انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کو جسے اپنی جان کا ڈر ہو، اور دودھ پلانے والی عورت کو جسے اپنے بچے کا ڈر ہو، رخصت دی کہ وہ دونوں روزے نہ رکھیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 540) (ضعیف جدا)» (اس کی سند میں ربیع بن بدر متروک راوی ہیں)
It was narrated that Anas bin Malik said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) granted a concession to pregnant women who fear for themselves, allowing them not to fast, and to nursing mothers who fear for their infants.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا الربيع بن بدر: متروك انوار الصحيفه، صفحه نمبر 440
وضاحت: ۱؎: جب شعبان کا مہینہ آتا تو نبی اکرم ﷺ بھی اس مہینہ میں بہت روزے رکھتے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی قضا کرتیں، اور قضا میں دیر کرنے کی وجہ یہ ہوتی کہ نبی کریم ﷺ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت بہت تھی، پہلے روزے رکھنے سے اندیشہ تھا کہ نبی کریم ﷺ کو تکلیف ہو گی۔
It was narrated that Abu Salamah said:
“I heard ‘Aishah say: ‘I used to owe fasts from the month of Ramadan, and I would not make them up for until Sha’ban came.’”
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن حميد بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فقال: هلكت، قال:" وما اهلكك"، قال: وقعت على امراتي في رمضان، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اعتق رقبة"، قال: لا اجدها، قال:" صم شهرين متتابعين"، قال: لا اطيق، قال:" اطعم ستين مسكينا"، قال: لا اجد، قال:" اجلس"، فجلس فبينما هو كذلك إذ اتي بمكتل يدعى العرق، فقال:" اذهب فتصدق به"، قال: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق ما بين لابتيها اهل بيت احوج إليه منا، قال:" فانطلق فاطعمه عيالك". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: هَلَكْتُ، قَالَ:" وَمَا أَهْلَكَكَ"، قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْتِقْ رَقَبَةً"، قَالَ: لَا أَجِدُهَا، قَالَ:" صُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَ: لَا أُطِيقُ، قَالَ:" أَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قَالَ: لَا أَجِدُ، قَالَ:" اجْلِسْ"، فَجَلَسَ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أُتِيَ بِمِكْتَلٍ يُدْعَى الْعَرَقَ، فَقَالَ:" اذْهَبْ فَتَصَدَّقْ بِهِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنَّا، قَالَ:" فَانْطَلِقْ فَأَطْعِمْهُ عِيَالَكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اس نے عرض کیا: میں ہلاک ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟ اس نے کہا: میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایک غلام آزاد کرو“، اس نے کہا: میرے پاس غلام آزاد کرنے کی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو دو مہینے لگاتار روزے رکھو“، اس نے کہا: میں اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ“ اس نے کہا: مجھے اس کی بھی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ“ وہ بیٹھ گیا، اسی دوران آپ کے پاس کھجور کا ایک ٹوکرا آ گیا، اس ٹوکرے کو «عرق» کہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”جاؤ اسے صدقہ کر دو“، اس نے کہا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، مدینہ کی ان دونوں سیاہ پتھریلی پہاڑیوں کے بیچ کوئی اور گھر والا ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اپنے گھر والوں کو کھلا دو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان کا صیام قصداً توڑنے سے ظہار کا سا کفارہ لازم ہے، سبحان اللہ اس شخص کی بھی کیا قسمت تھی کہ روزے کا کفارہ بھی ساقط اور کھجور کا ٹوکرہ مفت ہاتھ آیا، علماء نے کہا ہے کہ یہ اس شخص کے ساتھ خاص تھا اگر دوسرا کوئی رمضان کا روزہ قصداً توڑے تو غلام آزاد کرے، اگر یہ نہ ہو سکے تو تو دو مہینے لگا تار روزے رکھے، اگر یہ نہ ہو سکے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے،اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو ٹھہرا رہے جب روزے کی طاقت آ جائے یا مال ملے تو کفارہ ادا کرے، بہر حال اپنے بال بچوں کے کھلا دینے سے کفارے کا ادا ہو جانا اس شخص کے ساتھ خاص تھا، «واللہ اعلم»
It was narrated that Abu Hurairah said:
“A man came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘I am doomed.’ He said: ‘Why are you doomed?’ He said: ‘I had intercourse with my wife in Ramadan.’ The Prophet (ﷺ) said: ‘Free a slave.’ He said: ‘I cannot.’ He said: ‘Fast for two consecutive months.’ He said: ‘I cannot.’ He said: ‘Feed sixty poor persons.’ He said: ‘I cannot.’ He said: ‘Sit down.’ So he sat down, and while doing so a basketful of dates was brought. The Prophet (ﷺ) said: ‘Go and give this in charity.’ He said: ‘O Messenger of Allah, by the One Who sent you with the truth, there is no household between its two lava fields (i.e., in Al-Madinah) that is more in need of it than us.’ He said: ‘Then go and feed your family.’”
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ایسے ہی بیان کیا ہے، اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی جگہ پر ایک دن کا روزہ رکھ لو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13376، ومصباح الزجاجة: 605)، مسند احمد (2/208) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی رخصت کے چھوڑ دے تو اسے پورے سال کے روزے (بھی) کافی نہ ہوں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم 38 (2396)، سنن الترمذی/الصوم 27 (723)، (تحفة الأشراف: 14616)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/386، 442، 458)، سنن الدارمی/الصوم 18 (1756) (ضعیف)» (اس کے راوی ابن المطوس لین الحدیث اور والد مطوس مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 413)
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“Whoever does not fast one day in Ramadan without having a concession allowing that, fasting for a lifetime will not make up for that.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داو د (2396) ترمذي (723) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 440
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بھول کر کھا لیا اور وہ روزہ دار ہو تو اپنا روزہ پورا کر لے (توڑے نہیں) اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے“۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
"Whoever eats out of forgetfulness while fasting, let him complete his fast, for it is Allah Who has fed him and given him to drink."
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دن بدلی میں روزہ افطار کر لیا، پھر سورج نکل آیا، ابواسامہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام سے کہا: پھر تو لوگوں کو روزے کی قضاء کا حکم دیا گیا ہو گا؟، انہوں نے کہا: یہ تو ضروری ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی قضا تو کرنا ضروری ہے ایسی حالت میں اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جب دھوکہ سے روزہ کھول ڈالے بعد میں معلوم ہو کہ دن باقی تھا اور سورج نہیں ڈوبا تھا تو قضا لازم آئے گی، لیکن کفارہ لازم نہ ہو گا۔
فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ایک ایسے دن میں آئے جس میں آپ روزہ رکھا کرتے تھے، آپ نے ایک برتن منگوایا اور پانی پیا، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دن تو آپ کے روزے کا ہے؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، لیکن آج میں نے قے کی ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11041، ومصباح الزجاجة: 606)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/18، 19، 21، 22) (ضعیف)» (اس میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، نیز ابو مرزوق کا سماع فضالہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کی سند میں انقطاع بھی ہے)
It was narrated that Abu Masruq said:
“I heard Fadalah bin ‘Ubaid Al- Ansari narrating that the Prophet (ﷺ) came out to them on a day when he was fasting. He called for a vessel and drank. We said: ‘O Messenger of Allah, you were fasting today.’ He said: ‘Yes, but I vomited.’”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے خود بہ خود قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء نہیں، اور جس نے جان بوجھ کر قے کی تو اس پر روزے کی قضاء ہے“۔
تخریج الحدیث: «حدیث عبید اللہ عن علی قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14519) وحدیث عبید اللہ عن الحکم قد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم 32 (2380)، سنن الترمذی/الصوم 25 (720)، (تحفة الأشراف: 14542)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/498)، سنن الدارمی/الصوم 25 (1770) (صحیح)»
It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet (ﷺ) said:
“Whoever unintentionally vomits, he does not have to make up for the fast, but whoever makes himself vomit, has to make up for the fast.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (2380) ترمذي (720) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 440