Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
4. بَابُ : مَنْ طَلَّقَ ثَلاَثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ
باب: جس نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2024
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ أَبِي فَرْوَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ : حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ:" طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عامر شعبی کہتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے کہا: آپ مجھ سے اپنی طلاق کے بارے میں بیان کریں، تو انہوں نے کہا: میرے شوہر نے یمن کے سفر پر نکلتے وقت مجھے تین طلاق دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز رکھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الطلاق 6 (1480)، سنن ابی داود/الطلاق) 39 (2291)، سنن الترمذی/الطلاق 5 (1180)، سنن النسائی/الطلاق 7 (3432)، (تحفة الأشراف: 18025) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے جمہور علماء و فقہاء نے دلیل لی ہے کہ اگر کوئی ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے تو تینوں پڑ جائیں گی، اس مسئلہ میں تین مذہب اور ہیں، ایک یہ کہ کچھ نہیں پڑے گا، نہ ایک نہ تین، کیونکہ اس طرح طلاق دینا بدعت اور حرام ہے، اس مذہب کو ابن حزم نے امام احمد سے بھی نقل کیا ہے، اور کہا کہ روافض کا بھی یہی مذہب ہے، واضح رہے کہ تابعین کی ایک جماعت کا یہی مذہب ہے۔ اور اہل بیت سے امام باقر، امام صادق اور ناصر کا بھی یہی مذہب ہے،اور ابوعبید اور بعض ظاہریہ بھی اسی کے قائل ہیں، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ طلاق بدعی نہیں پڑتی اور یہ بھی بدعی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر عورت مدخولہ ہے تو تینوں پڑ جائیں گی اور مدخولہ نہیں ہے تو ایک پڑے گی، ایک جماعت کا یہ قول ہے جیسے ابن عباس اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ۔ تیسرے یہ کہ ایک طلاق رجعی پڑے گی خواہ عورت مدخولہ ہو یا نہ ہو، اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کا صحیح ترین مذہب یہی ہے، اور ابن اسحاق، عطاء، عکرمہ اور اکثر اہل بیت اسی کے قائل ہیں، سارے مذاہب میں یہ صحیح ہے، امام شوکانی نے اس مسئلے پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، اور چاروں مذاہب کے دلائل بیان کر کے اخیر قول کو ترجیح دی ہے، اور اس دور میں اس مسئلہ کو اختلافی قرار دیا ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح اور ثابت ہے کہ تین طلاق ایک ہی بار دینے سے ایک ہی طلاق پڑتی تھی عہد نبوت میں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں، اور شروع خلافت عمر رضی اللہ عنہ میں، اور عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو سزا دینے کے لئے یہ فتوی دیا کہ تینوں طلاقیں پڑ جائیں گی، اور یہ ان کا اجتہاد ہے، جو اوروں پر حجت نہیں ہو سکتا، خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتوی ان کے اجتہاد سے رد نہیں ہو سکتا، اور ابن القیم نے اغاثۃ اللہفان میں اس مسئلہ میں طویل کلام کیا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ اس صورت میں ایک ہی طلاق پڑے گی، امام شوکانی کہتے ہیں: ابوموسی اشعری، ابن عباس، طاؤس، عطاء، جابر بن زید، احمد بن عیسی، عبد اللہ بن موسی، علی اور زید بن علی سے ایسا ہی منقول ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم دونوں اسی طرف گئے ہیں، اور ابن مغیث نے کتاب الوثائق میں علی، ابن مسعود، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم اور مشائخ قرطبہ کی جماعت سے ایسا ہی نقل کیا ہے، اور ابن منذر نے اصحاب ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ اس باب میں جو حدیثیں آئی ہیں ان سب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے،جو صحیح مسلم میں ہے کہ تین طلاقیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور شروع عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ایک طلاق شمار ہوتی تھیں، جب عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے پے در پے طلاق دینا شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ نے تینوں طلاق کو ان پر نافذ کردیا۔ علامہ ابن القیم نے اس مسئلہ کی تحقیق میں کتاب و سنت اور لغت اور صحابہ کے عمل سے دلیل لی، پھر کہا کہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ اور لغت اور عرف اسی پر دلالت کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور صحابہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں بھی تین برس تک لوگ اسی پر چلتے رہے، اگر کوئی ان کا شمار کرے تو ہزار سے زیادہ ان کی تعداد ہو گی، کسی نے اقرار کیا، کسی نے سکوت اختیار کیا، اور بعضوں نے جو کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے پھر لوگوں نے انہی کے فتوی پر اجماع کر لیا،تو یہ ثابت نہیں، ہر زمانہ میں علماء اسی عہد اول کے فتوی پر فتوی دیتے رہے، امت کے عالم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مروی حدیث کے مطابق فتوی دیا، اس کو حماد بن زید نے ایوب سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ جب کسی نے ایک ہی دفعہ میں کہا: تجھ کو تین طلاق ہیں، تو ایک ہی طلاق پڑے گی، اور زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما نے بھی ایسا ہی فتوی دیا، یہ ابن وضاح نے نقل کیا ہے، اور تابعین میں سے عکرمہ، طاؤس نے ایسا ہی فتوی دیا اور تبع تابعین میں سے محمد بن اسحاق اور خلاس بن عمرو الہجری نے ایسا ہی فتوی دیا اور اتباع تبع تابعین میں داود بن علی اور ان کے اکثر اصحاب نے ایسا ہی فتوی دیا ہے، غرض یہ کہ ہر زمانہ میں علماء اور ائمہ اس قول کے موافق فتویٰ دیتے رہے، اور یہ قول بالاجماع متروک نہیں ہوا، اور کیونکر ہو سکتا ہے جب کتاب و سنت اور قیاس اور اجماع قدیم سے یہی ثابت ہے، اور اس کے بعد کسی اجماع نے اس کو باطل نہیں کیا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مصلحت سے اس کے خلاف رائے تجویز کی اور ان کا یہ فیصلہ کسی دوسرے پر حجت نہیں ہو سکتا، ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اس پر عمل کرے اور اس کے خلاف کسی کے فتوی اور کسی کا قیاس قبول نہ کرے، خواہ وہ کوئی ہو، اور اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے إعلام الموقعين، إغاثة اللهفان، رسالہ شوکانی، نیل الاوطار، مسک الختام، سنن ابن ماجہ مع حاشیہ مولانا وحیدالزمان حیدرآبادی کی طرف رجوع کیجئے، نیز تسمية المفتين کے نام سے ایک رسالہ اردو میں ترجمہ کر کے شائع کیا ہے جس میں قدیم و جدید علماء کی ایک بڑی تعداد کا ذکر ہے جو تین طلاقوں کو ایک قرار دیتی ہے۔ (فریوائی)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف جدًا
إسحاق بن أبي فروة: متروك
وأخرجه مسلم (43۔45/ 1480) وغيره من طرق عن الشعبي نحوه دون قوله ’’فأجاز ذلك / رسول اللّٰه ﷺ“ (وانظر الأصل: 2036)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 451

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2024 کے فوائد و مسائل
  الشيخ اسحاق سلفي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابن ماجه 2024  
فوائد و مسائل:
علامہ أبو الحسن، نور الدين محمد بن عبد الهادي السندي (المتوفى: 1138 ھ) اس حدیث کے تحت سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
«قوله (طلقني زوجي ثلاثا) لا يدل على أن الثلاث كانت فى مجلس واحد بل قد وجد فى روايات هذا الحديث ما يدل على أنها كانت متفرقة والله أعلم»
یعنی سیدہ فاطمہ بنت قیس نے جو یہ کہا کہ (میرے شوہر نے مجھے تین طلاق دیں) تو ان یہ کہنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی تھیں، بلکہ اس حدیث کی دیگر روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ: وہ تین طلاقیں علیحدہ علیحدہ دی گئیں تھیں۔
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 34157   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2024  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ مخزومی رضی اللہ عنہ نے دو طلاقیں پہلے دی تھیں۔
اور تیسری طلاق یمن سے حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے بھیجی۔
تین طلاقیں اکٹھی نہیں دی تھیں۔ (صحیح مسلم، الطلاق، باب المطلقة البائن لا نفقة لها، حدیث: 1480)
اسی تفصیل کی روسے کئی محققین نے اس روایت کو بھی صحیح کہا ہے کیونکہ اس روایت کا ابہام صحیح مسلم کی روایت سے دور ہوگیا۔
بہرحال صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوں گی۔
اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
(کتاب ایک مجلس کی تین طلاقیں تالیف حافظ صلاح الدین یوسف۔)

(2)
  طلاق جس طرح عورت کو براہ راست مخاطب کرکے دی جاسکتی ہے، ایسے ہی کسی قابل اعتماد شخص کے ذریعے سے طلاق کا پیغام بھی بھیجا جا سکتا ہے اور لکھ کر بھی طلاق بھیجی جاسکتی ہے۔
ہر صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2024