(موقوف) حدثنا ابو بشر بكر بن خلف ، ومحمد بن بشار ، قالا: حدثنا مرحوم بن عبد العزيز ، حدثنا ثابت ، قال: كنا جلوسا مع انس بن مالك وعنده ابنة له، فقال انس: جاءت امراة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فعرضت نفسها عليه، فقالت: يا رسول الله، هل لك في حاجة؟، فقالت ابنته: ما اقل حياءها، قال:" هي خير منك رغبت في رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعرضت نفسها عليه". (موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَعِنْدَهُ ابْنَةٌ لَهُ، فَقَالَ أَنَسٌ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لَكَ فِيَّ حَاجَةٌ؟، فَقَالَتِ ابْنَتُهُ: مَا أَقَلَّ حَيَاءَهَا، قَالَ:" هِيَ خَيْرٌ مِنْكِ رَغِبَتْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَيْهِ".
ثابت کہتے ہیں کہ ہم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے تھے، ان کے پاس ان کی ایک بیٹی تھی، انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور خود کو آپ پر پیش کیا اور بولی: کیا آپ کو میری حاجت ہے؟ یہ سن کر انس رضی اللہ عنہ کی بیٹی بولی: اس کو کتنی کم حیاء ہے! اس پر انس رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ تجھ سے بہتر ہے، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں رغبت کی، اس لیے خود کو آپ پر پیش کیا۔
Thabit said:
“We were sitting with Anas bin Mahk, and a daughter of his was with him. Anas said: 'A woman came to the Prophet and offered herself to him. She said: " O Messenger of Allah, do you have any need of me?"' His daughter said: 'How little modesty she had!' He said: 'She was better than you, because she wanted (to marry) the Messenger of Allah, and she offered herself to him. "
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، ومحمد بن الصباح ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل من بني فزارة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن امراتي ولدت غلاما اسود، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل لك من إبل؟"، قال: نعم، قال:" فما الوانها؟"، قال: حمر، قال:" هل فيها من اورق"، قال: إن فيها لورقا، قال:" فانى اتاها ذلك"، قال: عسى عرق نزعها، قال: وهذا لعل عرقا نزعه، واللفظ لابن الصباح. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَمَا أَلْوَانُهَا؟"، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ:" هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ"، قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ:" فَأَنَّى أَتَاهَا ذَلِكَ"، قَالَ: عَسَى عِرْقٌ نَزَعَهَا، قَالَ: وَهَذَا لَعَلَّ عِرْقًا نَزَعَهُ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الصَّبَّاحِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا بچہ جنا ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں“؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے رنگ کیا ہیں“؟ اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے“؟ اس نے کہا: ہاں، ان میں خاکی رنگ کے بھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں خاکی رنگ کہاں سے آیا“؟ اس نے کہا: کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں بھی (تیرے لڑکے میں) کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا“۱؎۔ یہ الفاظ محمد بن صباح کے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ اونٹوں کی قدیم نسل میں کوئی دوسرے رنگ کا ہو گا، پھر یہی رنگ کئی پشت کے بعد ان کی نئی نسل میں ظاہر ہوا، اب موجودہ اونٹ جو پرانی نسل کے ہیں وہ خالص سرخ تھے، چت کبرے نہ تھے، پس اسی طرح ہو سکتا ہے کہ انسان کی اولاد میں بھی ماں باپ کے خلاف دوسرا رنگ ظاہر ہو، اور اس کی وجہ یہ ہو کہ ماں باپ کے دادا پردادا میں کوئی کالا بھی ہو اور وہ رنگ اب ظاہر ہوا ہو، حاصل یہ ہے کہ بچے کے گورے یا کالے رنگ یا نقشے کے اختلاف کی وجہ سے یہ شبہ نہ کرنا چاہئے۔
It was narrated that Abu Hurairah said:
"A man from Banu Fazdrah came to the Messenger of Allah, and said: 'O Messenger of Allah, my wife has given birth to a black boy! The Messenger of Allah said: 'Do you have camels?' He said: 'Yes.' He said: 'What color are they?' He said: 'Red.' He said: 'Are there any grey ones among them?' He said: 'Yes, there are some grey ones among them.' He said: 'Where does that come from?' He said: 'Perhaps it is hereditary.' He said: 'Likewise, perhaps this is hereditary! "
(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، قال: حدثنا عبادة بن كليب الليثي ابو غسان ، عن جويرية بن اسماء ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رجلا من اهل البادية اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن امراتي ولدت على فراشي غلاما اسود، وإنا اهل بيت لم يكن فينا اسود قط، قال:" هل لك من إبل؟"، قال: نعم، قال:" فما الوانها"، قال: حمر، قال:" هل فيها اسود"، قال: لا، قال:" فيها اورق"، قال: نعم، قال:" فانى كان ذلك"، قال:" عسى ان يكون نزعه عرق"، قال:" فلعل ابنك هذا نزعه عرق". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ كُلَيْبٍ اللَّيْثِيُّ أَبُو غَسَّانَ ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ أَسْمَاءَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَر ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ عَلَى فِرَاشِي غُلَامًا أَسْوَدَ، وَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ لَمْ يَكُنْ فِينَا أَسْوَدُ قَطُّ، قَالَ:" هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَمَا أَلْوَانُهَا"، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ:" هَلْ فِيهَا أَسْوَدُ"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فِيهَا أَوْرَقُ"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَأَنَّى كَانَ ذَلِكَ"، قَالَ:" عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ"، قَالَ:" فَلَعَلَّ ابْنَكَ هَذَا نَزَعَهُ عِرْقٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بدوی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا لڑکا جنا ہے، اور ہم ایک ایسے گھرانے کے ہیں جس میں کبھی کوئی کالا نہیں ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں“؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ان کے رنگ کیا ہیں“؟ اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں کوئی سیاہ بھی ہے“؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا ہے“؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رنگ کہاں سے آیا“؟ اس نے کہا: ہو سکتا ہے کہ اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر شاید تمہارے اس بچے کا بھی یہی حال ہو کہ اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو“۔
It was narrated from Ibn 'Umar that:
a man frorn the desert people came to the Prophet and said: "O Messenger of Allah, my wife has given birth on my bed to a black boy, and there are no black people among my family." He said: "Do you have camels?" He said: "Yes." He said: "What color are they?" He said: "Red." He said: are there any black ones among them?" He said, "No." He said: "Are there any grey ones among them?" He said- "Yes." He said "How is that?" He said: "Perhaps it is hereditary." He said: "Perhaps (the color of) this son of yours is also hereditary."
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: إن عبد بن زمعة وسعدا اختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ابن امة زمعة، فقال سعد: يا رسول الله، اوصاني اخي إذا قدمت مكة ان انظر إلى ابن امة زمعة فاقبضه، وقال عبد بن زمعة: اخي وابن امة ابي ولد على فراش ابي، فراى النبي صلى الله عليه وسلم شبهه بعتبة، فقال:" هو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش، واحتجبي عنه يا سودة". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: إِنَّ عَبْدَ بْنَ زَمْعَةَ وَسَعْدًا اخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْصَانِي أَخِي إِذَا قَدِمْتُ مَكَّةَ أَنْ أَنْظُرَ إِلَى ابْنِ أَمَةِ زَمْعَةَ فَأَقْبِضَهُ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي وَابْنُ أَمَةِ أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي، فَرَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَهَهُ بِعُتْبَةَ، فَقَالَ:" هُوَ لَكَ يَا عَبْدَ بْنَ زَمْعَةَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَاحْتَجِبِي عَنْهُ يَا سَوْدَةُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد رضی اللہ عنہما دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا: ”عبد بن زمعہ! وہ بچہ تمہارا بھائی ہے (گرچہ مشابہت سے عتبہ کا معلوم ہوتا ہے) بچہ صاحب فراش (شوہر یا مالک) کا ہوتا ہے ۱؎، سودہ تم اس سے پردہ کرو“۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی زانی کا بچہ نہیں کہلائے گا، گو اس کے نطفہ سے پیدا ہو، بلکہ بچہ عورت کے شوہر یا مالک کا ہو گا اگر عورت لونڈی ہو۔ ۲؎: ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا زمعہ کی بیٹی تھیں، تو یہ بچہ جب زمعہ کا ٹھہرا، تو سودہ کا بھائی ہوا، لیکن چونکہ اس کی مشابہت عتبہ سے پائی گئی، اس لیے احتیاطاً آپ ﷺ نے ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
It was narrated that 'Aishah said:
Ibn Zam'ah and Sa'd (Ibn Abu Waqqas) referred a dispute to the Prophet concerning the son of Zam'ah's slave woman. Sa'd said : " O Messenger of Allah my brother (Utbah bin Abu Waqqas) left instructions in his will that when I come to Makkah, I should look for the son of the slave woman of Zam'ah and take him into my care." 'Abd bin Zam’ah said: "He is my brother and the son of the slave woman of my father; he was born on my father's bed." The Prophet ffi saw that he resembled 'Utbah, and said: "He belongs to you, O 'Abd bin Zam'ah. The child is for the bed. Observe Hijab before him, O Saudah." (sahih)
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب فراش کے لیے بچے کا فیصلہ کیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10672)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/25) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «فراش» سے مراد صاحب فراش یعنی شوہر یا مولیٰ ہے کیونکہ یہ دونوں عورت کو بستر پر لٹاتے اور اس کے ساتھ سوتے ہیں «وللعاهرالحجر» یعنی زانی کے لیے ناکامی و نامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ «حجر»(پتھر) سے مراد یہ ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ سنگسار صرف شادی شدہ زانی کو کیا جائے گا۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تو وہ جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی اسی کی طرف بچے کے نسب کا الحاق ہو گا اور وہ اسی کا بچہ شمار کیا جائے گا، میراث اور ولادت کے دیگر احکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ ارتکاب زنا کا دعویٰ کرے، اور یہ بھی دعوی کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہوا ہے، اس بچے کی مشابہت بھی اسی کے ساتھ ہو، اور صاحب فراش کے مشابہ نہ ہو، اس ساری صورتحال کے باوجود بچے کا الحاق صاحب فراش کے ساتھ کیا جائے گا، اس میں زانی کا کوئی حق نہیں ہو گا، اور یہ اس صورت میں ہے جب صاحب فراش اس کی نفی نہ کرے اور اگر اس نے اس کی نفی کر دی تو پھر بچے کا الحاق ماں کے ساتھ ہو گا، اور وہ بچہ ماں کے ساتھ منسوب ہو گا،زانی سے منسوب نہیں ہو گا۔
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”بچہ صاحب فراش کا ہے، اور زانی کے لیے پتھر ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4885، ومصباح الزجاجة: 713) (صحیح)» (سند میں سابقہ شواہد سے یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس میں اسماعیل بن عیاش اور شرجیل بن مسلم کی وجہ سے کچھ کلام ہے)
وضاحت: ۱؎: «وللعاهرالحجر» یعنی زانی کے لیے ناکامی و نامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ «حجر»(پتھر) سے مراد یہ ہے کہ اسے سنگسار کیا جائے گا، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ سنگسار صرف شادی شدہ زانی کو کیا جائے گا۔
Shurahbil bin Muslim said:
"I heard Abu Um Amah Al-Bahili say: 'I heard the Messenger of Allah say: "The child is for the bed and the fornicator gets nothing."
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا حفص بن جميع ، حدثنا سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، ان امراة جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاسلمت فتزوجها رجل، قال: فجاء زوجها الاول، فقال: يا رسول الله، إني قد كنت اسلمت معها وعلمت بإسلامي، قال:" فانتزعها رسول الله صلى الله عليه وسلم من زوجها الآخر وردها إلى زوجها الاول". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ جُمَيْعٍ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ ، عَنْ عِكرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَتْ فَتَزَوَّجَهَا رَجُلٌ، قَالَ: فَجَاءَ زَوْجُهَا الْأَوَّلُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَسْلَمْتُ مَعَهَا وَعَلِمَتْ بِإِسْلَامِي، قَالَ:" فَانْتَزَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَوْجِهَا الْآخَرِ وَرَدَّهَا إِلَى زَوْجِهَا الْأَوَّلِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اسلام قبول کیا، اور اس سے ایک شخص نے نکاح کر لیا، پھر اس کا پہلا شوہر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں اپنی عورت کے ساتھ ہی مسلمان ہوا تھا، اور اس کو میرا مسلمان ہونا معلوم تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو دوسرے شوہر سے چھین کر پہلے شوہر کے حوالے کر دیا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 23 (2238، 2239)، سنن الترمذی/النکاح 42 (1144)، (تحفة الأشراف: 6107)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/232، 323) (ضعیف)» (سند میں حفص بن جمیع ضعیف راوی ہیں، اور سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب ہے)
It was narrated from Ibn 'Abbas that:
a woman came to the Prophet and became Muslim, and a man married her. Then her first husband came and said: "O Messenger of Allah, I became Muslim with her, and she knew that I was Muslim." So the Messenger of Allah took her away from her second husband and returned her to her first husband.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2238،2239) ترمذي (1144) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 450
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس دو سال کے بعد اسی پہلے نکاح پر بھیج دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: چونکہ ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ نے صلح حدیبیہ (سن ۶ ہجری) سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اس لیے زینب رضی اللہ عنہا کی واپسی کے لیے نئے نکاح کی ضرورت نہیں پڑی، مشرکین پر مسلمان عورتوں کو حرام قرار دینے کا ذکر صلح حدیبیہ کے مکمل ہونے کے بعد نازل ہونے والی آیت میں کیا گیا ہے، لہذا اس مدت کے دوران نکاح فسخ نہیں ہوا کیونکہ اس بارے میں کوئی شرعی حکم تھا ہی نہیں، اور جب نکاح فسخ نہیں ہوا تو نئے نکاح کی ضرورت پڑے گی ہی نہیں، رہی «عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ» والی روایت جو آگے آ رہی ہے تو وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کا معارضہ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ حجاج بن أرطاۃ کی وجہ سے ضعیف ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ زینب رضی اللہ عنہا نے ۲ ھ میں یا ۳ ھ کی ابتداء میں ہجرت کی، اور ان کی وفات ۸ ھ کے شروع میں ہوئی ہے، اس طرح ان کی ہجرت اور وفات کے درمیان کل پانچ برس چند ماہ کا وقفہ ہے، لہذا ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام اور زینب رضی اللہ عنہا کی ان کو واپسی اسی مدت کے دوران عمل میں آئی، اور صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قبول اسلام صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے، رہا یہ مسئلہ کہ زینب کی واپسی کتنے سال بعد ہوئی تو اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، بعض میں دو سال، بعض میں تین سال اور بعض میں چھ سال کا ذکر ہے، لیکن صحیح ترین روایت یہ ہے کہ ان کی واپسی تین سال بعد ہوئی تھی، تین سال مکمل تھے اور کچھ مہینے مزید گزرے تھے۔
It was narrated from Ibn 'Abbas that:
the Messenger of Allah returned his daughter to Abul-'As bin Rabi' after two years, on the basis of the first marriage contract.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2240) ترمذي (1143) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 450
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس نئے نکاح پر بھیج دیا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/النکاح 42 (1142)، (تحفة الأشراف: 8672)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/207) (ضعیف)» (سند میں حجاج بن ارطاة ضعیف اور مدلس راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: صحیح یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان دونوں کو پہلے نکاح پر برقرار رکھا، اور دارقطنی نے کہا کہ یہ حدیث ثابت نہیں ہے، اور صواب ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح ہی سے لوٹا دیا۔ اور امام ترمذی کتاب العلم میں کہتے ہیں کہ میں نے بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے کہا کہ اس باب میں ابن عباس کی حدیث عمرو بن شعیب کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، علامہ ابن القیم فرماتے ہیں: تعجب ہے کہ اس ضعیف حدیث کو اصل بنا دیں اور اس سے صحیح حدیث کو رد کر دیں اور کہیں کہ وہ اصول کے خلاف ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی طرف صحابہ کی ایک جماعت گئی ہے «ومن بعدہم»، ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اسلام قبول کرنے والے آدمی اور اس کے ساتھ اس کی اسلام نہ لانے والی بیوی کے درمیان جدائی نہ کراتے، بلکہ جب دوسرا اسلام لاتا تو نکاح اپنے حال پر رہتا، جب تک وہ عورت دوسرا نکاح نہ کر لے، اور یہ سنت معلومہ اور مشہورہ ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ابوسفیان نے مرالظہران میں جو خزاعہ کا علاقہ ہے، اسلام قبول کیا، اور وہاں فتح مکہ سے پہلے مسلمان تھے، تو وہ دارالاسلام ٹھہرا، اور ابوسفیان مکہ واپس چلے گئے، اور ان کی بیوی ہندہ جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، مکہ میں تھی، اس نے ابوسفیان کی داڑھی پکڑ کر کہا اس بوڑھے گمراہ کو قتل کر دو، پھر اس کے کافی دنوں بعد ہندہ نے اسلام قبول کیا، وہ دارالحرب میں مقیم تھی، اور کافر تھی، جب کہ ابوسفیان مسلمان تھے، اور عدت گزر جانے کے بعد ہندہ مسلمان ہوئی، لیکن دونوں کا نکاح قائم رہا، کیونکہ درحقیقت اس کی عدت نہیں گزری، یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو گئی، اور اسی طرح حکیم بن حزام کا حال گزرا، صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابوجہل دونوں کی بیویاں مکہ میں مسلمان ہوئیں اور مکہ دارالاسلام ہو گیا، اور نبی کریم ﷺکی حکومت وہاں قائم ہو گئی، اور عکرمہ یمن کی طرف بھاگے وہ دارالحرب تھا، اور صفوان بھی دارالحرب چل دیئے، پھر صفوان مکہ میں لوٹے تو وہ دارالاسلام تھا، اور جنگ حنین میں حاضر ہوئے، لیکن اس وقت تک کافر تھے، اس کے بعد مسلمان ہوئے اور ان کی بیوی پہلے ہی نکاح سے ان کے پاس رہیں، کیونکہ درحقیقت ان کی عدت نہیں گزری تھی، اور اہل مغازی نے لکھا ہے کہ ایک انصاری عورت مکہ میں ایک شخص کے پاس تھی، پھر وہ مسلمان ہو گئی اور اس نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، اس کے بعد اس کا شوہر آیا وہ عدت میں تھی، تو اپنے پرانے نکاح ہی پر شوہر سے جا ملی۔ (الروضہ الندیہ)۔
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, from his grand father, that:
the Messenger of Allah, returned his daughter Zainab to Abul-As bin Rabi', with a new marriage contract.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1142) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 450