عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں اپنے بچھونے پر نماز پڑھی، پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچھونے پر نماز پڑھتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6310، ومصباح الزجاجة: 368)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/232) (صحیح)» (اس کی سند میں زمعہ بن صالح ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 665)
وضاحت: ۱؎: حدیث میں تصریح نہیں ہے کہ بچھونا کس چیز کا تھا غالباً روئی کا ہو گا تو کپڑے پر نماز پڑھنا جائز ہو گا، دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گرمی کی شدت سے زمین پر اپنا کپڑا بچھاتے پھر اس پر سجدہ کرتے۔
It was narrated that ‘Amr bin Dinar said:
“When Ibn ‘Abbas was in Basrah, he performed prayer on his rug, then he told his companions that the Messenger of Allah (ﷺ) used to perform prayer on his rug.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف زمعة بن صالح ضعيف وحديث البخاري (6203) ومسلم (2150) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414
عبداللہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور بنو عبدالاشہل کی مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی، تو میں نے دیکھا کہ آپ سجدے کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اپنے کپڑے پر رکھے ہوئے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6578، ومصباح الزجاجة: 369) (ضعیف)» (اس کی سند میں اسماعیل بن ابی حبیبہ ضعیف ہیں، نیز سند معضل ہے، عبد اللہ بن عبد الرحمن کے بعد «عن أبیہ عن جدہ» کا ذکر یہاں نہیں ہے، جو آگے آ رہا ہے، نیز خود عبد اللہ بن عبد الرحمن مجہول ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الارواء: 312)
It was narrated that ‘Abdullah bin ‘Abdur-Rahman said:
“The Prophet (ﷺ) came to us and led us in prayer in the mosque of Banu ‘Abdul- Ashhal, and I saw him putting his hands on his garment when he prostrated.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إسماعيل بن أبي حبيبة: فيه ضعف (تقريب: 433) أ ي من جھة جھالته لأنه مجھول والسند منقطع انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414
ثابت بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسجد) بنو عبدالاشہل میں نماز پڑھی، آپ اپنے جسم پہ ایک کمبل لپیٹے ہوئے تھے، کنکریوں کی ٹھنڈک سے بچنے کے لیے اپنا ہاتھ اس پر رکھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2061، ومصباح الزجاجة: 370) (ضعیف)» (اس کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل الأشہل ضعیف اور منکر الحدیث ہیں، اور امام بخاری نے تاریخ کبیر میں عبد الرحمن بن ثابت کے بارے میں فرمایا کہ ان کی حدیث صحیح نہیں ہے، 5/266 و الضعفاء الصغیرلہ: 69)
It was narrated from ‘Abdullah bin ‘Abdur-Rahman bin Thabit bin Samit, from his father, from his grandfather, that the Messenger of Allah (ﷺ) performed prayer among Banu ‘Abdul-Ashhal, wearing a cloak in which he was wrapped and putting his hands on it to protect them from the cold of the pebbles.
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف إبراهيم بن إسماعيل بن أبي حبيبة: ضعيف (ضعيف سنن الترمذ ي: 1462) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمی میں نماز پڑھتے تھے، جب ہم میں سے کوئی اپنی پیشانی زمین پہ نہ رکھ سکتا تو اپنا کپڑا بچھا لیتا، اور اس پر سجدہ کرتا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 23 (385)، المواقیت 11 (542)، العمل في الصلاة 9 (1208)، صحیح مسلم/المساجد 33 (620)، سنن ابی داود/الصلاة 93 (660)، سنن الترمذی/الجمعة 58 (584)، سنن النسائی/التطبیق 59 (1117)، (تحفة الأشراف: 250)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/ 100، 400)، سنن الدارمی/الصلاة 82 (1376) (صحیح)»
It was narrated that Anas bin Malik said:
“We used to perform prayer with the Prophet (ﷺ) when it was very hot. When one of us could not place his forehead firmly on the ground, he would spread his garment and prostrate on it.”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نماز میں جب امام بھول جائے، تو اس کو یاد دلانے کے لیے) «سبحان الله» کہنا مردوں کے لیے ہے، اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام نماز میں بھول جائے، تو مرد «سبحان الله» کہہ کر اسے اس کی اطلاع دیں، اور عورت زبان سے کچھ کہنے کے بجائے دستک دے، اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ کی دونوں انگلیوں سے اپنی بائیں ہتھیلی پر مارے، کچھ لوگ «سبحان اللہ» کہنے کے بجائے «الله أكبر» کہہ کر امام کو متنبہ کر تے ہیں، یہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نماز میں جب امام بھول جائے، تو اس کو یاد دلانے کے لیے) مردوں کے لیے «سبحان الله» کہنا ہے، اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4694)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العمل في الصلاة 5 (1204)، صحیح مسلم/الصلاة 23 (421)، سنن ابی داود/الصلاة 173 (941)، سنن الترمذی/الصلاة 156 (369)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 20 (61) سنن الدارمی/الصلاة 95 (1404) (صحیح)»
نافع کہتے تھے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز میں جب امام بھول جائے، تو اس کو یاد دلانے کے لیے) عورتوں کو تالی بجانے، اور مردوں کو «سبحان الله» کہنے کی رخصت دی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7508 و 8225، ومصباح الزجاجة: 371) (صحیح)» (سند میں سوید بن سعید میں ضعف ہے، لیکن سابقہ شواہد سے یہ صحیح ہے، نیز بوصیری نے اس سند کی تحسین کی ہے، اور شواہد ذکر کئے ہیں)
It was narrated that Nafi’ used to say:
“Ibn ‘Umar said: ‘The Messenger of Allah (ﷺ) granted a concession for the women to clap, and for the men to say the Tasbih.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سويد بن سعيد: ضعيف ضعفه الأئمة من أجل اختلاطه ولا يحتج به إلا ما يروي عنه مسلم في صحيحه والحديث السابق (الأصل: 1035) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414
ابن ابی اوس کہتے ہیں کہ میرے دادا اوس رضی اللہ عنہ کبھی نماز پڑھتے ہوئے مجھے اشارہ کرتے تو میں انہیں ان کے جوتے دے دیتا (وہ پہن لیتے اور نماز پڑھتے) اور (پھر نماز کے بعد) کہتے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جوتے پہن کر نماز پڑھتے دیکھا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1742، ومصباح الزجاجة: 372)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/108) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس باب میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں، بلکہ علماء نے خاص اس مسئلہ میں مستقل رسالے لکھے ہیں، حاصل یہ ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنا مستحب اور مسنون ہے، اور جو کہتا ہے کہ جوتے اتار کر پڑھنا ادب ہے اس کا قول غلط ہے اس لئے کہ نبی اکرم ﷺ کا کوئی فعل خلاف ادب نہیں ہو سکتا، دوسری حدیث میں ہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھو اور یہود کی مخالفت کرو، وہ جوتے پہن کر نماز نہیں پڑھتے، البتہ یہ ضروری ہے کہ جوتے پاک و صاف ہوں، مگر ہماری شریعت میں جوتوں کی پاکی یہ رکھی گئی ہے کہ ان کو زمین سے رگڑ دے، اور جوتوں کا دھونا کسی حدیث سے ثابت نہیں، اور نہ سلف صالحین ہی سے منقول ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ تمدن اور شہریت کے اس زمانہ میں جب کہ مساجد میں فرش اور قالین بچھانے کا رواج ہے تو ان میں جوتا پہن کر جانا نامناسب ہے خاص کر برصغیر کے شہروں اور دیہاتوں کی مساجد میں کہ یہاں کی مٹی اور کیچڑ نیز راستہ کی گندگی اور کوڑا کرکٹ انسان کے جوتے اور کپڑوں میں لگ کر اس کو گندا کر دیتے ہیں، رہ گئی بات عرب دنیا کی تو وہاں پر عام زمین ریتیلی اور پہاڑی ہے اور بالعموم جوتے یا بدن میں لگنے کے بعد بھی خود سے یا رگڑنے سے صاف ہو جاتی ہے، بہرحال صفائی اور ستھرائی کا خیال کرنا بہت اہم مسئلہ ہے، اور صاف جوتے پہن کر مناسب مقام میں نماز پڑھنے کا جواز ایک الگ مسئلہ ہے، چنانچہ عرب ملکوں میں آج بھی لوگ جوتے پہن کر نماز ادا کرتے ہیں، لیکن مساجد میں جوتے پہن کر نماز نہیں ادا کرتے بلکہ اس کے لئے اندر اور باہر جگہیں ہر مسجد میں موجود ہوتی ہیں، جہاں انہیں رکھ کر آدمی مسجد میں داخل ہوتا ہے۔
It was narrated that Ibn Abu Aws said:
“My grandfather, Aws, used to perform prayer, and sometimes he would make a gesture while praying, and I would give him his sandals. He said: ‘I saw the Messenger of Allah (ﷺ) performing prayer in his sandals.’”
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کبھی جوتے نکال کر اور کبھی جوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔
It was narrated from ‘Amr bin Shu’aib, from his father, that his grandfather said:
“I saw the Messenger of Allah (ﷺ) performing prayer both barefoot, and while wearing sandals.”
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتے، اور موزے پہن کر نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9473، ومصباح الزجاجة: 373)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/461) (صحیح)» (شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، اس کی سند میں ابو اسحاق مدلس و مختلط ہیں، اور عنعنہ سے روایت کی ہے، اور زہیر بن معاویہ خدیج کی ان سے روایت اختلاط کے بعد کی ہے)