک طلاق شمار ہوتی تھیں، جب عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے پے در پے طلاق دینا شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے تینوں طلاق کو ان پر نافذ کردیا۔ علامہ ابن القیم نے اس مسئلہ کی تحقیق میں کتاب و سنت اور لغت اور صحابہ کے عمل سے دلیل لی، پھر کہا کہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ اور لغت اور عرف اسی پر دلالت کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ کے خلیفہ اور صحابہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی تین برس تک لوگ اسی پر چلتے رہے، اگر کوئی ان کا شمار کرے تو ہزار سے زیادہ ان کی تعداد ہو گی، کسی نے اقرار کیا، کسی نے سکوت اختیار کیا، اور بعضوں نے جو کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے پھر لوگوں نے انہی کے فتوی پر اجماع کر لیا،تو یہ ثابت نہیں، ہر زمانہ میں علماء اسی عہد اول کے فتوی پر فتوی دیتے رہے، امت کے عالم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مروی حدیث کے مطابق فتوی دیا، اس کو حماد بن زید نے ایوب سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ جب کسی نے ایک ہی دفعہ میں کہا: تجھ کو تین طلاق ہیں، تو ایک ہی طلاق پڑے گی، اور زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما نے بھی ایسا ہی فتوی دیا، یہ ابن وضاح نے نقل کیا ہے، اور تابعین میں سے عکرمہ، طاؤس نے ایسا ہی فتوی دیا اور تبع تابعین میں سے محمد بن اسحاق اور خلاس بن عمرو الہجری نے ایسا ہی فتوی دیا اور اتباع تبع تابعین میں داود بن علی اور ان کے اکثر اصحاب نے ایسا ہی فتوی دیا ہے، غرض یہ کہ ہر زمانہ میں علماء اور ائمہ اس قول کے موافق فتویٰ دیتے رہے، اور یہ قول بالاجماع متروک نہیں ہوا، اور کیونکر ہو سکتا ہے جب کتاب و سنت اور قیاس اور اجماع قدیم سے یہی ثابت ہے، اور اس کے بعد کسی اجماع نے اس کو باطل نہیں کیا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مصلحت سے اس کے خلاف رائے تجویز کی اور ان کا یہ فیصلہ کسی دوسرے پر حجت نہیں ہو سکتا، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اس پر عمل کرے اور اس کے خلاف کسی کے فتوی اور کسی کا قیاس قبول نہ کرے، خواہ وہ کوئی ہو، اور اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے ”إعلام الموقعين، إغاثة اللهفان، رسالہ شوکانی، نیل الاوطار، مسک الختام، سنن ابن ماجہ مع حاشیہ مولانا وحیدالزمان حیدرآبادی“ کی طرف رجوع کیجئے، نیز ”تسمية المفتين“ کے نام سے ایک رسالہ اردو میں ترجمہ کر کے شائع کیا ہے جس میں قدیم و جدید علماء کی ایک بڑی تعداد کا ذکر ہے جو تین طلاقوں کو ایک قرار دیتی ہے۔ (فریوائی)
It was narrated that 'Amir Sha'bi said:
"I said to Fatimah bint Qais: 'Tell me about your divorce.' She said: 'My husband divorced me three times when he was leaving for Yemen, and the Messenger of Allah (ﷺ) allowed that."'
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا إسحاق بن أبي فروة: متروك وأخرجه مسلم (43۔45/ 1480) وغيره من طرق عن الشعبي نحوه دون قوله ’’فأجاز ذلك / رسول اللّٰه ﷺ“ (وانظر الأصل: 2036) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 451
مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنی بیوی کو طلاق دیدے پھر اس سے جماع کرے، اور اپنی طلاق اور رجعت پہ کسی کو گواہ نہ بنائے؟ تو عمران رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے سنت کے خلاف طلاق دی، اور سنت کے خلاف رجعت کی، اپنی طلاق اور رجعت پہ گواہ بناؤ ۱؎۔
'Imran bin Husain:
was asked about a man who divorced his wife then had intercourse with her, and there were no witnesses to his divorcing her or his taking her back. 'Imran said: "You have divorced (her) in a manner that is not according to the Sunnah, and you have taken her back in a manner that is not according to the Sunnah. Bring people to witness your divorcing her and taking her back."