قیس بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کیا، اور میرے پاس آٹھ عورتیں تھیں، چنانچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے چار کا انتخاب کر لو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمانہ کفر کا نکاح معتبر ہو گا اگر میاں بیوی دونوں اسلام قبول کر لیں تو ان کا سابقہ نکاح برقرار رہے گا، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہو گی، یہی امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کا مذہب ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جدائی کے وقت ترتیب نکاح غیر موثر ہے، مرد کے لیے یہ ضروری نہیں کہ وہ پہلی بیوی کو روک رکھے بلکہ اسے اختیار ہے جسے چاہے روک لے اور جسے چاہے جدا کر دے، یہ حدیث اور اس کے بعد والی حدیثیں حنفیہ کے خلاف حجت ہیں۔
It was narrated that Qais bin Harith said:
“I became Muslim and I had eight wives. I went to the Prophet and told him about that. He said: 'Choose four of them.' ”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2241،2242) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 449
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے چار کو رکھو“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/النکاح 32 (1128)، (تحفة الأشراف: 6949)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطلاق 29 (76)، مسند احمد (2/13، 14، 44، 183) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس باب کی دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چار سے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا حرام ہے، لیکن اس حکم سے نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی مستثنیٰ ہے، آپ کے حرم میں بیک وقت نو بیویاں تھیں، یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی، اور اس میں بہت سی دینی اور سیاسی مصلحتیں کار فرما تھیں، آپ ﷺ کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں، غیلان بن سلمہ رضی اللہ عنہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے، فتح طائف کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ پوری کی جانے کی مستحق شرط وہ ہے جس کے ذریعے تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: شرط سے مراد وہ شرط ہے جس پر عورت سے نکاح کیا، اس حدیث کی روشنی میں مرد نکاح کے وقت جو شرطیں مقرر کرے ان کو پورا کرنا واجب ہے، گو وہ شرطیں کسی قسم کی ہوں، اور بعضوں نے کہا: مراد وہ شرطیں ہیں جو مہر کے متعلق ہوں، یا نکاح سے، اور جو دوسری شرطیں ہوں جیسے یہ کہ عورت کو اس کے گھر سے نہ نکالے گا، یا اس کے ملک سے نہ لے جائے گا، یا اس کے اوپر دوسرا نکاح نہ کرے گا، تو ایسی شرطوں کا پورا کرنا شوہر پر واجب نہیں ہے، لیکن اگر اس نے ان شرطوں پر قسم کھائی ہو، اور ان کے خلاف کرے، تو قسم کا کفارہ لازم ہو گا۔
It was narrated from 'Uqbah bin 'Amir:
that the Prophet said: “The conditions most deserving to be fulfilled are those by means of which the private parts become permissible for you.”
(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو خالد ، عن ابن جريج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما كان من صداق، او حباء، او هبة قبل عصمة النكاح فهو لها وما كان بعد عصمة النكاح فهو لمن اعطيه، او حبي واحق ما يكرم الرجل به ابنته او اخته". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا كَانَ مِنْ صَدَاقٍ، أَوْ حِبَاءٍ، أَوْ هِبَةٍ قَبْلَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لَهَا وَمَا كَانَ بَعْدَ عِصْمَةِ النِّكَاحِ فَهُوَ لِمَنْ أُعْطِيَهُ، أَوْ حُبِيَ وَأَحَقُّ مَا يُكْرَمُ الرَّجُلُ بِهِ ابْنَتُهُ أَوْ أُخْتُهُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہر یا عطیہ یا ہبہ میں سے جو نکاح ہونے سے پہلے ہو وہ عورت کا حق ہے، اور جو نکاح کے بعد ہو تو وہ اس کا حق ہے، جس کو دیا جائے یا عطا کیا جائے، اور مرد سب سے زیادہ جس چیز کی وجہ سے اپنے اعزاز و اکرام کا مستحق ہے وہ اس کی بیٹی یا بہن ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/النکاح 36 (2129)، سنن النسائی/النکاح 67 (3355)، (تحفة الأشراف: 8745)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/182) (ضعیف)» (سند میں ابن جریج مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)
It was narrated from 'Amr bin Shu'aib, from his father, that his grandfather said:
“The Messenger of Allah said: “Whatever is given as a dowry or gift before the marriage, it belongs to her. Whatever is given after the marriage belongs to the one to whom it was given. And the most deserving matter for which a man is honored is (the marriage of) his daughter or sister.”
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد ابو سعيد الاشج ، حدثنا عبدة بن سليمان ، عن صالح بن صالح بن حي ، عن الشعبي ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من كانت له جارية، فادبها، فاحسن ادبها وعلمها، فاحسن تعليمها ثم اعتقها وتزوجها، فله اجران وايما رجل من اهل الكتاب آمن بنبيه، وآمن بمحمد، فله اجران، وايما عبد مملوك ادى حق الله عليه وحق مواليه، فله اجران"، قال صالح، قال الشعبي: قد اعطيتكها بغير شيء إن كان الراكب ليركب فيما دونها إلى المدينة. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ صَالِحِ بْنِ حَيٍّ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ، فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا وَعَلَّمَهَا، فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ مَمْلُوكٍ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ عَلَيْهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، فَلَهُ أَجْرَانِ"، قَالَ صَالِحٌ، قَالَ الشَّعْبِيُّ: قَدْ أَعْطَيْتُكَهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ إِنْ كَانَ الرَّاكِبُ لَيَرْكَبُ فِيمَا دُونَهَا إِلَى الْمَدِينَةِ.
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس لونڈی ہو وہ اس کو اچھی طرح ادب سکھائے، اور اچھی طرح تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے، تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے، اور اہل کتاب میں سے جو شخص اپنے نبی پر ایمان لایا، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا، تو اسے دوہرا اجر ملے گا، اور جو غلام اللہ کا حق ادا کرے، اور اپنے مالک کا حق بھی ادا کرے، تو اس کو دوہرا اجر ہے“۱؎۔ شعبی نے صالح سے کہا: ہم نے یہ حدیث تم کو مفت سنا دی، اس سے معمولی حدیث کے لیے آدمی مدینہ تک سوار ہو کر جایا کرتا تھا ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک اجر اس کے آزاد کرنے کا، اور دوسرا اجر اس کی تعلیم یا نکاح کا، اب اہل حدیث کا قول یہ ہے کہ اپنی لونڈی کو آزاد کرے اور اسی آزادی کو مہر مقرر کر کے اس سے نکاح کر لے تو جائز ہے۔ ۲؎: امام شعبی (عامر بن شراحیل) کوفہ میں تھے، ان کے عہد میں کوفہ سے مدینہ تک دو ماہ کا سفر تھا، مطلب یہ ہے کہ ایک ایک حدیث سننے کے لئے محدثین کرام دو دو مہینے کا سفر کرتے تھے، سبحان اللہ، اگلے لوگوں کو اللہ بخشے اگر وہ ایسی محنتیں نہ کرتے تو ہم تک دین کیوں کر پہنچتا۔
It was narrated from Abu Musa that the Messenger of Allah said:
'Whoever has a slave woman and teaches her good manners and educates her, then sets her free and marries her, will have two rewards. Any man from among the People of the Book who believed in his Prophet and believed in Muhammad will have two rewards. Any slave who does his duty towards Allah and towards his masters will have two rewards.” (Sahih)(one of the narrators) Salih said: “Sha'bi said: 'I have given this (Hadith) to you for little effort on your part. A rider would travel to Al-Madinah for less than this.' ”
(موقوف) حدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا ثابت ، وعبد العزيز ، عن انس ، قال:" صارت صفية لدحية الكلبي، ثم صارت لرسول الله صلى الله عليه وسلم بعد، فتزوجها، وجعل عتقها صداقها"، قال حماد، فقال عبد العزيز لثابت: يا ابا محمد انت سالت انسا ما امهرها؟، قال: امهرها نفسها". (موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ:" صَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ، ثُمَّ صَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ، فَتَزَوَّجَهَا، وَجَعَلَ عِتْقَهَا صَدَاقَهَا"، قَالَ حَمَّادٌ، فَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ لِثَابِتٍ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَنْتَ سَأَلْتَ أَنَسًا مَا أَمْهَرَهَا؟، قَالَ: أَمْهَرَهَا نَفْسَهَا".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پہلے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گئیں، تو آپ نے ان سے شادی کی، اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر بنایا ۱؎۔ حماد کہتے ہیں کہ عبدالعزیز نے ثابت سے پوچھا: اے ابومحمد! کیا آپ نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (صفیہ) کا مہر کیا مقرر کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا تھا۔
وضاحت: ۱؎: صفیہ رضی اللہ عنہا ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں، اور یہودیوں کے بادشاہ حی بن اخطب کی بیٹی تھیں، اس لئے مسلمانوں کے سردار کے پاس ان کا رہنا مناسب تھا۔
It was narrated that Anas said:
“Safiyyah was given to Dihyah Al-Kalbi (as his share of the war booty), then she was given to the Messenger of Allah after that. He married her, and made her ransom (i.e., freedom from slavery) her dowry.” (Sahih)Hammad said: “Abdul-'Aziz said to Thabit: 'O Abu Muhammad! Did you ask Anas what her bridal-money was?' He said: 'Her bridal-money was her freedom.' ”
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا، اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر مقرر کر کے ان سے شادی کر لی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17405، ومصباح الزجاجة: 690) (صحیح)» (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس غلام نے اپنے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا، تو وہ زانی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8508، ومصباح الزجاجة: 694) (حسن)» (سند میں مندل ضعیف راوی ہے، سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے، اور پالتو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرما دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: متعہ: کسی عورت سے ایک متعین مدت تک کے لیے نکاح کرنے کو متعہ کہتے ہیں، جب مقررہ مدت پوری ہو جاتی ہے تو ان کے درمیان خودبخود جدائی ہو جاتی ہے، متعہ دو مرتبہ حرام ہوا اور دو ہی مرتبہ مباح و جائز ہوا، چنانچہ یہ غزوہ خیبر سے پہلے حلال تھا پھر اسے غزوہ خیبر کے موقع پر حرام کیا گیا، پھر اسے فتح مکہ کے موقع پر مباح کیا گیا اور عام اوطاس بھی اسی کو کہتے ہیں اس کے بعد یہ ہمیشہ ہمیش کے لیے حرام کر دیا گیا جیسا کہ امام نووی نے بیان فرمایا ہے۔ لیکن علامہ ابن القیم کی رائے یہ ہے کہ متعہ غزوہ خیبر کے موقع پر حرام نہیں کیا گیا بلکہ اس کی حرمت فتح مکہ کے سال ہوئی، اور یہی رائے صحیح ہے، اس سے پہلے مباح و جائز تھا، اور علی رضی اللہ عنہ نے متعہ کی حرمت اور گھریلو گدھے کی حرمت کو جو ایک ساتھ جمع کر دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ان دونوں کو مباح و جائز سمجھتے تھے تو علی نے نبی اکرم ﷺ سے ان دونوں کی تحریم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تردید میں بیان کی ہے، اور پالتو گدھے کی حرمت غزوہ خیبر میں ہوئی تھی، اور اس کی تحریم کے لیے غزوہ خیبر کے دن کو بطور ظرف ذکر کیا ہے، اور تحریم متعہ کو مطلق بیان کیا ہے، صحیح سند سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن گھریلو گدھے کو حرام قرار دیا، نیز عورتوں سے متعہ کو بھی حرام کیا، اور ایک روایت میں «حرم متعة النساء وحرم لحوم الحمر الأهلية» کے الفاظ بھی ہیں جس سے بعض راویوں نے یہ سمجھا کہ ان دونوں کو خیبر کے روز ہی حرام کیا گیا تھا، تو انھوں نے دونوں کو خیبر کے روز ہی سے مقید کر دیا، اور بعض راویوں نے ایک کی تحریم پر اقتصار کیا اور وہ ہے گھریلو گدھے کی تحریم، یہیں سے وہم ہوا کہ دونوں کی تحریم غزوہ خیبر کے موقع پر ہوئی، رہا خیبر کا قصہ تو اس روز نہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہودی عورتوں سے متعہ کیا، اور نہ ہی اس بارے میں رسول اللہﷺ سے انھوں نے اجازت طلب کی اور نہ ہی کسی نے کبھی اس غزوہ میں اس کو نقل کیا ہے اور نہ اس متعہ کے فعل یا اس کی تحریم کا حتمی ذکر ہے بخلاف فتح مکہ کے، فتح مکہ کے موقع پر متعہ کے فعل اور اس کی تحریم کا ذکر مشہور ہے اور اس کی روایت صحیح ترین روایت ہے۔ (ملاحظہ ہو: زاد المعاد)
It was narrated from 'Ali bin Abu Talib that:
The Messenger of Allah forbade on the Day of Khaibar, the temporary marriage of women and (he forbade) the flesh of domestic donkeys.