علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا، تو آپ کے جسم مبارک سے وہ ڈھونڈنے لگے جو میت کے جسم میں ڈھونڈتے ہیں ۱؎ لیکن کچھ نہ پایا، تو کہا: میرے باپ آپ پر قربان ہوں، آپ پاک صاف ہیں، آپ زندگی میں بھی پاک تھے، مرنے کے بعد بھی پاک رہے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی نجاست وغیرہ۔ ۲؎: نبی اکرم ﷺ کے مزاج میں اللہ تعالیٰ نے نہایت نفاست، لطافت اور طہارت رکھی تھی، آپ خوشبو کا بہت استعمال کرتے تھے اور بدبو سے نہایت نفرت کرتے، آپ کے کپڑے اور بدن ہمیشہ معطر رہتے، یہاں تک کہ آپ جس کوچہ اور گلی سے چلے جاتے تو وہ معطر ہو جاتا، اور لوگ پہچان لیتے کہ آپ ادھر سے تشریف لے گئے ہیں، ایک بار آپ ﷺ نے شہد کا استعمال کیا، تو بعض ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے کہا کہ آپ کے منہ سے مغافیر (گوند) کی بو آتی ہے، آپ نے شہد کا استعمال اپنے اوپر حرام کر لیا، غرض آپ اس سے بہت بچتے تھے کہ آپ کے کپڑے یا بدن میں کسی قسم کی بو ہو جو دوسرے کو بری معلوم ہو، اور اسی وجہ سے آپ کچی پیاز یا لہسن نہیں کھاتے تھے، جب نبی اکرم ﷺ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول سے ملنے گئے، جو بڑا دنیا دار اور مال دار تھا، تو وہ کہنے لگا کہ آپ اپنے گدھے کو مجھ سے ذرا دور رکھئیے اس کی بدبو سے مجھے تکلیف ہوتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی! آپ ﷺ کے گدھے کی بو تیرے بدن کی بو سے اچھی ہے، غرض سر سے پاؤں تک آپ لطافت و طہارت اور خوشبو ہی میں ڈوبے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے وفات کے بعد بھی آپ کو پاک و صاف رکھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10115، ومصباح الزجاجة: 522) (صحیح)» (اس کی سند میں یحییٰ بن خذام مجہول ہیں، لیکن متابعت کی وجہ سے سند صحیح ہے)
It was narrated that ‘Ali bin Abu Talib said that when he washed the Messenger of Allah (ﷺ) he looked for what which is usually looked for on the deceased (i.e., dirt), and he found none. He said:
“May my father be sacrificed for you, you are pure; you were pure in life and you are pure in death.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الزھري عنعن في المتصل وصرح بالسماع في المرسل فالسند معلل انوار الصحيفه، صفحه نمبر 430
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1467
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کےلئے دیکھئے: (تخریج المختارۃ، رقم: 452، وسنن ابن ماجہ للدکتور بشار عواد، حدیث: 1467)
(2) غسل دینے سے قبل میت کا پیٹ آہستہ سے ملنا چاہیے۔ اگر کوئی نجاست ظاہر ہو تو اسے دھو دیا جائے۔
(3) اس حدیث میں اسطرف اشارہ ہے کہ عام طور اس پرمیت سے ایسی چیز نظر آ جاتی ہے۔ لیکن رسول اللہﷺ سے ایسی کوئی چیز ظاہر نہیں ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کو غسل دینے والے حضرات یہ تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عباس کے دو صاحبزادے فضل اور قثم رضوان اللہ عليہم اجمعین رسول اللہ ﷺکے آزاد کردہ غلام حضرت شقران رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت اوس بن خولی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت فضل اورحضرت قثم رضوان للہ عليہم اجمعین آپﷺ کی کروٹ بدل رہ تھے۔ حضرت اسامہ اورشقران رضی اللہ تعالیٰ عنہم پانی بہا رہے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غسل دے رہے تھے۔ اور حضرت اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو اپنے سینے سے ٹیک دے رکھی تھی (الرحیق المختوم، ص: 633)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1467