(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن إسماعيل بن رجاء ، قال: سمعت اوس بن ضمعج ، قال: سمعت ابا مسعود ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يؤم القوم اقرؤهم لكتاب الله، فإن كانت قراءتهم سواء، فليؤمهم اقدمهم هجرة، فإن كانت الهجرة سواء، فليؤمهم اكبرهم سنا، ولا يؤم الرجل في اهله، ولا في سلطانه، ولا يجلس على تكرمته في بيته إلا بإذن او بإذنه". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَجَاءٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَوْسَ بْنَ ضَمْعَجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُود ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ كَانَتْ قِرَاءَتُهُمْ سَوَاءً، فَلْيَؤُمَّهُمْ أَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانَتِ الْهِجْرَةُ سَوَاءً، فَلْيَؤُمَّهُمْ أَكْبَرُهُمْ سِنًّا، وَلَا يُؤَمَّ الرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ، وَلَا فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يُجْلَسْ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنٍ أَوْ بِإِذْنِهِ".
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو لوگوں میں قرآن زیادہ جانتا ہو، اگر قراءت میں سب یکساں ہوں تو امامت وہ کرے جس نے ہجرت پہلے کی ہو ۱؎، اگر ہجرت میں سب برابر ہوں تو امامت وہ کرے جو عمر کے لحاظ سے بڑا ہو، اور کوئی شخص کسی شخص کے گھر والوں میں اور اس کے دائرہ اختیار و منصب کی جگہ میں امامت نہ کرے ۲؎، اور کوئی کسی کے گھر میں اس کی مخصوص جگہ پہ بغیر اس کی اجازت کے نہ بیٹھے“۳؎۔
وضاحت: ۱؎: ابومسعود رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں یوں ہے کہ اگر قراءت میں برابر ہوں تو جس کو سنت کا علم زیادہ ہو وہ امامت کرے، اگر اس میں بھی برابر ہوں تو جس کی ہجرت پہلے ہوئی ہو وہ امامت کرے، یعنی قرآن زیادہ جانتا ہو یا قرآن کو اچھی طرح پڑھتا ہو، یہ حدیث صحیح ہے، محدثین نے اسی کے موافق یہ حکم دیا ہے کہ جو شخص قرآن زیادہ جانتا ہو وہی امامت کا حق دار ہے اگرچہ نابالغ یا کم عمر ہو، اور اسی بناء پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمر بن ابی سلمہ کو امام بنایا تھا، حالانکہ ان کی عمر چھ یا سات برس کی تھی۔ ۲؎: یعنی مہمان میزبان کی امامت نہ کرے، الا یہ کہ وہ اس کی اجازت دے، اسی طرح کوئی کسی جگہ کا حکمران ہو تو اس کی موجودگی میں کوئی اور امامت نہ کرے۔ ۳؎: مثلاً کسی کی کوئی مخصوص کرسی یا مسند وغیر ہو تو اس پر نہ بیٹھے۔
Abu Mas’ud said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘The people should be lead by the one who is most well-Versed in recitation of the Book of Allah. If they are equal in recitation, then they should be led by the one who emigrated first. If they are equal in emigration, then they should be led by the eldest. A man should not be led among his family or in his place of authority; no one should be sat in his place of honour in his house without permission, or without his permission.’”
ابوحازم کہتے ہیں کہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے جوانوں کو آگے بڑھاتے وہی لوگوں کو نماز پڑھاتے، کسی نے سہل رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ جوانوں کو نماز کے لیے آگے بڑھاتے ہیں، حالانکہ آپ کو سبقت اسلام کا بلند رتبہ حاصل ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن ہے، اگر وہ اچھی طرح نماز پڑھائے تو اس کے لیے بھی ثواب ہے اور مقتدیوں کے لیے بھی، اور اگر خراب طریقے سے پڑھائے تو اس پر گناہ ہے لوگوں پر نہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4700، ومصباح الزجاجة: 354) (صحیح)» (دوسرے شواہد کے بناء پر یہ صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں عبد الحمید ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1767)
وضاحت: ۱؎: امام ضامن ہے کا مطلب یہ کہ اگر وہ اچھی طرح سے نماز پڑھتا ہے، تو اس کا اجر و ثواب اس کو اور مقتدیوں دونوں کو ملے گا، اور اگر خراب طریقے سے نماز پڑھتا ہے، تو اس کا وبال اسی پر ہو گا، نہ کہ مقتدیوں پر۔
Abu Hazim said:
“Sahl bin Sa’d As-Sa’idi used to give preference to the young to lead his people in prayer. It was said to him: “Do you do that, when you have such seniority (in Islam)?” He said: “I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘The Imam is responsible. If he does well, then he will have the reward and so will they, but if he does badly, then that will be counted against him but not against them.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف۔عبدالحميد (بن سليمان) اتفقوا علي تضعيفه“ وھو: ضعيف ولبعض الحديث شواھد انوار الصحيفه، صفحه نمبر 413
خرشہ کی بہن سلامہ بنت حر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ دیر تک کھڑے رہیں گے، کوئی امام نہیں ملے گا جو انہیں نماز پڑھائے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 60 (581)، (تحفة الأشراف: 15898)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/381) (ضعیف)» (اس کی سند میں عقیلہ مجہول ہیں)
It was narrated that Salamah bint Hurr, the sister of Kharashah, said:
“I heard the Prophet (ﷺ) say: ‘A time will come when the people will stand for a long time and will not be able to find any Imam to lead them in prayer.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (581) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 413
(مرفوع) حدثنا محرز بن سلمة العدني ، حدثنا ابن ابي حازم ، عن عبد الرحمن بن حرملة ، عن ابي علي الهمداني ، انه خرج في سفينة فيها عقبة بن عامر الجهني ، فحانت صلاة من الصلوات، فامرناه ان يؤمنا، وقلنا له: إنك احقنا بذلك انت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فابى، فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" من ام الناس فاصاب، فالصلاة له ولهم، ومن انتقص من ذلك شيئا فعليه ولا عليهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ الْعَدَنِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ ، عَنْ أَبِي عَلِيٍّ الْهَمْدَانِيِّ ، أَنَّهُ خَرَجَ فِي سَفِينَةٍ فِيهَا عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ الْجُهَنِيُّ ، فَحَانَتْ صَلَاةٌ مِنَ الصَّلَوَاتِ، فَأَمَرْنَاهُ أَنْ يَؤُمَّنَا، وَقُلْنَا لَهُ: إِنَّكَ أَحَقُّنَا بِذَلِكَ أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى، فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ أَمَّ النَّاسَ فَأَصَابَ، فَالصَّلَاةُ لَهُ وَلَهُمْ، وَمَنِ انْتَقَصَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعَلَيْهِ وَلَا عَلَيْهِمْ".
ابوعلی ہمدانی سے روایت ہے کہ وہ ایک کشتی میں نکلے، اس میں عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بھی تھے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ ہماری امامت کریں، آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں اس لیے کہ آپ صحابی رسول ہیں، انہوں نے امامت سے انکار کیا، اور بولے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے لوگوں کی امامت کی اور صحیح طریقہ سے کی تو یہ نماز اس کے لیے اور مقتدیوں کے لیے بھی باعث ثواب ہے، اور اگر اس نے نماز میں کوئی کوتاہی کی تو اس کا وبال امام پر ہو گا، اور مقتدیوں پر کچھ نہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 59 (580)، (تحفة الأشراف: 9912)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/145، 154، 156، 201) (صحیح)»
It was narrated from Abu ‘Ali Al-Hamdani that he went out in a ship in which ‘Uqbah bin ‘Amir Al-Juhani was present. The time for prayer came, and we told him to lead us in prayer and said to him:
“You are the most deserving of that, you were the Companion of the Messenger of Allah (ﷺ).” But he refused and said: “I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: ‘Whoever leads the people and gets it right, the prayer will be for him and for them, but if he falls short, then that will be counted against him but not against them.”
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا إسماعيل ، عن قيس ، عن ابي مسعود ، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقال: يا رسول الله، إني لاتاخر في صلاة الغداة من اجل فلان لما يطيل بنا فيها، قال: فما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم قط في موعظة اشد غضبا منه يومئذ، فقال: يا ايها الناس،" إن منكم منفرين، فايكم ما صلى بالناس فليجوز فإن فيهم الضعيف، والكبير، وذا الحاجة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلَانٍ لِمَا يُطِيلُ بِنَا فِيهَا، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ،" إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُجَوِّزْ فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ، وَالْكَبِيرَ، وَذَا الْحَاجَةِ".
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں فلاں شخص کی وجہ سے فجر کی نماز میں دیر سے جاتا ہوں، اس لیے کہ وہ نماز کو بہت لمبی کر دیتا ہے، ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا سخت غضبناک کبھی بھی کسی وعظ و نصیحت میں نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم میں کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں، لہٰذا تم میں جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے ہلکی پڑھائے، اس لیے کہ لوگوں میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مند سبھی ہوتے ہیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ تین صورتیں آپ ﷺ نے ایسی فرمائیں کہ اس میں سارے معذور لوگ آ گئے، اب جس قدر سوچیں کوئی معذور ایسا نہیں ملے گا جو ان تین سے خارج ہو، اس حدیث سے آپ کا کمال رحم اور کرم بھی ثابت ہوتا ہے۔
It was narrated that Abu Mas’ud said:
“A man came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘O Messenger of Allah! I stay behind and do not perform the morning prayer (in congregation) because of so-and-so, for he makes it too long for us.’ I never saw the Messenger of Allah (ﷺ) preaching with such anger as he did that day. He said; ‘O people! There are among you those who repel others. Whoever among you leads others in prayer, let him keep it short, for among them are those who are weak and elderly, and those who have pressing needs.’”
وضاحت: ۱؎: مختصر تو اس طور سے ہوتی کہ سورتیں بہت لمبی نہ پڑھتے، اور پوری اس طرح سے ہوتی کہ سجدہ اور قیام اور قعدہ اچھے طور سے ادا کرتے، کم سے کم سجدہ اور رکوع میں پانچ یا تین تسبیحوں کے برابر ٹھہرتے، اسی طرح رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑے ہوتے، اور «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه» کہتے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث بن سعد ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، قال: صلى معاذ بن جبل الانصاري باصحابه صلاة العشاء، فطول عليهم، فانصرف رجل منا، فصلى، فاخبر معاذ عنه، فقال: إنه منافق، فلما بلغ ذلك الرجل دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره ما قال له معاذ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اتريد ان تكون فتانا يا معاذ، إذا صليت بالناس فاقرا ب: الشمس وضحاها و سبح اسم ربك الاعلى و الليل إذا يغشى و اقرا باسم ربك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: صَلَّى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ الْأَنْصَارِيُّ بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْعِشَاءِ، فَطَوَّلَ عَلَيْهِمْ، فَانْصَرَفَ رَجُلٌ مِنَّا، فَصَلَّى، فَأُخْبِرَ مُعَاذٌ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ، فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ مَا قَالَ لَهُ مُعَاذٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتُرِيدُ أَنْ تَكُونَ فَتَّانًا يَا مُعَاذُ، إِذَا صَلَّيْتَ بِالنَّاسِ فَاقْرَأْ ب: الشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَ سَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ اللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ".
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی اور نماز لمبی کر دی، ہم میں سے ایک آدمی چلا گیا اور اکیلے نماز پڑھ لی، معاذ رضی اللہ عنہ کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے کہا: یہ منافق ہے، جب اس شخص کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات پہنچی، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو معاذ رضی اللہ عنہ کی بات بتائی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاذ! کیا تم فتنہ پرداز ہونا چاہتے ہو؟ جب لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو «والشمس وضحاها»، «سبح اسم ربك الأعلى» «والليل إذا يغشى» اور «اقرأ باسم ربك» پڑھو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے «بروج» یا «وانشقت» پڑھو، یہ سب سورتیں قریب قریب برابر کی ہیں، عشاء کی نماز میں جب جماعت سے ہو تو یہی سورتیں پڑھنا مسنون ہے، اور آپ ﷺ نے عشاء کی نماز میں «والتين» بھی پڑھی۔
It was narrated that Jabir said:
“Mu’adh bin Jabal Al-Ansari led his companions in the ‘Isha’ prayer and he made it long. A man among us went away and prayed by himself. Mu’adh was told about that and he said: ‘He is a hypocrite.’ When the man heard about that, he went to the Messenger of Allah (ﷺ) and told him what Mu’adh had said to him. The Prophet (ﷺ) said: ‘Do you want to be a cause of Fitnah (trial, tribulation), O Mu’adh? When you lead the people in prayer, recite “By the sun and its brightness,”[Ash-Shams 91] and “Glorify the Name of your Lord the Most High,” [Al-A’la 87] and “By the night as it envelopes,” [Al-Lail 92] and “Recite in the Name of your Lord.’”[Al-‘Alaq]
مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو طائف کا امیر بنایا، تو آپ نے میرے لیے آخری نصیحت یہ فرمائی: ”عثمان! نماز ہلکی پڑھنا، اور لوگوں (عام نمازیوں) کو اس شخص کے برابر سمجھنا جو ان میں سب سے زیادہ کمزور ہو، اس لیے کہ لوگوں میں بوڑھے، بچے، بیمار، دور سے آئے ہوئے اور ضرورت مند سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں“۔
It was narrated that Mutarrif bin ‘Abdullah bin Shikhkhir said:
“I heard ‘Uthman bin Abul-‘As say: “The last thing that the Prophet (ﷺ) enjoined on me when he appointed me governor of Ta’if was that he said: “O ‘Uthman! Be tolerable in prayer and estimate the people based upon the weakest among them, for among them are the elderly, the young, the sick, those who live far from the mosque, and those who have pressing needs.”
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری بات جو مجھ سے کہی وہ یہ تھی: ”لوگوں کی جب امامت کرو تو نماز ہلکی پڑھاؤ“۔
‘Uthman bin Abul-‘As narrated that the last thing the Messenger of Allah (ﷺ) enjoined on him was that he said:
“When you lead people, keep it short for them.”
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا عبد الاعلى ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لادخل في الصلاة، وانا اريد إطالتها، فاسمع بكاء الصبي، فاتجوز في صلاتي مما اعلم لوجد امه ببكائه". (مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ، وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي مِمَّا أَعْلَمُ لِوَجْدِ أُمِّهِ بِبُكَائِهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز شروع کرتا ہوں اور لمبی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اتنے میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو نماز اس خیال سے مختصر کر دیتا ہوں کہ بچے کی ماں کو اس کے رونے کی وجہ سے تکلیف ہو گی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں عورتیں مسجد میں آ کر نماز باجماعت ادا کرتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ بچوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز کو مختصر پڑھاتے، تاکہ بچوں کے رونے سے ماؤں کی نماز میں خلل نہ ہو، لہذا آج بھی جن مساجد میں عورتوں کے نماز پڑھنے کا انتظام ہے، ان میں عورتیں اپنے اسلامی شعار کا لحاظ کرتے ہوئے جائیں اور نماز باجماعت ادا کریں، یہ حدیث ہر زمانے اور ہر جگہ کے لئے عام ہے۔
It was narrated that Anas bin Malik said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘I start prayer and I want to make it long, but then I hear an infant crying, so I make my prayer short, because I know the distress caused to the mother by his crying.’”