بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بادل کے ایام میں نماز جلدی پڑھ لیا کرو، کیونکہ جس کی نماز عصر فوت ہو گئی، اس کا عمل برباد ہو گیا“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2014)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/361) (ضعیف)» (سند میں یحییٰ بن ابی کثیر مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے یہ ضعیف ہے، لیکن «من فاتته صلاة العصر حبط عمله» کاجملہ صحیح بخاری میں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس دن کے اعمال کا پورا ثواب اس کو نہیں ملے گا کیونکہ عصر کی نماز ہی ان اعمال میں ایک بڑا عمل تھا، اسی کو اس نے برباد کر دیا، یا اس دن کے کل اعمال لغو اور بیکار ہو جائیں گے، اور اس کو مطلق ثواب نہیں ملے گا، یا عمل سے مراد وہ عمل ہے جس میں وہ مصروف رہا، اور اس کی وجہ سے نماز قضا کی، مطلب یہ ہے کہ اس عمل میں برکت، اور منفعت نہ ہوگی، بلکہ نحوست پیدا ہو گی، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بادل کے دن نماز میں جلدی کرنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور خبر نہ ہو، بعضوں نے کہا کہ بادل کے دن عصر اور عشاء میں جلدی کرے، واللہ اعلم۔
It was narrated that Buraidah Al-Aslami said:
"We were with the Messenger of Allah on a campaign, and he said: 'Hasten to perform prayer on a cloudy day, for whoever misses the 'Asr prayer, all his good deeds will be in vain.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا قوله من فاتته
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يحيي بن أبي كثير مدلس و عنعن و حديث البخاري (553) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 403
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو نماز سے غافل ہو جائے، یا سو جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب یاد آ جائے تو پڑھ لے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے ”وہی اس کا وقت ہے“ یعنی جس وقت جاگ کر اٹھے یا جب نماز یاد آ جائے اسی وقت پڑھ لے، اگرچہ اس وقت سورج نکلنے یا ڈوبنے کا وقت ہو یا ٹھیک دوپہر کا وقت ہو، یا فجر یا عصر کے بعد یاد آئے، کیونکہ یہ حدیث عام ہے، اور اس سے ان احادیث کی تخصیص ہو گئی جس میں ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، یہی قول امام احمد کا ہے، اور بعضوں نے کہا نماز پڑھے جب تک سورج نہ نکلے یا ڈوب نہ جائے، اور یہ قول حنفیہ کا ہے، کیونکہ بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب سورج کا کنارہ نکلے تو نماز میں دیر کرو، یہاں تک کہ سورج اونچا ہو جائے، اور جب سورج کا کنارہ غائب ہو جائے، تو نماز میں دیر کرو یہاں تک کہ بالکل غائب ہو جائے“۔
It was narrated that Anas bin Malik said:
'The Prophet was asked about a man who forgets prayer or sleeps and misses it. He said: 'he performs it when he remembers it.'"
(مرفوع) حدثنا حرملة بن يحيى ، حدثنا عبد الله بن وهب ، حدثنا يونس ، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قفل من غزوة خيبر، فسار ليله حتى إذا ادركه الكرى عرس، وقال لبلال:" اكلا لنا الليل"، فصلى بلال ما قدر له، ونام رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه، فلما تقارب الفجر استند بلال إلى راحلته مواجه الفجر، فغلبت بلالا عيناه وهو مستند إلى راحلته، فلم يستيقظ بلال ولا احد من اصحابه حتى ضربتهم الشمس، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اولهم استيقاظا، ففزع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" اي بلال"، فقال بلال: اخذ بنفسي الذي اخذ بنفسك، بابي انت وامي يا رسول الله، قال:" اقتادوا"، فاقتادوا رواحلهم شيئا، ثم توضا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وامر بلالا فاقام الصلاة فصلى بهم الصبح، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة قال:" من نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها، فإن الله عز وجل قال: واقم الصلاة لذكري سورة طه آية 14"، قال: وكان ابن شهاب يقرؤها للذكرى. (مرفوع) حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ، فَسَارَ لَيْلَهُ حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْكَرَى عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلَالٍ:" اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَ"، فَصَلَّى بِلَالٌ مَا قُدِّرَ لَهُ، وَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ اسْتَنَدَ بِلَالٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ مُوَاجِهَ الْفَجْرِ، فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَيْنَاهُ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ بِلَالٌ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَيْ بِلَالُ"، فَقَالَ بِلَالٌ: أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" اقْتَادُوا"، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ فَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ قَالَ:" مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ لِذِكْرِي سورة طه آية 14"، قَالَ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ يَقْرَؤُهَا لِلذِّكْرَى.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹے تو رات میں چلتے رہے، یہاں تک کہ جب نیند آنے لگی تو رات کے آخری حصہ میں آرام کے لیے اتر گئے، اور بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: ”آج رات ہماری نگرانی کرو“، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ کو جتنی توفیق ہوئی اتنی دیر نماز پڑھتے رہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سوتے رہے، جب فجر کا وقت قریب ہوا تو بلال رضی اللہ عنہ نے مشرق کی جانب منہ کر کے اپنی سواری پر ٹیک لگا لی، اسی ٹیک لگانے کی حالت میں ان کی آنکھ لگ گئی، نہ تو وہ جاگے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اور کوئی، یہاں تک کہ انہیں دھوپ لگی تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، اور گھبرا کر فرمایا: ”بلال!“، بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جس نے آپ کی جان کو روکے رکھا اسی نے میری جان کو روک لیا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگے چلو“، صحابہ کرام اپنی سواریوں کو لے کر کچھ آگے بڑھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر لی تو فرمایا: ”جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «أقم الصلاة لذكري» نماز اس وقت قائم کرو جب یاد آ جائے“(سورة: طه: ۱۴)۔ راوی کہتے ہیں کہ ابن شہاب اس کو «لذكري» کے بجائے «للذكرى» پڑھتے تھے ۲؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی میں بھی نیند کی گرفت میں آگیا اور مجھ پر نیند بھی طاری ہوگئی۔ ۲؎: مشہور قراءت «أقم الصلاة لذكري»(طہٰ: ۱۴) ہی ہے، مذکورہ جگہ سے سواریوں کو ہانک لے جانے اور کچھ دور پر جا کر نماز پڑھنے کی تأویل میں علماء کے مختلف اقوال ہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا اس وجہ سے کیا تھا تاکہ سورج اوپر چڑھ آئے اور وہ وقت ختم ہو جائے جس میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہے ان کے نزدیک چھوٹی ہوئی نماز بھی ان اوقات میں پڑھنی جائز نہیں، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ چھوٹی ہوئی نماز کی قضا ہر وقت جائز ہے، ممنوع اوقات میں نماز ادا کرنے کی ممانعت نوافل کے ساتھ خاص ہے، مالک، اوزاعی، شافعی اور احمد بن حنبل وغیرہم ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے، ان لوگوں کے نزدیک اس کی صحیح تاویل یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایسی جگہ نماز پڑھنا نہیں چاہتے تھے جہاں لوگوں کو غفلت و نسیان لاحق ہوا ہو، ابوداؤد کی ایک روایت میں «تحولوا عن مكانكم الذي أصابتكم فيه الغفلة»”اس جگہ سے ہٹ جاؤ جہاں پر تم غفلت کا شکار ہو گئے تھے“ فرما کر نبی اکرم ﷺ نے خود اس کی وجہ بیان فرما دی ہے۔
It was narrated from Abu Hurairah that :
When the Messenger of Allah was coming back from the battle of Khaibar, night came and he felt sleepy, so he made camp and said to Bilal: "Keep watch for us tonight." Bilal prayed as much as Allah decreed for him, and the Messenger of Allah and his Companions went to sleep. When dawn was approaching, Bilal went to his mount, facing towards the east, watching for the dawn. Then Bilal's eyes grew heavy while he was leaning on his mount (and he slept). Neither Bilal nor any of his Companions woke until they felt the heat of the sun. The Messenger of Allah was the first one to wake up. The Messenger of Allah was startled and said: "O Bilal!" Bilal said: "The same thing happened to me as happened to you. May my father and mother be ransomed for you, O Messenger of Allah!" He said: "Bring your mounts forward a little." So they brought their mounts forward a little (away from that place). Then the Messenger of Allah performed ablution and told Bilal to call the Iqamah for prayer, and he led them in the prayer. When the Prophet finished praying, he said: "Whoever forgets a Salah, let him pray it when he remembers, for Allah says: And perform the prayer for My remembrance." [Ta-Ha: 14] He (one of the narrators) said: "Ibn Shihab used to recite this Verse as meaning, 'when you remember'."
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة ، انبانا حماد بن زيد ، عن ثابت ، عن عبد الله بن رباح ، عن ابي قتادة ، قال: ذكروا تفريطهم في النوم، فقال: ناموا حتى طلعت الشمس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، فإذا نسي احدكم صلاة، او نام عنها فليصلها إذا ذكرها ولوقتها من الغد"، قال عبد الله بن رباح: فسمعني عمران بن الحصين وانا احدث بالحديث، فقال: يا فتى انظر كيف تحدث، فإني شاهد للحديث مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فما انكر من حديثه شيئا. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: ذَكَرُوا تَفْرِيطَهُمْ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ: نَامُوا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ فِي النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ صَلَاةً، أَوْ نَامَ عَنْهَا فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا وَلِوَقْتِهَا مِنَ الْغَدِ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ: فَسَمِعَنِي عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ وَأَنَا أُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ: يَا فَتًى انْظُرْ كَيْفَ تُحَدِّثُ، فَإِنِّي شَاهِدٌ لِلْحَدِيثِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَمَا أَنْكَرَ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا.
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نیند کی وجہ سے اپنی کوتاہی کا ذکر چھیڑا تو انہوں نے کہا: لوگ سو گئے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیند میں کوتاہی نہیں ہے، کوتاہی بیداری کی حالت میں ہے، لہٰذا جب کوئی شخص نماز بھول جائے یا اس سے سو جائے تو جب یاد آئے پڑھ لے، اور اگلے روز اس کے وقت میں پڑھ لے“۱؎۔ عبداللہ بن رباح کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے سنا تو کہا: نوجوان! ذرا غور کرو، تم کیسے حدیث بیان کر رہے ہو؟ اس حدیث کے وقت میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، وہ کہتے ہیں کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے اس میں سے کسی بھی بات کا انکار نہیں کیا۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جب یاد آئے یا سونے کے بعد جاگتے ہی اسی وقت نماز پڑھ لے، اور دوسرے دن کوشش کرے کہ نماز کو وقت ہی پر پڑھے، نماز سے سستی کی عادت نہ ڈالے، اگرچہ ظاہر لفظ سے ایسا لگتا ہے کہ جاگنے کے بعد پڑھے، اور دوسرے دن اس کے وقت میں بھی پڑھے،لیکن اس کا کوئی قائل نہیں کہ نماز دو بار پڑھی جائے، نیز جو معنی ہم نے بتایا ہے اس کی تائید سنن دار قطنی کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔
'Abdullah bin Rabah narrated that Abu Qatadah said:
"They mentioned negligence because of sleeping too much, and he said: 'They slept until the sun had risen. The Messenger of Allah said: "There is no negligence when oneis sleeping, rather there is negligence when one is awake. If anyone of you forgets to pray, or sleeps and misses a prayer, then let him pray when he remembers, and during its time if it is a day after. (Sahih)'Abdullah bin Rabah said: "Imran bin Husain heard me when I was narrating this Hadith and said: 'O young man, look at how you are narrating the Hadith. I was present at the time of this Hadith with the Messenger of Allah.' And he did not deny anything of the Hadith."
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے سورج کے ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے عصر کی نماز پا لی، اور جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر کی نماز پا لی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہو گیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضا نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہو گی، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی وہ کہتے ہیں کہ اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہو گیا، اور وہ نماز اس پر واجب ہو گئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی یا کافر اسلام لے آیا کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہوگئی، لیکن ابوداود کی حدیث رقم (۵۱۷) سے جس میں «فليتم صلاته» کے الفاظ آئے ہیں اس تاویل کی نفی ہو رہی ہے۔
It was narrated from Abu Hurairah that:
The Messenger of Allah said: "Whoever catches one Rak'ah of the 'Asr before the sun sets, then he has caught it, and whoever catches one Rak'ah of the Subh before the sun rises, then he has caught it."
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے فجر کی نماز پا لی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے عصر کی نماز پا لی“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 30 (609)، سنن النسائی/المواقیت 27 (552)، (تحفة الأشراف: 16705)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/78) (صحیح)»
It was narrated from 'Aishah that:
The Messeenger of Allah said: "Whoever catches one Rak'ah of the Subh before the sun rises, then he has caught it, and whoever catches one Rak'ah of the 'Asr before the sun sets, then he has caught it." (Sahih)Another chain with similar wording.
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء دیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے، اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے، بعضوں نے اس کی اجازت دی ہے، امام نووی نے کہا ہے کہ اگر نیند کا غلبہ ہو، اور نماز کی قضا کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں، نیز بات چیت سے مراد لایعنی بات چیت ہے جس سے دنیا اور آخرت کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔
It was narrated that Abu Barzah Al-Aslami said:
"The Messenger of Allah used to like to delay the 'Isha', and he disliked sleeping before it, and engaging in conversation after it."
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے نہ سوئے، اور نہ اس کے بعد (بلا ضرورت) بات چیت کی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17497، ومصباح الزجاجة: 258)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/264) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بیکار اور غیر ضروری باتیں عشاء کے بعد کرنی مکروہ ہے، اور کراہت کی علت یہ ہے کہ شاید رات زیادہ گزر جائے اور تہجد کے لئے آنکھ نہ کھلے، یا فجر کی نماز اول وقت اور باجماعت ادا نہ ہو سکے، اور یہ وجہ بھی ہے کہ سوتے میں گویا آدمی مر جاتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ خاتمہ عبادت پر ہو، نہ دنیا کی باتوں پر، اگر دین یا دنیا کی ضروری باتیں ہوں تو ان کا کرنا جائز ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے عشاء کے بعد مسلمانوں کے کاموں کے متعلق ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے باتیں کیں۔
It was narrated that 'Abdullah bin Mas'ud said:
"The Messenger of Allah rebuked us for staying up (talking) after the 'Isha'."
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال البوصيري: ”…عطاء بن السائب اختلط بآخره۔ومحمد بن فضيل روي عنه بعد الإختلاط‘‘ وكذا سائر من رواه عنه ھذا الحديث (وانظر ضعيف سنن أبي داود: 2819) ولأصل الحديث شواھد بغير ھذا اللفظ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 403