وضاحت: ۱؎: یہ حکم مستحب ہے، کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «ليس عليكم في غسل ميتكم إذا اغسلتموه أن ميتكم يموت طاهرًا، وليس بنجس فحسبكم أن يغسلوا أيديكم»”جب تم لوگ اپنے میت کو غسل دو، تو تمہارے اوپر کچھ نہیں ہے، سوائے اس کہ تم اپنے ہاتھوں کو دھو لو، کیونکہ تمہارے میت پاک و صاف ہو کر وفات پائے ہیں وہ نجس نہیں ہیں“ نیز امام خطابی فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ کسی بھی عالم نے میت کو غسل دینے سے یا اسے اٹھانے سے غسل کو واجب کہا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر مجھے اپنی اس بات کا علم پہلے ہی ہو گیا ہوتا جو بعد میں ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیویاں ہی غسل دیتیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16182، ومصباح الزجاجة: 519)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجنائز 32 (3141)، مسند احمد (6/267) (صحیح)» (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن منتقی ابن الجارو د، صحیح ابن حبان اور مستدرک الحاکم میں تحدیث کی صراحت ہے، دفاع عن الحدیث النبوی 53-54، والإرواء: 700)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے کیونکہ بیوی محرم راز ہوتی ہے، اور اس سے ستر بھی نہیں ہوتا، پس اس کا غسل دینا شوہر کو بہ نسبت دوسروں کے اولیٰ اور بہتر ہے، اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا، اور کسی صحابی نے اس پر نکیر نہیں کی، اور یہ مسئلہ اتفاقی ہے، نیز ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کو غسل نہ دے سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اگر یہ جائز نہ ہوتا تو وہ افسوس کا اظہار نہ کرتیں، جیسا کہ امام بیہقی فرماتے ہیں: «فتلهفت على ذلك ولا يتلهف إلا على ما يجوز» ۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع سے لوٹے تو مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا، اور میں کہہ رہی تھی: ”ہائے سر!“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلکہ اے عائشہ! میں ہائے سر کہتا ہوں“۱؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا کیا نقصان ہو گا اگر تم مجھ سے پہلے مرو گی تو تمہارے سارے کام میں انجام دوں گا، تمہیں غسل دلاؤں گا، تمہاری تکفین کروں گا، تمہاری نماز جنازہ پڑھاؤں گا، اور تمہیں دفن کروں گا۔“
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16313، ومصباح الزجاجة: 520)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/228)، سنن الدارمی/المقدمة 14 (81) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اے عائشہ! بلکہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔
It was narrated that ‘Aishah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) came back from Al-Baqi’ and I had a headache and was saying: ‘O my head!’ He said: ‘Rather, I should say, O my head, O ‘Aishah!’ Then he said: ‘It will not matter if you were to die before me, for I will take care of you, wash you, shroud you, offer the funeral prayer for you and bury you.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الزھري مدلس وعنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 430
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینا شروع کیا ۱؎ تو کسی آواز لگانے والے نے اندر سے آواز لگائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کرتہ نہ اتارو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1942، ومصباح الزجاجة: 521) (منکر)» (اس کی سند میں ابو بردہ عمر و بن یزید التیمی ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ ﷺ کے کپڑے نکالنے کے سلسلے میں متردد ہوئے۔
It was narrated from Abu Buraidah that his father said:
“When they started to wash the Prophet (ﷺ), a voice called out from inside (the house) saying: ‘Do not remove the shirt of the Messenger of Allah.’”
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا، تو آپ کے جسم مبارک سے وہ ڈھونڈنے لگے جو میت کے جسم میں ڈھونڈتے ہیں ۱؎ لیکن کچھ نہ پایا، تو کہا: میرے باپ آپ پر قربان ہوں، آپ پاک صاف ہیں، آپ زندگی میں بھی پاک تھے، مرنے کے بعد بھی پاک رہے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10115، ومصباح الزجاجة: 522) (صحیح)» (اس کی سند میں یحییٰ بن خذام مجہول ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے سند صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی نجاست وغیرہ۔ ۲؎: نبی اکرم ﷺ کے مزاج میں اللہ تعالیٰ نے نہایت نفاست، لطافت اور طہارت رکھی تھی، آپ خوشبو کا بہت استعمال کرتے تھے اور بدبو سے نہایت نفرت کرتے، آپ کے کپڑے اور بدن ہمیشہ معطر رہتے، یہاں تک کہ آپ جس کوچہ اور گلی سے چلے جاتے تو وہ معطر ہو جاتا، اور لوگ پہچان لیتے کہ آپ ادھر سے تشریف لے گئے ہیں، ایک بار آپ ﷺ نے شہد کا استعمال کیا، تو بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے کہا کہ آپ کے منہ سے مغافیر (گوند) کی بو آتی ہے، آپ نے شہد کا استعمال اپنے اوپر حرام کر لیا، غرض آپ اس سے بہت بچتے تھے کہ آپ کے کپڑے یا بدن میں کسی قسم کی بو ہو جو دوسرے کو بری معلوم ہو، اور اسی وجہ سے آپ کچی پیاز یا لہسن نہیں کھاتے تھے، جب نبی اکرم ﷺ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول سے ملنے گئے، جو بڑا دنیا دار اور مال دار تھا، تو وہ کہنے لگا کہ آپ اپنے گدھے کو مجھ سے ذرا دور رکھئیے اس کی بدبو سے مجھے تکلیف ہوتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی! آپ ﷺ کے گدھے کی بو تیرے بدن کی بو سے اچھی ہے، غرض سر سے پاؤں تک آپ لطافت و طہارت اور خوشبو ہی میں ڈوبے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے وفات کے بعد بھی آپ کو پاک و صاف رکھا۔
It was narrated that ‘Ali bin Abu Talib said that when he washed the Messenger of Allah (ﷺ) he looked for what which is usually looked for on the deceased (i.e., dirt), and he found none. He said:
“May my father be sacrificed for you, you are pure; you were pure in life and you are pure in death.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الزھري عنعن في المتصل وصرح بالسماع في المرسل فالسند معلل انوار الصحيفه، صفحه نمبر 430
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں انتقال کر جاؤں تو مجھے میرے کنویں (بئر غرس) کے سات مشکیزوں سے غسل دینا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10164، ومصباح الزجاجة: 523) (ضعیف)» (اس کی سند میں عباد بن یعقوب متروک ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1237)
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا حفص بن غياث ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" كفن في ثلاثة اثواب بيض يمانية، ليس فيها قميص، ولا عمامة"، فقيل لعائشة: إنهم كانوا يزعمون انه قد كان كفن في حبرة، فقالت عائشة:" قد جاءوا ببرد حبرة فلم يكفنوه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ، وَلَا عِمَامَةٌ"، فَقِيلَ لِعَائِشَةَ: إِنَّهُمْ كَانُوا يَزْعُمُونَ أَنَّهُ قَدْ كَانَ كُفِّنَ فِي حِبَرَةٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ:" قَدْ جَاءُوا بِبُرْدِ حِبَرَةٍ فَلَمْ يُكَفِّنُوهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا، جس میں کرتہ اور عمامہ نہ تھا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لوگ دھاری دار چادر لائے تھے مگر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں نہیں کفنایا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ سفید کپڑا کفن کے لیے بہتر ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے، یہ بدعت ہے۔
It was narrated from ‘Aishah that the Prophet (ﷺ) was shrouded in three white Yemeni cloths, among which there was no shirt and no turban. It was said to ‘Aishah:
“They used to claim that he was shrouded in Hibarah.” ‘Aishah said: “They brought a Hibarah Burd, but they did not shroud him in it.”
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سحول کے بنے ہوئے تین باریک سفید کپڑوں میں کفنائے گئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7676، ومصباح الزجاجة: 524) (حسن صحیح)» (عائشہ رضی اللہ عنہا کی سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عمرو بن ابی سلمہ ضعیف ہیں)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین کپڑوں میں کفنائے گئے، ایک اپنی قمیص میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی، اور دوسرے نجرانی ۱؎ جوڑے میں۔
تخریج الحدیث: «حدیث یزید بن أبي زیاد عن الحکم تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6485)، وحدث یزید بن أبي زیاد عن مقسم أخرجہ، سنن ابی داود/الجنائز 34 (3153)، (تحفة الأشراف: 6496)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/222) (ضعیف) (اس کی سند میں یزید بن أبی زیاد ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: نجران: یمن سے متصل سعودی عرب کے ایک علاقہ کا نام ہے، اور نجران مشہور شہر بھی ہے۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) was shrouded in three garments: The shirt in which he died, and a Najrani Hullah.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (3153) وجاء في بعض نسخ سنن ابن ماجه: ”الحكم بن عتيبة“ بين يزيد بن أبي زياد ومقسم وھو وھم،واﷲ أعلم انوار الصحيفه، صفحه نمبر 430
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے کپڑوں میں سب سے بہتر سفید کپڑا ہے، لہٰذا تم اپنے مردوں کو اسی میں کفناؤ، اور اسی کو پہنو“۔
It was narrated from Ibn ‘Abbas that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
“The best of your garments are those which are white, so shroud your dead in them, and wear them.”