سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
63. بَابُ : الصَّلاَةِ عَلَى الْخُمْرَةِ
باب: چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1030
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ: صَلَّى ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ بِالْبَصْرَةِ عَلَى بِسَاطِهِ، ثُمَّ حَدَّثَ أَصْحَابَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ:" يُصَلِّي عَلَى بِسَاطِهِ".
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں اپنے بچھونے پر نماز پڑھی، پھر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچھونے پر نماز پڑھتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6310، ومصباح الزجاجة: 368)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/232) (صحیح)» (اس کی سند میں زمعہ بن صالح ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: 665)
وضاحت: ۱؎: حدیث میں تصریح نہیں ہے کہ بچھونا کس چیز کا تھا غالباً روئی کا ہو گا تو کپڑے پر نماز پڑھنا جائز ہو گا، دوسری حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گرمی کی شدت سے زمین پر اپنا کپڑا بچھاتے پھر اس پر سجدہ کرتے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
زمعة بن صالح ضعيف
وحديث البخاري (6203) ومسلم (2150) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 414
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 1030 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1030
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اور لکھا ہے کہ یہ روایت سنداً تو ضعیف ہے۔
لیکن بخاری ومسلم کی روایات اس سے کفایت کرتی ہیں۔
غالباً اسی وجہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
دیکھئے: (صحیح ابو داؤد، رقم: 665)
(2) (بساط)
ہر اس چیز کوکہا جاسکتا ہے۔
جو زمین پر بچھائی جاتی ہے۔
خواہ وہ چٹائی ہو یا قالین یا کوئی کپڑا وغیرہ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اہل عرب چارپائی پر سونے کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔
اکثر اوقات زمین پر بستر بچھا کر سوجاتے تھے۔
ایسے بستر پر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں-
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1030