Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
76. بَابُ : كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاَةَ الْمُسَافِرُ إِذَا أَقَامَ بِبَلْدَةٍ
باب: جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 1074
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، وَقَرَأْتُهُ عَلَيْهِ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، فِي أُنَاسٍ مَعِي، قَالَ:" قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ شَهْرِ ذِي الْحِجَّةِ".
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الشرکة 15 (2505) التمنی 3 (7229)، سنن النسائی/الحج 108 (2875)، (تحفة الأشراف: 2448)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحج 18 (1216)، سنن ابی داود/الحج 23 (1788)، مسند احمد (3/305، 317) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1074 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1074  
اردو حاشہ:
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ تشریف فرما ہوئے۔
اور یہاں سے یوم الترویہ (8 ذوالحجہ)
کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔
اس میں یہ ارشاد ہے کہ چاردن ٹھرنے کی صورت میں بھی دوگانہ ادا کیاجا سکتا ہے۔
الغرض قصر نماز کےلئے دنوں کے تعین میں یہ روایت پہلی روایت سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہے۔
واللہ أعلم تاہم دونوں ہی موقف صحیح ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1789  
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1789]
1789. اردو حاشیہ:
➊ صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے۔
➋ اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1789   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2713  
´محرم کے لیے رنگین کپڑے پہننے کی کراہت کا بیان۔`
محمد الباقر کہتے ہیں کہ ہم جابر (جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما) کے پاس آئے، اور ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے پہلے معلوم ہو گیا ہوتا جو اب معلوم ہوا تو میں ہدی (کا جانور) لے کر نہ آتا اور اسے عمرہ میں تبدیل کر دیتا (اور طواف و سعی کر کے احرام کھول دیتا) تو جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے، اور اسے عمرہ قرار دے لے (اسی موق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2713]
اردو حاشہ:
(1) اگر مجھے پہلے پتا چل جاتا۔ روایت کا ابتدائی حصہ حذف ہے۔ دراصل حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حج ہی کا احرام باندھا تھا، مگر پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آگیا کہ حج کے دنوں میں عمرہ بھی کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ آپ نے اعلان عام فرمایا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حج کے لیے بعد میں نیا احرام باندھیں۔ قربانی کے جانور ساتھ لانے والے چونکہ قربانی ذبح ہونے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ عمرہ تو کریں مگر حج کا احرام قائم رکھیں اور قربانی ذبح ہونے کے بعد حلال ہوں۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا آپ عمرہ کر کے حلال نہ ہوئے۔ دوسرے لوگوں کے لیے جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں، عمرے کے بعد حلال ہونا بڑا شاق تھا کیونکہ ان کی اصل نیت حج کی تھی۔ حج کے دن بھی قریب تھے۔ صرف تین دن کا فاصلہ تھا، لہٰذا انھیں درمیان میں حلال ہونا پسند نہ تھا۔ اسی لیے آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
(2) جو بعد میں پتا چلا۔ یعنی عمرے کا حکم۔
(3) حضرت فاطمہؓ کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے، لہٰذا وہ عمرہ کر کے حلال ہوگئیں۔ انھوں نے رنگ دار کپڑے پہنے اور سرمہ لگایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چونکہ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ حلال نہ ہوئے، اس لیے انھیں اشکال پیدا ہوا۔
(4) امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے درست ہوتے یا سرمہ لگانا جائز ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اعتراض کیوں کرتے؟ معلوم ہوا احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے یا سرمہ جائز نہیں، البتہ رنگ دار کپڑوں سے مراد وہ ہیں جنھیں بعد میں رنگا گیا ہو یا زعفران وغیرہ سے رنگے ہوں، ورنہ پہلے سے رنگ والے کپڑے عورت احرام میں استعمال کر سکتی ہے۔ ان کپڑوں کی کراہت کی وجہ زینت یا خوشبو ہے۔
(5) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی دینی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کلمہ لَوْ کہنا جائز ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں جو ممانعت وارد ہے وہ دنیاوی امور کے متعلق ہے۔
(6) اپنے اہل خانہ اور بال بچوں کی خوب نگرانی کرنی چاہیے اور خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی خلاف شرع کام کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔
(7) اگر ممکن ہو تو قربانی کے جانور دور دراز علاقے سے لائے جا سکتے ہیں۔ یہ مشروع ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2713   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2744  
´دوسرے کی نیت پر نیت کر کے محرم حج کا تلبیہ پکارے۔`
جعفر بن محمد باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ یمن سے ہدی لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے ہدی لے کر گئے۔ آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے یوں کہا ہے: اے اللہ! میں اسی چیز کا تلبیہ پکارتا ہوں جس کا تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2744]
اردو حاشہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ ان کے ذبح کرنے سے پیشتر حلال نہ ہو سکتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا احرام بھی مبہم اور رسول اللہﷺ کے احرام کے ساتھ معلق تھا، یعنی احرام میں جو نیت رسول اللہﷺ کی تھی وہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بھی تھی۔ اس میں حج یا عمرے کی تعیین نہیں تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2744   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2807  
´جو شخص ہدی ساتھ نہ لے جائے وہ حج عمرہ میں تبدیل کر کے احرام کھول سکتا ہے۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے خالص حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ اور کسی چیز کی نیت نہ تھی۔ تو ہم ۴ ذی الحجہ کی صبح کو مکہ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا احرام کھول ڈالو اور اسے (حج کے بجائے) عمرہ بنا لو، تو آپ کو ہمارے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2807]
اردو حاشہ:
(1) کسی اور چیز کی نیت نہیں تھی۔ شروع میں ایسا ہی تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ بعض نے عمرے کا احرام باندھا تھا، پھر مکہ مکرمہ کے قریب جا کر عمرے کے لزوم کا حکم اترا تو وہاں سب نے حج کے ساتھ عمرہ بھی داخل کر لیا، پھر قربانیوں والے محرم رہے، دوسرے عمرہ کر کے حلال ہوگئے۔ حج کا احرام الگ باندھا۔ یہ توجیہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح تمام احادیث اپنے معنی پر رہتی ہیں۔
(2) منی بہا رہے ہوں گے۔ یہ بطور مبالغہ کہا کہ حج سے اس قدر قریب جماع کرنا مناسب نہیں۔ یہ تقبیح کے لیے الفاظ ذکر کر دیے ورنہ انھیں کوئی بیماری تو نہیں تھی کہ ایسے ہوتا۔ اور حج کو تو احرام باندھ کر جانا تھا۔
(3) تم سے بڑھ کر نیک یعنی جس کام کا میں حکم دوں، جو کام میں کروں، اس سے پرہیز کرنا حماقت ہے۔ اگر وہ کام قبیح ہوتا تو میں حکم ہی نہ دیتا۔
(4) جس کا بعد میں پتا چلا کہ عمرہ کرنا لازم ہو جائے گا۔
(5) ہمیشہ کے لیے یعنی تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2807   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2875  
´رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے وقت کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار ذی الحجہ کی صبح کو مکہ آئے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2875]
اردو حاشہ:
اس باب کی احادیث حجۃ الوداع سے متعلق ہیں جبکہ سابقہ باب کی احادیث کا تعلق فتح مکہ سے تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2875   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2997  
´تمتع کرنے والا حج کا احرام کب باندھے؟`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مکہ) آئے تو ذی الحجہ کی چار تاریخیں گزر چکی تھیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احرام کھول ڈالو اور اسے عمرہ بنا لو، اس سے ہمارے سینے تنگ ہو گئے، اور ہمیں یہ بات شاق گزری۔ اس کی خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: لوگو! حلال ہو جاؤ (احرام کھول دو) اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو تم لوگ کر رہے ہو، تو ہم نے احرام کھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2997]
اردو حاشہ:
تمتع کرنے والا یوم ترویہ، یعنی آٹھ ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے احرام باندھے گا اور منیٰ کو روانہ ہو جائے گا۔ آٹھ تاریخ کو یوم ترویہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس دن لوگ منیٰ کو جاتے وقت اپنے اونٹوں کو خوب پانی پلا لیتے تھے تاکہ آئندہ پانچ دنوں میں اونٹوں کو پانی پلانے کی ضرورت نہ رہے۔ عربی زبان میں پانی پلا کر سیر کرنے کو ترویہ کہتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2997   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1325  
1325- سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: لوگوں میں اعلان کردیا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سال حج کے لیے تشریف لے جارہے ہیں، تو مدینہ منورہ لوگوں سے بھر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے مخصو ص موقع پر روانہ ہوئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیداء کے مقام پر پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے تلبیہ پڑھنا شروع کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں نے بھی تلبیہ پڑھنا شروع کیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1325]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حج کا احرام باندھتے وقت حج کی نیت کرنی چاہیے۔
شیخ عمرو بن عبد المنعم ﷾ لکھتے ہیں کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حج اور عمرے کی لبیک کہنا ہی زبانی نیت کا جواز ہے، حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ہے، نیت تو صرف ارادے کو کہتے ہیں، جیسا کہ گزر چکا ہے، بلند آواز سے لبیک کہا جاتا ہے، وہ نماز کے تکبیر تحریمہ کے قائم مقام ہے، اور کوئی عقل مند آدمی تکبیر کو نماز کی نیت نہیں کہتا، اور وضو پر بسم اللہ کو وضو کی نیت نہیں کہتا۔
امام ابن رجب نے کہا ہے کہ ان مسائل میں ہمیں نہ سلف صالحین سے کوئی ثبوت ملا ہے، اور نہ کسی امام سے۔
پھر مزید کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحيح ثابت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو احرام باندھتے وقت یہ کہتے سنا کہ اے اللہ! میں حج اور عمرے کا ارادہ کرتا ہوں، تو انہوں نے کہا: کیا تو لوگوں کو بتا رہا ہے؟ کیا تیرے دل میں جو ہے، اس سے اللہ تعالیٰ باخبر نہیں ہیں۔ [جامع العلوم والحكم ص: 40]
یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ حج اور عمرے میں لفظی نیت جائز نہیں ہے، جو اسے ضروری سمجھتے ہیں اور خواہ مخواہ اس پر زور دیتے ہیں تو انہوں نے اپنی بدعت ایجاد کی ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ (عبادات میں بدعات ہیں: 214)
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1323   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1330  
1330- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم ذوالحجہ کی چار تاریخ کی صبح مکہ آگئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے بعد میں جس چیز کا خیال آیا وہ پہلے آجاتا، تو میں وہ طرز عمل اختیار نہ کرتا، جو میں نے اختیار کیا ہے۔‏‏‏‏ راوی بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ احرام کھول دیں لوگوں نے عرض کی: کس حد تک؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل طور پر احرام کھول دو۔ عمرہ قیامت تک کے لیے حج میں داخل ہوگیا ہے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1330]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی عذر کی وجہ سے حج کی نیت تبدیل کی جا سکتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امور غیب نہیں جانتے تھے، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے، الحل كل الحل سے مراد ہے کہ تم پر تمھاری بیویاں بھی حلال ہوگئی ہیں، احرام کی وجہ سے جو چیزیں تم پر حرام تھیں، وہ تمام کی تمام حلال ہوگئی ہیں، عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے سے مراد حج تمتع اور حج قرآن ہے، کیونکہ ان دونوں صورتوں میں حج کے ساتھ عمرہ بھی ادا کیا جا تا ہے، اور حج افراد میں صرف حج ہوتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1328   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2937  
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج مفرد کا احرام باندھ کر چلے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمرہ کا احرام باندھ کر چلیں، حتی کہ جب ہم سرف مقام پر پہنچ گئے، انہیں حیض آنا شروع ہو گیا، حتی کہ جب ہم مکہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ احرام کھول دے تو ہم نے پوچھا، حلال ہونے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2937]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہےکہ جو لوگ مکہ مکرمہ پہنچ کر،
عمرہ کا طواف کر کے احرام کھول دیں وہ مکمل طور پر حلال ہو جاتے ہیں اور ان پر احرام کی کوئی پابندی برقرار نہیں رہتی حتی کہ ان کے لیے جنسی تعلقات قائم کرنا بھی جائز ہو جاتا ہے اور وہ حج کے لیےنئے سرے سے احرام آٹھ ذوالحجہ کو باندھیں گے اور اس کے لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ وہ آٹھ تاریخ کو غسل کر کے احرام باندھیں،
اگر عورت حائضہ ہو تو وہ بھی غسل کر لے نیز اس حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عمرہ پر حج کا احرام باندھا تھا عمرہ کوترک نہیں کیا تھا اس لیے آپ کا حج،
حج قِران تھا حج مفرد نہ تھا،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سےحلال ہو گئی ہو۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تنعیم سے جو عمرہ کیا وہ محض دل کے کھٹک اور خلجان کو دور کرنے کے لیے تھا عمرہ ترک نہیں کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قضائی دی ہو اور اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حج قِران کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2937   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2941  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم حلال ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جب منیٰ کا رخ کریں تو حج کا احرام باندھ لیں، تو ہم نے ابطح سے احرام باندھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2941]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ابطح میں ٹھہرے ہوئے تھے جو محصب کے قریب کنکریلی زمین تھی اس لیے آٹھ ذوالحجہ کو منی کی طرف جاتے وقت وہیں سے احرام باندھا انسان مکہ میں جہاں قیام کیے ہو وہیں سے حج کے لیے احرام باندھ لے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2941   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2943  
حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انہوں نے بتایا کہ ہم نے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے، صرف خالص حج کا احرام باندھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حلال ہونے کا حکم دیا، عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال ہو جاؤ اور اپنی بیویوں سے تعلقات قائم کرو۔ عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2943]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فعل سے معلوم ہوا کہ انسان مبہم نیت سے احرام باندھ سکتا ہے اور بعد میں تعیین کر سکتا ہے مثلاً جیسا کہ احرام میرے ساتھیوں نے باندھا ہے میرا احرام بھی اس کے مطابق ہے اور بعد میں ساتھیوں سے پوچھ کر تعیین کر لے گا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سراقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو جواب دیا ہے،
اس سے معلوم ہوتا ہے حج کو فسخ کر کے عمرہ کی نیت کر لینا ہمیشہ کے لیے جائز ہے اور جمہور کے نزدیک جن میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ داخل ہیں اس کا مطلب یہ ہے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی اجازت ہمیشہ کے لئے ہے صرف اس سال کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کیونکہ جمہور کے نزدیک اب حج کو فسخ کر کے عمرہ کرنا درست نہیں ہے جس نیت سے احرام باندھا تھا اس پر عمل کیا جائے گا لیکن امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام داؤد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر محرم ہدی ساتھ نہیں لایا تو پھر اس کے لیے حج تمتع کرنا لازم ہے اس لیے اس کو حج کا احرام عمرہ کا احرام بنانا پڑے گا حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس پر (زاد المعاد ج2ص: 166تا212)
میں تفصیلی بحث کی ہے بعض حضرات نے اس کا معنی یہ لیا ہے کہ حج قران کی اجازت اس سال کے لیے ہے یا افعال عمرہ کو افعال حج میں داخل کرنا قیامت تک کے لیے ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2943   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2945  
موسیٰ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے احرام باندھ کر ترویہ کے دن سے چار دن پہلے مکہ پہنچا تو لوگوں نے کہا، اب تیرا حج مکی ہو گا (یعنی میقات سے حج کا احرام باندھنے والا ثواب نہیں ملے گا) تو میں عطاء بن ابی رباح کے پاس گیا اور ان سے مسئلہ پوچھا، عطاء نے بتایا، مجھے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا، میں نے اس سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدی ساتھ لے کر گئے تھے، آپ صلی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2945]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عطاء کا مقصد یہ ہے،
اگر حج تمتع میں ثواب کم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کا حج فسخ کروا کر،
انہیں عمرہ کرنے کا حکم کیوں دیتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2945   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1568  
1568. حضرت ابوشہاب سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں عمرے کا احرام باندھے ہوئے آیا۔ میری نیت حج تمتع کرنے کی تھی۔ چنانچہ ہم آٹھ ذوالحجہ سے تین دن پہلے مکہ پہنچے تو مجھے اہل مکہ میں سے چند لوگوں نے کہا کہ تیرا حج تو مکی ہوگا۔ میں حضرت عطاء بن ابی رباح کے پاس آیا تاکہ ان سے مسئلہ دریافت کروں۔ انھوں نے کہا: مجھے جابر بن عبداللہ ؓ نے خبر دی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے۔ دیگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے احرام کھول دو اور بال کٹوا دو پھر اسی طرح احرام کے بغیر ٹھہرے رہو۔ جب آٹھویں تاریخ ہوتو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھ لو اور جس احرام میں تم آئے تھے اسے تمتع بنالو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: ہم اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1568]
حدیث حاشیہ:
مکی حج سے یہ مراد ہے کہ مکہ والے جو مکہ ہی سے حج کرتے ہیں ان کو چونکہ تکلیف اور محنت کم ہوتی ہے لہٰذا ثواب بھی زیادہ نہیں ملتا۔
ان لوگوں کی غرض یہ تھی کہ جب تمتع کیا اور حج کا احرام مکہ سے باندھا، تو اب حج کا ثواب اتنا نہ ملے گا جتنا حج مفرد میں ملتا جس کا احرام باہر سے باندھا ہوتا۔
جابر ؓ نے یہ حدیث بیان کرکے مکہ والوں کا رد کیا اور ابو شہاب کا شبہ دور کردیا کہ تمتع میں ثواب کم ملے گا۔
تمتع تو سب قسموں میں افضل ہے اور اس میں افراد اور قران دونوں سے زیادہ ثواب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1568   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1557  
1557. حضرت عطاء ؒ سے روایت ہے کہ حضرت جابر ؓ نے کہا: نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں۔ اور انھوں نے سراقہ بن مالک ؓ کاقول بھی ذکر کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1557]
حدیث حاشیہ:
(1)
حج کے سلسلے میں مبہم نیت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ تاکہ جواز کی صورت میں پیش آمدہ حالات و ظروف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں تبدیلی کی جا سکے۔
امام بخارى ؒ کا رجحان اس طرف ہے کہ اس کا جواز صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تھا جیسا کہ ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔
(2)
اس کے متعلق امام بخاری ؒ نے حضرت جابر ؓ کی روایت انتہائی اختصار سے پیش کی ہے۔
ایک دوسری روایت میں تفصیل ہے:
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے حج کا احرام باندھا، لیکن رسول اللہ ﷺ اور حضرت طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے پاس قربانی کا جانور نہیں تھا، حضرت علی ؓ یمن سے آئے تو وہ اپنی قربانی کے جانور ساتھ لے کر آئے تھے اور ان کا احرام رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچ کر فرمایا:
جو شخص اپنے ساتھ قربانی نہیں لایا وہ اس احرام کو عمرے میں بدل لے۔
طواف اور سعی کر کے حلال ہو جائے۔
اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتا۔
(صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 1785)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا:
وہ اپنے احرام کو جوں کا توں رکھے اور اسے قربانیوں میں شریک کر لیا۔
(صحیح البخاري، الشرکة، حدیث: 2506) (3)
اس حدیث میں اجمالی طور پر حضرت سراقہ ؓ کا ذکر بھی ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس نے عرض کی:
اے اللہ کے رسول! احرام حج کو ختم کر کے عمرے میں بدل لینا پھر طواف اور سعی کر کے حلال ہو جانا صرف آپ کے (زمانہ مبارک کے)
ساتھ خاص ہے (یا آئندہ کے لیے بھی ایسا ہو سکتا ہے؟)
آپ ﷺ نے فرمایا:
نہیں! بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے، یعنی عمرے کو حج میں داخل کر دیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، العمرة، حدیث: 1785)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1557   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1568  
1568. حضرت ابوشہاب سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں عمرے کا احرام باندھے ہوئے آیا۔ میری نیت حج تمتع کرنے کی تھی۔ چنانچہ ہم آٹھ ذوالحجہ سے تین دن پہلے مکہ پہنچے تو مجھے اہل مکہ میں سے چند لوگوں نے کہا کہ تیرا حج تو مکی ہوگا۔ میں حضرت عطاء بن ابی رباح کے پاس آیا تاکہ ان سے مسئلہ دریافت کروں۔ انھوں نے کہا: مجھے جابر بن عبداللہ ؓ نے خبر دی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے۔ دیگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے احرام کھول دو اور بال کٹوا دو پھر اسی طرح احرام کے بغیر ٹھہرے رہو۔ جب آٹھویں تاریخ ہوتو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھ لو اور جس احرام میں تم آئے تھے اسے تمتع بنالو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: ہم اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1568]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکی حج کا مطلب یہ ہے کہ اہل مکہ جو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھتے ہیں اس میں تکلیف اور محنت کم ہوتی ہے، لہذا ثواب بھی زیادہ نہیں ملے گا کیونکہ حج کا ثواب تو بقدر مشقت ہوتا ہے۔
ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ جب حج تمتع کیا اور عمرہ کر کے احرام کھول دیا تو حج کا احرام مکہ سے باندھنا ہو گا، اس طرح حج کا ثواب اتنا نہیں ملے گا جتنا حج مفرد میں ملتا ہے جس کا احرام باہر سے باندھا جاتا ہے۔
عطاء ؒ نے حضرت جابر ؓ کی حدیث بیان کر کے اہل مکہ کا رد کیا جو ابو شہاب کو بلا فیس مشورے دے رہے تھے۔
اس طرح ابو شہاب کا شبہ دور ہو گیا کہ حج تمتع کرنے سے ثواب کم ملتا ہے۔
تمتع تو تمام اقسام حج سے افضل ہے اور اس میں افراد اور قران دونوں سے زیادہ ثواب ملتا ہے، نیز جو شخص حج سے چند دن پہلے عمرہ کرے اسے قصر کرنا (بال کٹوانا)
چاہیے تاکہ دسویں تاریخ تک بال حلق (مونڈنے)
کے قابل ہو جائیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں وضاحت کی ہے کہ حضرت عطاء بن ابی رباح کے واسطے سے ابو شہاب کی صرف یہی ایک روایت متصل سند سے مروی ہے، تاہم دوسرے طرق سے اس کی متعدد روایات کتب حدیث میں مروی ہیں۔
(فتح الباري: 544/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1568   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1570  
1570. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ آئے تو ہم نے حج کاتعین کرکے اس طرح تلبیہ کہا: میں حاضر ہوں۔ اے اللہ!میں حج کی نیت سے حاضر ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا تو ہم نے اسے عمرہ بنالیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1570]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب آدمی ادائے مناسک کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہو تو احرام باندھتے وقت حج یا عمرے کا تعین کرنا چاہیے، پھر حج کی نیت ہو تو اس بات کا بھی اظہار ہونا چاہیے کہ کون سا حج کرنا ہے:
حج افراد، تمتع یا قران۔
مبہم احرام جائز نہیں۔
(2)
حج کے احرام کو عمرے میں بدلنا بھی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے لیکن جمہور کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہے۔
ایسا کرنا اس وقت تھا جب احکام پوری طرح واضح نہ تھے۔
اب جبکہ دین اسلام کی تکمیل ہو چکی ہے تو بامر مجبوری ہی ایسا کیا جا سکتا ہے لیکن عام حالات میں حج کے احرام کو عمرے میں تبدیل کرنا صحیح نہیں، البتہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف ہے کہ یہ حدیث محکم ہے اور اب بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔
امام احمد ؒ نے اسی موقف کی تائید کی ہے۔
(فتح الباري: 544/3)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1570   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1651  
1651. حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حج کا احرام باندھا لیکن نبی کریم ﷺ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کسی کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا۔ حضرت على رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے تشریف لائے تو ان کے پاس قربانی موجود تھی۔ انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کے احرام جیسی نیت کی، چنانچہ جب نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ احرام حج کو عمرے سے بدل لیں۔ پھر بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد سروں کے بال چھوٹے کرا لیں اور احرام کھول دیں مگر جس کے پاس قربانی کا جانور ہے وہ احرام نہ کھولے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے آپس میں گفتگو کی کہ ہم منیٰ کی طرف اس حالت میں جائیں گے کہ ہمارے اعضائے تناسل منی ٹپکار ہے ہوں گے؟ جب نبی کریم ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1651]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے آخر میں ہے:
پھر ایسا ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کو حیض آ گیا۔
انہوں نے بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام مناسک حج پورے کیے اور مخصوص ایام سے فراغت کے بعد (غسل کر کے)
بیت اللہ کا طواف کیا۔
(2)
حدیث کی عنوان سے مناسبت یوں واضح ہوتی ہے کہ جنبی اور بے وضو انسان بھی حائضہ کے حکم میں ہے، یعنی یہ حضرات بھی طہارت اور وضو کے بغیر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتے جیسا کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے، البتہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ شعبہ نے حضرت حکم، حماد، منصور اور سلیمان سے ایسے آدمی کے متعلق سوال کیا جو وضو کے بغیر بیت اللہ کا طواف کرتا ہے تو انہوں نے فرمایا:
کوئی حرج نہیں۔
لیکن احادیث کی روشنی میں ان حضرات کا یہ موقف محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 638/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1651   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7230  
7230. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے اور ہم نے حج کے لیے احرام باندھا اور تلبیہ کہا۔ جب ہم چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے تو نبی ﷺ نے ہمیں بیت اللہ کے طواف اور ٖٖصفا مروہ کی سعی کا حکم دیا، نیز یہ (بھی فرمایا) کہ ہم حج کو عمرہ بنالیں اور اس کے بعد احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے پاس قربانی ہے۔ نبی ﷺ اور سیدنا طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے پاس قربانی کا جانور نہیں تھا۔ سیدنا علی ؓ یمن سے آئے تھے اور ان کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے۔ انہوں نے احرام باندھتے وقت یہ کہا تھا: میرا احرام وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا ہم منیٰ کی طرف اس حالت میں جائیں گے کہ ہم سے منی ٹپک رہی ہوگی؟ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے اگر پہلے معلوم ہوجاتی تو میں اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا اور اگر میرے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7230]
حدیث حاشیہ:

دور جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ وہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرے کو بہت بڑا گناہ خیال کرتے تھے، اسی اصول کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے مدینہ طیبہ سے حج کا احرام باندھا۔
جب یہ لوگ مکہ مکرمہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیں اور عمرہ کرکے احرام کھول دیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس نئے حکم پر عمل کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگرمجھے پہلے معلوم ہوجاتا جو اب معلوم ہوا ہے تو اپنی قربانی ساتھ نہ لاتا اور تمہارے ساتھ عمرہ کرکے احرام کھول دیتا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اس خواہش کے اظہار سے اللہ کے فیصلے پر کوئی اعتراض کرنا مقصود نہیں بلکہ عام لوگوں کو تسلی دینا ہے کہ وہ بلا جھجک احرام کھول کر اس کی پابندیوں سے آزاد ہو جائیں اور یہ سہولت صرف تمہارے لیے نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لیے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے پر مختلف الفاظ استعمال فرمائے:
کبھی فرمایا:
میں قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا۔
کبھی فرمایا:
میں بھی اسے عمرے کے احرام میں بدل لیتا۔
کبھی فرمایا:
میں وہی کچھ کرتا جو لوگوں نے کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7230   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7367  
7367. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام نے صرف حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ عمرے کی نیت نہ تھی۔ نبی ﷺ ذوالحجہ کی چار تاریخ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے تو ہمیں آپ نے حکم دیا کہ ہم حج کا احرام کھول دیں اور فرمایا: تم حج کا احرام کھول دو اور اپنی بیویوں کے پاس جاؤ۔ سیدنا عطاء فرماتے ہیں کہ سیدنا جابر ؓ نے فرمایا: آپ نے بیویوں سے جماع کرنا ان پر واجب نہیں کیا تھا صرف عورتوں کو ان پر حلال کیا تھا، پھر آپ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ ہم لوگ کہتے ہیں: جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں تو آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنی عورتوں کے پاس جائیں اس حالت میں جب ہم عرفہ جائیں گے تو ہماری شرم گاہوں سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ سیدنا جابر ؓ اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے تھے اور اسے حرکت دیتے تھے۔ تب رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7367]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو بیویوں کے پاس جانے کا حکم دینا وجوب کے لیے نہ تھا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم ہم پر واجب نہیں کیا تھا البتہ عورتوں کو ان کے شوہروں کے لیے حلال کیا تھا کہ وہ اگر اپنی بیویوں سے جماع کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں یہ ان پر حرام نہیں کیونکہ یہ پابندی صرف احرام کی وجہ سے تھی جب احرام کھول دیا گیا تو پابندی بھی ختم ہو گئی اور یہ حکم پہلی حالت پر آگیا یعنی جس طرح احرام سے پہلے بیویوں سے ہم بستری کرنا جائز تھا اسی طرح احرام کھول دینے کے بعد بھی حکم جواز کا ہی رہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بیویوں کے پاس جانے کا حکم دیا تھا اس سے صرف حلال ہونے میں مبالغہ مقصود تھا کیونکہ بیویوں سے جماع کرنا حج کو خراب کر دینا ہے جبکہ احرام کی دوسری پابندیاں حج کو خراب نہیں کرتیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پرزور انداز میں بیان فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7367