معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر، اور مغرب و عشاء کی نماز کو غزوہ تبوک کے سفر میں جمع فرمایا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 6 (706)، سنن ابی داود/الصلاة 274 (1206 و 1208)، سنن النسائی/المواقیت 42 (588)، (تحفة الأشراف: 11320)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 277 (553)، موطا امام مالک/ قصر الصلاة 1 (1)، سنن الدارمی/الصلاة 182 (1556) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «جمع بین الصلاتین» کی دو قسمیں ہیں: ایک صوری، دوسری حقیقی، پہلی نماز کو آخر وقت میں اور دوسری نماز کو اوّل وقت میں پڑھنے کو جمع صوری کہتے ہیں، اور ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت میں جمع کر کے پڑھنے کو جمع حقیقی کہتے ہیں، اس کی دو صورتیں ہیں ایک جمع تقدیم، دوسری جمع تاخیر، جمع تقدیم یہ ہے کہ ظہر کے وقت میں عصر اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھی جائے، اور جمع تاخیر یہ ہے کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب پڑھی جائے، یہ دونوں جمع رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمع سے مراد جمع صوری ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ جمع سے مراد جمع حقیقی ہے کیوں کہ جمع کی مشروعیت آسانی کے لیے ہوئی ہے اور جمع صوری کی صورت میں تو اور زیادہ پریشانی اور زحمت ہے کیوں کہ تعیین کے ساتھ اول اور آخر وقت کا معلوم کرنا بہت دشوار امر ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ «جمع بین الصلاتین» کی رخصت عرفہ اور مزدلفہ کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے تبوک میں بھی دو نمازوں کو ایک ساتھ جمع کیا ہے، واضح رہے کہ «جمع بین الصلاتین» کے لئے سفر کا تسلسل شرط نہیں، سفر کے دوران قیام کی حالت میں بھی «جمع بین الصلاتین» جائز ہے۔
It was narrated from Mu’adh bin Jabal that the Prophet (ﷺ) combined the Zuhr and ‘Asr, and the Maghrib and ‘Isha’ when traveling during the campaign of Tabuk.
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن خلاد الباهلي ، حدثنا ابو عامر ، عن عيسى بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ، حدثني ابي ، قال: كنا مع ابن عمر في سفر فصلى بنا، ثم انصرفنا معه وانصرف، قال: فالتفت، فراى اناسا يصلون، فقال: ما يصنع هؤلاء؟ قلت: يسبحون، قال: لو كنت مسبحا لاتممت صلاتي يا ابن اخي، إني صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم" فلم يزد على ركعتين في السفر حتى قبضه الله، ثم صحبت ابا بكر فلم يزد على ركعتين، ثم صحبت عمر فلم يزد على ركعتين، ثم صحبت عثمان فلم يزد على ركعتين، حتى قبضهم الله، والله يقول: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: كُنَّا مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَصَلَّى بِنَا، ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَهُ وَانْصَرَفَ، قَالَ: فَالْتَفَتَ، فَرَأَى أُنَاسًا يُصَلُّونَ، فَقَالَ: مَا يَصْنَعُ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ، قَالَ: لَوْ كُنْتُ مُسَبِّحًا لَأَتْمَمْتُ صَلَاتِي يَا ابْنَ أَخِي، إِنِّي صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ فِي السَّفَرِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ، ثُمَّ صَحِبْتُ أَبَا بَكْرٍ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَحِبْتُ عُمَرَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَحِبْتُ عُثْمَانَ فَلَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، حَتَّى قَبَضَهُمُ اللَّهُ، وَاللَّهُ يَقُولُ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21".
حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ ہم ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک سفر میں تھے، انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہم ان کے ساتھ لوٹے، انہوں نے مڑ کر دیکھا تو کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے، پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: سنت پڑھ رہے ہیں، انہوں نے کہا: اگر مجھے نفلی نماز (سنت) پڑھنی ہوتی تو میں پوری نماز پڑھتا، میرے بھتیجے! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا، انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا، تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھی، اور پوری زندگی ان سب لوگوں کا یہی عمل رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو وفات دے دی، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة»”تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے“(سورۃ الاحزاب: ۲۱)۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 11 (1101)، صحیح مسلم/المسافرین 1 (689)، سنن ابی داود/الصلاة 276 (1223)، سنن النسائی/تقصیر الصلاة 5 (1459)، (تحفة الأشراف: 6693)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/224)، سنن الدارمی/الصلاة 179 (1547) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تو نماز ایسی عبادت میں بھی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سنت سے زیادہ پڑھنا مناسب نہ جانا، یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کمال اتباع ہے، اور وہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں بہت سخت تھے، یہاں تک کہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان مقامات پر ٹھہرتے جہاں نبی اکرم ﷺ ٹھہرتے تھے، اور وہیں نماز ادا کرتے جہاں آپ ﷺ نماز پڑھتے تھے۔ سفر میں نماز کی سنتوں کے پڑھنے کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اکثر کا یہ قول ہے کہ اگر پڑھے گا تو ثواب ہو گا، اور خود ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ترمذی کی روایت میں ظہر کی سنتیں پڑھنا منقول ہے، اور بعض علماء کا یہ قول ہے کہ سفر میں صرف فرض ادا کرے، سنتیں نہ پڑھے، ہاں عام نوافل پڑھنا جائز ہے، نبی کریم ﷺ اپنے اسفار مبارکہ میں فرض نماز سے پہلے یا بعد کی سنتوں کو نہیں پڑھتے تھے، سوائے فجر کی سنت اور وتر کے کہ ان دونوں کو سفر یا حضر کہیں نہیں چھوڑتے تھے، نیز عام نوافل کا پڑھنا آپ سے سفر میں ثابت ہے۔
It was narrated from ‘Isa bin Hafs bin ‘Asim bin ‘Umar bin Khattab that his father told him:
“We were with Ibn ‘Umar on a journey, and he led us in prayer. Then we finished with him and he finished turning around, and saw some people praying. He said: ‘What are these people doing?’ I said: ‘Glorifying Allah.’* He said: ‘If I wanted to glorify Allah (perform voluntary prayer) I would have completed my prayer. O son of my brother! I accompanied the Messenger of Allah (ﷺ) and he never prayed more than two Rak’ah when he was traveling, until Allah took his soul. Then I accompanied Abu Bakr and he never prayed more than two Rak’ah (when he was traveling), until Allah took his soul. Then I accompanied ‘Umar and he never prayed more than two Rak’ah, until Allah took his soul. Then I accompanied ‘Uthman and he never prayed more than two Rak’ah, until Allah took his soul. Allah says: ‘Indeed in the Messenger of Allah (Muhammad (ﷺ)) you have a good example to follow.’” [33:21]
اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے سفر میں نفل پڑھنے کے بارے سوال کیا، اور اس وقت ان کے پاس حسن بن مسلم بھی بیٹھے ہوئے تھے، تو حسن نے کہا: طاؤس نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر اور سفر دونوں کی نماز فرض کی، تو ہم حضر میں فرض سے پہلے اور اس کے بعد سنتیں پڑھتے، اور سفر میں بھی پہلے اور بعد نماز پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5696، ومصباح الزجاجة: 380)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/232) (منکر)» (اسامہ بن زید میں کچھ ضعف ہے، اور یہ حدیث سابقہ حدیث اور خود ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث سے معارض ہے، نیز سنن نسائی میں ابن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ سفر میں دو رکعت سے زیادہ (فرض) نہیں پڑھتے تھے، اور نہ اس فریضہ سے پہلے اور نہ اس کے بعد (نوافل) پڑھتے تھے، (1459)، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 2/605)
Usamah bin Zaid said:
“I asked Tawus about performing voluntary prayer while traveling. Al-Hasan bin Muslim bin Yannaq was sitting with him and he said: ‘Tawus told me that he heard Ibn ‘Abbas say: “The Messenger of Allah (ﷺ) enjoined prayer while a resident and prayer when one is traveling. We used to pray when we were residents both before and after (the obligatory prayer), and we used to pray both before and after (the obligatory prayer) when we were traveling.’”
عبدالرحمٰن بن حمید زہری کہتے ہیں کہ میں نے سائب بن یزید سے پوچھا کہ آپ نے مکہ کی سکونت کے متعلق کیا سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجرین کو منٰی سے لوٹنے کے بعد تین دن تک مکہ میں رہنے کی اجازت ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: مہاجر وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تھی، آپ ﷺ نے مہاجرین کو تین دن سے زیادہ مکہ میں رہنے کی اجازت نہ دی، اس حدیث کا تعلق ترجمہ باب سے معلوم نہیں ہوتا مگر یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب مہاجرین کو جو کہ مکہ میں مسافر تھے نبی اکرم ﷺ نے تین دن رہنے کی اجازت دی، تو معلوم ہوا کہ تین دن کی اقامت سے سفر کا حکم باطل نہیں ہوتا، پس اگر کوئی مسافر کسی شہر میں تین دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو قصر کرے، اور اس مسئلہ میں علماء کا بہت اختلاف ہے لیکن اہل حدیث نے اس کو اختیار کیا ہے کہ اگر تردد و شک کے ساتھ مسافر کو کہیں ٹھہرنے کا اتفاق ہو تو بیس دن تک قصر کرتا رہے، اس کے بعد پوری نماز ادا کرے، کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تبوک میں بیس راتوں تک کی اقامت میں قصر کا حکم دیا، اس واسطے کہ قصر حالت سفر میں مشروع تھا، اور جب اقامت کی تو سفر نہ رہا، اور اگر یقین کے ساتھ مسافر کہیں ٹھہرنے کا ارادہ کرے، تو اگر چار دن یا زیادہ کی اقامت کی نیت کرے، تو چار دن کے بعد نماز پوری پڑھے، اور جو چار دن سے کم رہنے کی نیت کرے تو قصر کرے، یہ حنبلی مذہب کا مشہور مسئلہ ہے، اور دلیل اس کی یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ذوالحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو مکہ میں تشریف لائے، اور ساتویں دن تک قیام فرمایا، اور آٹھویں تاریخ کی صبح کو نماز فجر پڑھ کر منیٰ تشریف لے گئے، اور چار دنوں میں مکہ میں قصر کرتے رہے، جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں انیس دن تک نماز قصر ادا کی (صحیح البخاری)، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت کی حد چار دن نہیں ہے، سنن ابی داود (۱۲۳۵) میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تبوک میں بیس دن تک اقامت رہی، اور قصر پڑھتے رہے، مختلف احادیث میں مختلف مدتوں کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئی تعارض کی بات ہے، رواۃ نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق بیان کیا، راجح قول یہی ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی نیت نہ کر ے نماز کو قصر کرے اور جمع بھی، جب تک کہ اقامت کی نیت نہ کر ے اور سفر کو ختم نہ کر دے، شیخ الإسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے قصر و افطار اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اقامت اور سکونت نہ اختیار کر لے، اور چند دن کی اقامت کی نیت سے مقیم اور مسافر کے درمیان فرق و تمیز شرع اور عرف میں غیر معروف چیز ہے۔
It was narrated that ‘Abdur-Rahman bin Humaid Az-Zuhri said:
“I asked Sa’ib bin Yazid: ‘What have you heard about staying in Makkah?’ He said: ‘I heard ‘Ala’ bin Hadrami say: “The Prophet (ﷺ) said: ‘Three (days) for the Muhajir after departing (from Mina).’”*
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔
‘Ata’ narrated:
“Jabir bin ‘Abdullah, who was among the people with me, told me that the Prophet (ﷺ) arrived in Makkah in the morning of the fourth day of Dhul-Hijjah.”
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں انیس (۱۹) دن رہے، اور دو دو رکعت پڑھتے رہے، لہٰذا ہم بھی جب انیس (۱۹) دن قیام کرتے ہیں تو دو دو رکعت پڑھتے ہیں، اور جب اس سے زیادہ قیام کرتے ہیں تو چار رکعت پڑھتے ہیں ۱؎۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) stayed for nineteen days in which he shortened his prayer to two Rak’ah. So, whenever we stayed for nineteen days we would shorten our prayer to two Rak’ah, but if we stayed more than that we would pray four Rak’ah.”
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال مکہ میں پندرہ دن قیام کیا، اور نماز قصر کرتے رہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 279 (1231)، (تحفة الأشراف: 5849)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/تقصیر الصلاة 4 (1454) (ضعیف)» (اس حدیث کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 3/26، 27)
It was narrated from Ibn ‘Abbas that the Messenger of Allah (ﷺ) stayed in Makkah for fifteen nights during the year of the Conquest, (during which time) he shortened his prayer.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے اور واپسی تک دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔ یحییٰ کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کتنے دنوں تک مکہ میں رہے؟ کہا: دس دن تک۔
Yahya bin Abu Ishaq narrated that Anas said:
“We went out with the Messenger of Allah (ﷺ) from Al-Madinah to Makkah, during which time we shortened our prayer to two Rak’ah, until we came back.” I asked: “How long did he stay in Makkah?” He said: “Ten (days).”
وضاحت: ۱؎: یعنی کفر اور بندے میں نماز ہی حد فاصل اور حائل ہے، جہاں نماز چھوڑی یہ حد فاصل اٹھ گئی اور آدمی کافر ہو گیا، یہی امام احمد اور اصحاب حدیث کا مذہب ہے اور حماد بن زید، مکحول، مالک اور شافعی نے کہا کہ تارک نماز کا حکم مثل مرتد کے ہے، یعنی اگر توبہ نہ کرے تو وہ واجب القتل ہے، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک تارک نماز کافر نہ ہو گا، لیکن کفر کے قریب ہو جائے گا، حالانکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ”نماز کا ترک کفر ہے“، اور ایسا ہی منقول ہے عمر اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے، جمہور علماء اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز کے چھوڑ دینے کو حلال سمجھے، وہ شخص جو محض سستی کی وجہ سے اسے چھوڑ دے وہ کافر نہیں ہوتا، لیکن بعض محققین کے نزدیک نماز کی فرضیت کے عدم انکار کے باوجود عملاً و قصداً نماز چھوڑ دینے والا بھی کافر ہے، دیکھئے اس موضوع پر عظیم کتاب «تعظيم قدر الصلاة» تالیف امام محمد بن نصر مروزی، بتحقیق ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی، اور ”تارک صلاۃ کا حکم“ تالیف شیخ محمد بن عثیمین، ترجمہ ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی۔
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے اور منافقوں کے درمیان نماز معاہدہ ہے ۱؎، جس نے نماز ترک کر دی اس نے کفر کیا“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإیمان 9 (2621)، سنن النسائی/الصلاة 8 (464)، (تحفة الأشراف: 1960)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/346) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں گے، ہم ان پر اسلام کے احکام جاری رکھیں گے۔
‘Abdullah bin Buraidah narrated that his father said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The covenant that distinguishes between us and them is prayer; so whoever leaves it, he has committed Kufr.’”