It was narrated that Anas bin Malik said:
“The Messenger of Allah (ﷺ), Abu Bakr and ‘Umar used to start their recitation with ‘All the praises and thanks are to Allah, the Lord of all that exists (Al-hamdu Lillahi Rabbil-‘Alamin).” [1:2]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم «الحمد لله رب العالمين» سے قراءت شروع فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15445، ومصباح الزجاجة: 303) (صحیح)» (سند میں أبو عبد اللہ مجہول الحال ہیں، اور بشر بن رافع متکلم فیہ، لیکن اصل حدیث کثرت طرق و شواہد کی وجہ سے صحیح ہے)
It was narrated from Abu Hurairah that the Prophet (ﷺ) used to start his recitation with ‘All the praises and thanks are to Allah, the Lord of all that exists’ (Al-hamdu Lillahi Rabbil-‘Alamin),’ [1:
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا إسماعيل بن علية ، عن الجريري ، عن قيس بن عباية ، حدثني ابن عبد الله بن المغفل ، عن ابيه ، قال: وقلما رايت رجلا اشد عليه في الإسلام حدثا منه، فسمعني وانا اقرا: بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1، فقال:" اي بني إياك والحدث، فإني صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومع ابي بكر، ومع عمر، ومع عثمان، فلم اسمع رجلا منهم يقوله، فإذا قرات فقل: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَايَةَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: وَقَلَّمَا رَأَيْتُ رَجُلًا أَشَدَّ عَلَيْهِ فِي الْإِسْلَامِ حَدَثًا مِنْهُ، فَسَمِعَنِي وَأَنَا أَقْرَأُ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1، فَقَالَ:" أَيْ بُنَيَّ إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ، فَإِنِّي صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ، وَمَعَ عُمَرَ، وَمَعَ عُثْمَانَ، فَلَمْ أَسْمَعْ رَجُلًا مِنْهُمْ يَقُولُهُ، فَإِذَا قَرَأْتَ فَقُلْ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2".
ابن عبداللہ بن مغفل اپنے والد عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ایسا آدمی بہت کم دیکھا جس کو اسلام میں نئی بات نکالنا ان سے زیادہ ناگوار ہوتا ہو، انہوں نے مجھے «بسم الله الرحمن الرحيم»(بآواز) بلند پڑھتے ہوئے سنا تو کہا: بیٹے! تم اپنے آپ کو بدعات سے بچاؤ، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی، لیکن میں نے ان میں سے کسی کو بھی «بسم الله الرحمن الرحيم» بآواز بلند پڑھتے ہوئے نہیں سنا، لہٰذا جب تم قراءت کرو تو «الحمد لله رب العالمين» سے کرو۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 66 (244)، سنن النسائی/الافتتاح 22 (909)، (تحفة الأشراف: 9667)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/85، 5/54، 55) (ضعیف)» (سند میں یزید بن عبد اللہ بن مغفل مجہول الحال ہے)
Ibn ‘Abdullah bin Mughaffal narrated from his father and he said:
“I have rarely seen a man for whom innovation in Islam was harder to bear than him. He heard me reciting: ‘In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful’ Bismillahir-Rahmanir-Rahim [1:1] and he said: ‘O my son, beware of innovation, for I prayed with the Messenger of Allah (ﷺ), and with Abu Bakr, and with ‘Umar, and with ‘Uthman, and I never heard any of them saying this. When you (begin to) recite, say: ‘All the praises and thanks are to Allah, the Lord of all that exists.’ (Al-hamdu Lillahi Rabbil-‘Alamin).’” [1:2]
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (244) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 407
عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ فجر میں: «فلا أقسم بالخنس الجوار الكنس»۱؎ کی قراءت فرما رہے تھے، گویا کہ میں یہ قراءت اب بھی سن رہا ہوں۔
It was narrated that ‘Amr bin Huraith said:
“I performed prayer with the Prophet (ﷺ) when he was reciting in the Fajr, and it is as if I can hear him reciting: ‘So verily, I swear by the planets that recede. And by the planets that move swiftly and hide themselves.’”[81:15-16]
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے، اور دوسری رکعت چھوٹی کرتے، اور اسی طرح فجر کی نماز میں بھی کرتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: پہلی رکعت میں قراءت کو طول دینا بہ نسبت دوسری رکعت کے مستحب ہے، اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کو جماعت مل جائے، اور پہلی رکعت نہ چھوٹے، اور بعضوں نے کہا یہ نماز فجر کے لیے خاص ہے، «واللہ اعلم» ۔
It was narrated that Abu Qatadah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) used to lead us in prayer, and he would lengthen the first Rak’ah of the Zuhr and shorten the second Rak’ah, and he would do likewise in the Subh.”
عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں «سورۃ مومنون» کی تلاوت فرمائی، جب اس آیت پہ پہنچے جس میں عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے، تو آپ کو کھانسی آ گئی، اور آپ رکوع میں چلے گئے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس باب کی احادیث میں رسول اللہ ﷺ کی مقدار قراءت مختلف بتائی گئی ہے، جس سے حسب موقعہ پڑھنے پر استدلال کیا جا سکتا ہے، آخری حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ پوری سورۃ کا پڑھنا ضروری نہیں، پہلی رکعت میں قراءت طویل کرنا، اور دوسری میں ہلکی کرنا بھی سنت رسول ہے، اور ظاہری فائدہ اس کا یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت رکعت فوت ہونے سے بچ جاتی ہے۔
It was narrated that ‘Abdullah bin Sa’ib said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) recited Al-Mu’minun [Al-Mu’minun 23] in the Subh prayer, and when he came to the mention of ‘Eisa, he was overcome with a cough, so he bowed in Ruku’.”
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم تنزيل السجدة»(سورۃ سجدۃ)، اور «هل أتى على الإنسان»(سورۃ الدہر) پڑھتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جمعہ کو نماز فجر میں ان دونوں سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے «كان يقرأ» کے صیغے سے اس پر نبی اکرم ﷺ کی مواظبت کا پتہ چلتا ہے، بلکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں جس کی تخریج طبرانی نے کی ہے، اس پر آپ کی مداومت کی تصریح آئی ہے، اس میں شاید یہ حکمت ہو گی کہ ان دونوں سورتوں میں انسان کی پیدائش، خاتمہ، آدم، جنت اور جہنم کا ذکر ہے، اور قیامت کا حال ہے، اور یہ سب باتیں جمعہ کے دن ہونے والی ہیں، اور کچھ ہو چکی ہیں۔
It was narrated that Ibn ‘Abbas said:
“For the Subh prayer on Fridays, the Messenger of Allah (ﷺ) used to recite ‘Alif-Lam-Mim. The revelation...’ [32:1] and ‘Has there not been over man...’” [76:1]
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں «الم تنزيل» اور «هل أتى على الإنسان» پڑھا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3945، ومصباح الزجاجة: 304) (صحیح)» (سند میں حارث بن نبہان ضعیف ہیں، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، نیز ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پہلے گزری)
It was narrated from Mus’ab bin Sa’d that his father said:
“For the Fajr prayer on Fridays, the Messenger of Allah (ﷺ) used to recite ‘Alif-Lam-Mim. The revelation...’ [32:1] and ‘Has there not been over man...’” [76:1]