ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی مریض کی عیادت کی تو آسمان سے منادی (آواز لگانے والا) آواز لگاتا ہے: تم اچھے ہو اور تمہارا جانا اچھا رہا، تم نے جنت میں ایک ٹھکانا بنا لیا“۔
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said:
‘Whoever visits a sick person, a caller calls from heaven: ‘May you be happy, may your walking be blessed, and may you occupy a dignified position in Paradise.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (2008) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 428
وضاحت: ۱؎: مردوں سے مراد وہ بیمار ہیں جو مرنے کے بالکل قریب ہوں۔ ۲؎:تلقین سے مراد تذکیر ہے یعنی ان کے پاس پڑھ کر انہیں اس کی یاد دہانی کرائی جائے تاکہ سن کر وہ بھی پڑھنے لگیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو عامر ، حدثنا كثير بن زيد ، عن إسحاق بن عبد الله بن جعفر ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لقنوا موتاكم لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين"، قالوا: يا رسول الله، كيف للاحياء؟، قال:" اجود واجود". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ لِلْأَحْيَاءِ؟، قَالَ:" أَجْوَدُ وَأَجْوَدُ".
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے مردوں (جو لوگ مرنے کے قریب ہوں) کو یہ کہنے کی تلقین کرو: «لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم الحمد لله رب العالمين» کی تلقین کرو“(ترجمہ)”اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، جو حلیم و کریم والا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے جو عرش عظیم کا رب ہے، تمام حمد و ثنا اللہ تعالیٰ کو لائق و زیبا ہے جو سارے جہاں کا رب ہے“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دعا زندوں کے لیے کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت بہتر ہے، بہت بہتر ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5213، ومصباح الزجاجة: 512) (ضعیف)» (اس کی سند میں اسحاق بن عبد اللہ مجہول الحال ہیں، ویسے حدیث کا یہ جملہ «لقنوا موتاكم» صحیح ہے، جیسا کہ اس سے پہلے والی حدیثوں میں گزرا ہے، ملاحظہ ہو: 4317)
It was narrated from Ishaq bin ‘Abdullah bin Ja’far that his father said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Urge your dying ones to say: “La ilaha illallahul-Halimul-Karim, Subhan-Allahi Rabbil-‘Arshil-‘Azim, Al-Hamdu Lillahi Rabbil-‘alamin (None has the right to be worshipped but Allah, the Forbearing, the Most Kind. Glory is to Allah, Lord of the magnificent Throne; praise is to Allah, the Lord of the worlds).’” They said: ‘O Messenger of Allah, what about those who are alive?’ He said: ‘Even better, even better.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسحاق بن عبد اللّٰه بن جعفر: مستور (تقريب: 464) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 428
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعلي بن محمد ، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن ام سلمة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا حضرتم المريض او الميت، فقولوا خيرا، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون"، فلما مات ابو سلمة، اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن ابا سلمة قد مات، قال:" قولي: اللهم اغفر لي وله، واعقبني منه عقبى حسنة"، قالت: ففعلت فاعقبني الله من هو خير منه، محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا حَضَرْتُمَ الْمَرِيضَ أَوِ الْمَيِّتَ، فَقُولُوا خَيْرًا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ"، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سَلَمَةَ قَدْ مَاتَ، قَالَ:" قُولِي: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ، وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبًى حَسَنَةً"، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ فَأَعْقَبَنِي اللَّهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ، مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم بیمار یا میت کے پاس جاؤ، تو اچھی بات کہو، اس لیے کہ فرشتے تمہاری باتوں پہ آمین کہتے ہیں“، چنانچہ جب (میرے شوہر) ابوسلمہ کا انتقال ہوا تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور میں نے کہا: اللہ کے رسول! ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یہ کلمات کہو : «اللهم اغفر لي وله وأعقبني منه عقبى حسنة»”اے اللہ مجھ کو اور ان کو بخش دے، اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما“۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بہتر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے نعم البدل کے طور پر عطا کیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے کہ میں نے اپنے دل میں کہا: ابوسلمہ سے بہتر کون ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو دیا، جو ابوسلمہ سے بہتر تھے، ابوسلمہ کی وفات کے بعد ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے نکاح کر لیا۔
It was narrated that Umm Salamah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘When you visit one who is sick or dying, say good things, for the angels say: Amin to whatever you say.’ When Abu Salamah died, I came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘O Messenger of Allah! Abu Salamah has died.’ He said: ‘Say: “Allahummaghfir li wa lahu, wa a’qibni minhu ‘uqba hasanah (O Allah, forgive me and him, and compensate me with someone better than him).’” She said: ‘I said that, and Allah compensated me with someone better than him: Muhammad the Messenger of Allah (ﷺ).’”
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب ان کے والد کعب رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا، تو ان کے پاس ام بشر بنت براء بن معرور (رضی اللہ عنہما) آئیں، اور کہنے لگیں: اے ابوعبدالرحمٰن! اگر فلاں سے آپ کی ملاقات ہو تو ان کو میرا سلام کہیں، کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ام بشر! اللہ تمہیں بخشے، ہمیں اتنی فرصت کہاں ہو گی کہ ہم لوگوں کا سلام پہنچاتے پھریں، انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے نہیں سنا: ”مومنوں کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوں گی، اور جنت کے درختوں سے کھاتی چرتی ہوں گی“، کعب رضی اللہ عنہ کہا: کیوں نہیں، ضرور سنی ہے، تو انہوں نے کہا: بس یہی مطلب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجہاد 13 (1641)، سنن النسائی/الجنائز 117 (2075)، (تحفة الأشراف: 11148)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز 16 (49)، مسند احمد (3/455، 456، 460، 6/386، 425) (ضعیف)» (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے، جو (4271) نمبر پر آ رہی ہے)
It was narrated from ‘Abdur-Rahman bin Ka’b bin Malik, about Ka’b:
“When Ka’b was dying, Umm Bishr bint Bara’ bin Ma’rur came to him and said: ‘O Abu ‘Abdur-Rahman! If you meet so-and-so, convey Salam to him from me.’ He said: ‘May Allah forgive you, O Umm Bishr! We are too busy to think of that.’ She said: ‘O Abu ‘Abdur-Rahman! Did you not hear the Messenger of Allah (ﷺ) say: “The souls of the believers are in green birds, eating from the trees of Paradise”?’ He said: ‘Yes.’ She said: ‘That is what I mean.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف محمد بن إسحاق مدلس ولم أجد تصريح سماعه والحديث الآتي (الأصل: 4271) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 429
محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کی وفات کے وقت ان کے پاس گیا، تو میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہئے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3095، ومصباح الزجاجة: 513)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/69) (ضعیف)» (شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے، ضعیف الجامع: 275، مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، ملاحظہ ہو: 11660، 19482)
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، عن عطاء ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها، وعندها حميم لها يخنقه الموت، فلما راى النبي صلى الله عليه وسلم ما بها قال لها:" لا تبتئسي على حميمك، فإن ذلك من حسناته". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا، وَعِنْدَهَا حَمِيمٌ لَهَا يَخْنُقُهُ الْمَوْتُ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بِهَا قَالَ لَهَا:" لَا تَبْتَئِسِي عَلَى حَمِيمِكِ، فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ حَسَنَاتِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے، وہاں پر عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک رشتہ دار کا موت سے دم گھٹ رہا تھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا رنج دیکھا تو ان سے فرمایا: ”تم اپنے رشتہ دار پر غم زدہ نہ ہو، کیونکہ یہ اس کی نیکیوں میں سے ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17383، ومصباح الزجاجة: 514) (ضعیف)» (اس کی سند میں ولید بن مسلم ہیں، جو کثیر التدلیس و التسویہ ہیں، گرچہ یہاں پر صیغہ تحدیث کا ہے، لیکن رواة کے اسقاط سے تدلس التسویة کا احتمال باقی ہے کہ درمیان سے کوئی راوی ساقط کر دیا ہو، ملاحظہ ہو: تہذب الکمال: 31/97)
It was narrated from ‘Aishah that the Messenger of Allah (ﷺ) entered upon her and there was a close relative of hers who was in the throes of death. When the Prophet (ﷺ) saw how upset she was, he said:
“Do not grieve for your relative, for that is part of his Hasanat (merits).”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الوليد لم يصرح بالسماع المسلسل انوار الصحيفه، صفحه نمبر 429
وضاحت: ۱؎: یعنی مومن موت کی شدت سے دو چار ہوتا ہے، یا موت اسے اچانک اس حال میں پا لیتی ہے کہ وہ حلال رزق اور فرائض کی ادائیگی کے لیے اس قدر کوشاں رہتا ہے کہ اس کی پیشانی عرق آلود رہتی ہے۔