سنن ابن ماجه
كتاب الصلاة
کتاب: صلاۃ کے احکام و مسائل
11. بَابُ : وَقْتِ الصَّلاَةِ فِي الْعُذْرِ وَالضَّرُورَةِ
باب: ضرورت اور معذوری کی حالت میں نماز کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 699
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، وَعَنِ الْأَعْرَجِ يُحَدِّثُونَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے سورج کے ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے عصر کی نماز پا لی، اور جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر کی نماز پا لی“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 28 (579)، صحیح مسلم/المساجد 30 (607)، (تحفة الأشراف: (12206، 13636، 14216)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 5 (412)، سنن الترمذی/الصلاة 23 (186)، سنن النسائی/المواقیت 10 (518)، 28 (551)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (5)، مسند احمد (2/254، 260، 282، 348، 399، 462، 474)، سنن الدارمی/الصلاة 22 (1258) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہو گیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضا نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہو گی، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی وہ کہتے ہیں کہ اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہو گیا، اور وہ نماز اس پر واجب ہو گئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی یا کافر اسلام لے آیا کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہوگئی، لیکن ابوداود کی حدیث رقم (۵۱۷) سے جس میں «فليتم صلاته» کے الفاظ آئے ہیں اس تاویل کی نفی ہو رہی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 699 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث699
اردو حاشہ:
(1)
دوسری حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
(وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَالَمْ تَصِفَرَّ الشَّمْسُ) (صحيح مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوات الخمس، حديث: 612)
جب سورج کی دھوپ کا رنگ تبدیل ہوجائے تو عصر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر کسی مجبوری یا عذر کی وجہ سے اس وقت کے اندر نماز نہ پڑھی جا سکے تو سورج غروب ہونے تک پڑھی جا سکتی ہے حتی کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے ایک رکعت بھی پڑھی جائے تو نماز قضاء نہیں ہوتی ادا ہی ہوتی ہے لیکن عصر کی نماز میں سستی کی وجہ سے بلا عذر اس قدر تاخیر کرنا منع ہے۔
ایسی نماز کو رسول اللہ ﷺ نے منافق کی نماز قرار دیا ہے۔ (صحيح مسلم، المساجد، باب استجاب التبكير بالعصر، حديث: 622)
(2)
فجر کی نماز کا بھی یہی حکم ہے اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت پڑھی جائے تووہ وقت کے اندر ہی ادا شدہ قرار پاتی ہے۔
(3)
بعض علماء نے کچھ فقہی قاعدوں کے ذریعے سے فجر اور عصر کی نماز میں فرق کیا ہے۔
ان کے نزدیک عصر کی نماز میں تو یہ مسئلہ درست ہے جو زیر مطالعہ حدیث میں مذکور ہے البتہ فجر کی نماز میں اگر نماز پڑھتے ہوئے سورج نکل آئے تو ان کی رائے میں نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
حدیث کے واضح حکم کی موجودگی میں قیاس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس لیے فجر اور عصر دونوں نمازوں میں حدیث میں مذکور حکم درست ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 699
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 135
´عین طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز کا آغاز ممنوع ہے`
«. . . ان النبى صلى الله عليه وآله وسلم قال: من ادرك من الصبح ركعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح ومن ادرك ركعة من العصر قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”طلوع آفتاب سے پہلے جس نے نماز فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے صبح کی نماز پا لی اور جس نے غروب آفتاب سے قبل نماز عصر کی ایک رکعت پا لی اس نے عصر کی نماز پا لی . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 135]
� لغوی تشریح:
«مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةَ» جس نے ایک رکعت پا لی، یعنی مکمل ایک رکعت، قیام، قرأت فاتحہ اور رکوع و سجود پا لیے۔
«قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ» یعنی آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے، اور دوسری رکعت طلوع شمس کے بعد پڑھ لی۔
«فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحُ» تو اس نے صبح پالی، یعنی اس کی نماز ادا ہو گئی (قضا نہیں ہوئی۔)
فائدہ:
عین طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز کا آغاز ممنوع ہے لیکن اگر کسی نے نماز پہلے شروع کر لی پھر طلوع یا غروب آفتاب ہو گیا تو نمازی کو چاہیے کہ دوسری رکعت یا باقی رکعتیں پوری کر لے، اس کی نماز ہو جائے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا یہی مطلب ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ عصر کو ناقص وقت میں شروع کر کے ناقص وقت میں ختم کر رہا ہے، لہٰذا اس کی نماز ہو جائے گی کیونکہ جس طرح فریضہ عائد ہوا اسی طرح اس کی ادائیگی کی۔ اس کے برعکس فجر کو کامل وقت میں شروع کر کے ناقص وقت میں ختم کر رہا ہے، لہٰذا اس کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ جس طرح فریضہ عائد ہوا اسی طرح سے اس کی ادائیگی نہیں کی۔ اس طرح ایک ہی حدیث کے ایک ٹکڑے کو مانتے ہیں اور دوسرے ٹکڑے کا محض اپنے موقف کے خلاف ہونے کی وجہ سے، انکار کر دیتے ہیں اور «أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ» کا مصداق بنتے ہیں۔ یہ ہیں احناف کی فقہی موشگافیاں۔ «فَاعْتَبِرُوْا يٰاُوْلِي الْاَبْصَارِ» ۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 135
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 556
´جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے پڑھ سکا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَدْرَكَ أَحَدُكُمْ سَجْدَةً مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ، وَإِذَا أَدْرَكَ سَجْدَةً مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے (اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضاء) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ الْغُرُوبِ:: 556]
� تشریح:
اس حدیث کے ذیل حضرت العلام مولانا نواب وحیدالزماں خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تشریحی الفاظ یہ ہیں:
”اس پر تمام ائمہ اور علماء کا اجماع ہے۔ مگر حنفیوں نے آدھی حدیث کو لیا ہے اور آدھی کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عصر کی نماز تو صحیح ہو جائے گی لیکن فجر کی صحیح نہ ہو گی، ان کا قیاس حدیث کے برخلاف ہے اور خود ان ہی کے امام کی وصیت کے مطابق چھوڑ دینے کے لائق ہے۔“
بیہقی میں مزید وضاحت یوں موجود ہے:
«من ادرك ركعة من الصبح فليصل اليها اخري»
جو فجر کی ایک رکعت پا لے اور سورج نکل آئے تو وہ دوسری رکعت بھی اس کے ساتھ ملا لے اس کی نماز فجر صحیح ہو گی۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«ويوخذ من هذا الرد على الطحاوي حيث خص الادراك باحتلام الصبي وطهرالحائض واسلام الكافر ونحوها وارادبذلك نصرة مذهبه فى ان من ادرك من الصبح ركعة تفسد صلوٰته لانه لايكملها الافي وقت الكراهة انتهي۔ والحديث يدل على ان من ادرك ركعة من صلوٰةالصبح قبل طلوع الشمس فقد ادرك صلوٰة الصبح ولاتبطل بطلوعها كما ان من ادرك ركعة من صلوٰة العصر قبل غروب الشمس فقدادرك صلوٰة العصر ولاتبطل بغروبها وبه قال مالك والشافعي واحمد واسحاق و هوالحق۔» [مرعاة المفاتيح، ج 1، ص: 398]
اس حدیث مذکور سے امام طحاوی کا رد ہوتا ہے جنہوں نے حدیث مذکورہ کو اس لڑکے کے ساتھ خاص کیا ہے جو ابھی ابھی بالغ ہوا یا کوئی عورت جو ابھی ابھی حیض سے پاک ہوئی یا کوئی کافر جو ابھی ابھی اسلام لایا اور ان کو فجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے مل گئی تو گویا یہ حدیث ان کے ساتھ خاص ہے۔ اس تاویل سے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اپنے مذہب کی نصرت کرنا ہے۔ جو یہ ہے کہ جس نے صبح کی ایک رکعت پائی اور پھر سورج طلوع ہو گیا، تو اس کی نماز باطل ہو گئی اس لیے کہ وہ اس کی تکمیل مکروہ وقت میں کر رہا ہے۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ عام طور پر ہر شخص مراد ہے جس نے فجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس کی ساری نماز کا ثواب ملے گا اور وہ نماز طلوع شمس سے باطل نہ ہو گی جیسا کہ کسی نے عصر کی ایک رکعت سورج چھپنے سے قبل پا لی تو اس نے عصر کی نماز پا لی اور وہ غروب شمس سے باطل نہ ہو گی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمد و اسحاق رحمۃ اللہ علیہما سب کا یہی مذہب ہے اور یہی حق ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 556
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 579
´فجر کی ایک رکعت کا پانے والا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ " . . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے فجر کی ایک رکعت (جماعت کے ساتھ) سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس نے فجر کی نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔ اور جس نے عصر کی ایک رکعت (جماعت کے ساتھ) سورج ڈوبنے سے پہلے پا لی، اس نے عصر کی نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْفَجْرِ رَكْعَةً:: 579]
� تشریح:
اب اسے چاہئیے کہ باقی نماز بلا تردد پوری کر لے۔ اس کو نماز وقت ہی میں ادا کرنے کا ثواب حاصل ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 579
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 580
´جو کوئی کسی نماز کی ایک رکعت پالے، اس نے وہ نماز پالی`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلَاةِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ " . . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک رکعت نماز (باجماعت) پا لی اس نے نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصَّلاَةِ رَكْعَةً:: 580]
تشریح:
اگلا باب فجر اور عصر کی نمازوں سے خاص تھا اور یہ باب ہر نماز کو شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس نماز کی ایک رکعت بھی وقت گزرنے سے پہلے مل گئی گویا اسے ساری نماز مل گئی اب اس کی یہ نماز ادا ہی مانی جائے گی قضا نہ مانی جائے گی۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس پر سارے مسلمانوں کا اجماع ہے پس وہ نمازی اپنی نماز پوری کر لے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کسی نماز کا وقت ایک رکعت پڑھنے تک کا باقی ہو اور اس وقت کوئی کافر مسلمان ہو جائے یا کوئی لڑکا بالغ ہو جائے یا کوئی دیوانہ ہوش میں آ جائے یا حائضہ پاک ہو جائے تو اس نماز کا پڑھنا اس کے اوپر فرض ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 580
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 556
´جب کوئی شخص ایک رکعت نماز عصر یا فجر سورج ڈوبنے یا طلوع ہونے سے قبل پائے تو وہ اپنی باقی نماز کو پورا کر لے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَدْرَكَ أَحَدُكُمْ سَجْدَةً مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ، وَإِذَا أَدْرَكَ سَجْدَةً مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُا . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے (اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضاء) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 556]
� فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
حدیث اور ترجمۃ الباب میں مناسبت یہ ہے کہ جو حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص ایک رکعت نماز عصر یا فجر سورج ڈوبنے یا طلوع ہونے سے قبل پائے تو وہ اپنی باقی نماز کو پورا کر لے اور یہ اس کی ادا ہے قضاء نہیں ہے۔
مگر ترجمۃ الباب اور حدیث میں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے «ركعة» کا ذکر فرمایا ہے، مگر حدیث میں «سجدة» کا ذکر ہے رکعت کا نہیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«كانه اراد تفسير الحديث، و ان المراد بالسجدة الركعة» [فتح الباري، ج3/33]
”گویا کہ آپ نے تفسیر حدیث کا ارادہ فرمایا ہے اور یہ کہ مراد سجدے سے رکعت کے ہیں۔“
◈ ابن الملقن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وفي رواية للسراج فى ”مسنده“ من ادرك ركعة قبل ان تطلع الشمس، ركعة بعد ما تطلع فقد ادرك، و أخرجه مسلم ايضاً من حديث عائشة، من ادرك من العصر سجدة قبل ان تغرب الشمس او من الصبح قبل ان تطلع الشمس فقد ادركها، والسجدة وانها هي ركعة وهو من افراده ايضاً» [التوضيح، ج6، ص198]
”مسند سراج میں ہے کہ جب کسی نے ایک رکعت پائی سورج کے طلوع ہونے سے قبل اور ایک رکعت بعد طلوع پس یقیناًً اس نے اپنی نماز کو پا لیا۔ صحیح مسلم میں بھی ہے کہ جس نے عصر کا سجدہ پا لیا قبل سورج کے غروب کے یا صبح کو قبل طلوع ہونے سے رکعت پا لی اور یہاں سجدے سے مراد رکعت ہے۔“
امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد سجدے سے رکعت کے ہیں جس طرح کے پیچھے گزرا اسی پر منطبق ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب جہاں سے انہوں نے رکعت کو ظاہر کیا ہے۔
دوسری حدیث جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کبھی آدمی کو بعض عمل کرنے سے کل کا ثواب مل جاتا ہے جیسے کہ عصر سے شام تک کام کرنے والے کو مکمل دن کی مزدوری دے دی گئی (جیسا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے) پس یہ نظیر ہے اس کی جس کو ایک رکعت پانے سے ساری نماز کا ثواب ملے پس یہی ہے مناسبت ان حدیثوں کی ترجمۃ الباب سے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قال الحافظ: حديث ابن عمرو حديث ابي موسى فى هذه الترجمة ليدل على انه قد يستحق بعمل البعض اجر الكل، مثل الذى اعطي من العصر الى الليل اجر النهار كله، فهو نظير من يعطي اجر الصلاة كلها و لو لم يدرك الا ركعة، و بهذا تظهر مطابقة الحديثين للترجمة .» [انظر فتح الباري لابن حجر ج2 ص49]
غرض امام بخاری رحمہ اللہ ابن عمر اور موسی رضی اللہ عنہما کی ان دونوں حدیثوں کو یہاں لانے سے یہ ہے کہ کبھی آدمی کو بعض عمل کرنے سے کل کا ثواب مل جاتا ہے جیسے کہ عصر سے شام تک کام کرنے والے کو کل دن کی مزدوری دی گئی پس یہ نظیر ہے اس کی جس کو ایک رکعت پانے سے ساری نماز کو ثواب ملے پس یہی وجہ ہے مناسبت ترجمۃ الباب اور حدیث کی۔
حافظ صاحب مزید فرماتے ہیں!
اس سے اور اس کے بعد والی حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ عمل کے جزء پر پوری مزدوری ملتی ہے اسی طرح جو کوئی فجر یا عصر کی ایک رکعت پا لے اس کو بھی اللہ تعالیٰ ساری نماز وقت پر پڑھنے کا ثواب عطا کر سکتا ہے۔ (مندرجہ بالا حدیث میں مسلمانوں کا ذکر بھی ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ) کام تو کیا صرف مغرب تک لیکن سارے دن کی مزدوری ملی۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے شرط پوری کی، شام تک کام کیا اور کام پورا کیا۔ آگے دو گروہ نے اپنا نقصان خود کیا کام کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ گئے اور محنت بھی مفت گئی۔
◈ شاہ ولی اللہ محدث الدہلوی رحمہ اللہ تطویق دیتے ہوئے فرماتے ہیں!
”امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے باب قائم کرنے پر (کہ یہ اس طرف) اشارہ ہے کہ نمازی اگر غروب سے قبل ایک رکعت کو پا لے گا تو اس کی نماز جائز ہو گی اور اسے قضا کرنے کی حاجت نہ ہو گی۔“ [شرح تراجم ابواب البخاري ص188]
◈ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و مقصود الحديث تفضيل هذه الامة و توفير اجرها مع قلة عملها» [كشف المشكل ج1، ص229]
مذکورہ بالا حدیث میں جو مقصود ہے وہ اس امت (امت محمدیہ) کو مکمل اجر دینا ہے، جو کہ کم عمل پر مبنی ہے۔
فائدہ:
مندرجہ بالا احادیث میں جو مثالیں یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کے لئے دی گئی ہیں۔ یہودیوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو مانا اور تورات پر چلے لیکن اس کے بعد انجیل شریف اور قرآن مجید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف ہو گئے اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا تو ان دونوں فرقوں کی محنت برباد ہو گئی اور آخرت میں اجر سے بھی محروم رہے۔ آخر زمانے میں مسلمان آئے اور انہوں نے تھوڑی مدت ہی محنت کی مگر کام پورا کیا کہ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو مانا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مانا اور تمام آسمانی کتابوں پر بھی ایمان لائے لہٰذا سارے ثواب کا بہت بڑا حصہ ان کے حصے میں آگیا۔ «ذَلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ» [الجمعة 4/62] [تيسير الباري شرح صحيح البخاري ج1، ص277]
ایک اشکال:
مندرجہ بالا حدیث سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہود و نصاری کے مقابلے میں مسلمانوں کی موت انتہائی کم معلوم ہوتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہود کی موت زیادہ سے زیادہ دو ہزار سال ہے۔ لہٰذا یہ کوئی اشکال والی بات نہیں۔ مگر نصاریٰ کی مدت زیادہ سے زیادہ چھ سو برس ہے، جب کہ مسلمانوں کو چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ اور اس کا بھی علم نہیں کہ قیامت تک کتنے اور سال بڑھیں گے۔ حالانکہ روایت میں یہود و نصاریٰ کی عمر کو طویل تسلیم کیا گیا ہے۔ جبکہ امت محمدیہ کی عمر کو کم قرار دیا گیا ہے۔
الجواب:
مذکورہ بالا حدیث میں امت کا تقابل ہرگز نہیں کروایا جا رہا ہے، بلکہ امت کے افرادوں کی عمر سے تقابل کروایا جا رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کی عمر ساٹھ سے ستر سال تک ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث میں احاد و افراد امت کا تقابل آحاد سے کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ لفظ قیراط کو تکرار کے ساتھ قیراطاً، قیراطاً اور قیراطین، قیراطین ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں آحاد کا آحاد سے تقابل منقول ہے، جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہم لوگ عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہاری عمریں گزری ہوئی امتوں کے عمروں کے مقابلہ میں ایسی ہیں جیسے گزرے ہوئے دن کے مقابلے میں دن کا بقییہ حصہ۔“ [مسند أحمد بن حنبل، ج10، رقم الحديث 5966، حديث صحيح لغيره، بتحقيق شعيب الارناوط، رواه الطبراني فى الكبير رقم الحديث 13519]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 172
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 144
´رکوع میں ملنے والے کی رکعت`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ادرك الركعة من الصلاة فقد ادرك الصلاة . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز کی ایک رکعت پا لے تو اس نے نماز پا لی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 144]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 580، ومسلم 607، من حديث ما لك به۔]
تفقه:
➊ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے «إذا فاتتك الركعة فقد فاتتك السجدة» اگر تمہاری رکعت فوت ہو گئی تو تمہارا سجدہ (بھی) فوت گیا۔ [موطا امام مالك10/1 ح15 وسنده صحيح]
➋ رکوع کی رکعت کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سلف صالحیین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ہمارے نزدیک احادیث صحیحہ اور فہم سلف صالحین کی روشنی میں راجح یہی ہے کہ رکوع میں ملنے والے کی رکعت نہیں ہوتی کیونکہ اس سے نماز کا ایک اہم رکن رہ جاتا ہے یعنی سورۂ فاتحہ جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
◄ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«لا يجزئك إلا أن تدرك الإمام قائماً قبل أن تركع»
”تیری رکعت اس وقت تک کافی نہیں ہوتی جب تک رکوع سے پہلے امام کو حالت قیام میں نہ پا لے۔“ [جزٔ القراء للبخاري:132، وسنده حسن،]
◄ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”سورہ فاتحہ پڑھے بغیر تم میں سے کوئی بھی رکوع نہ کرے۔“ [جزٔ القراء للبخاري:133، وسنده صحیح]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَقَدْ أَدْرَكَهَا وَلْيُضِفْ إِلَيْهَا أُخْرَى»
”جس نے جمعہ کے دن (جمعہ کی نماز کی ایک رکعت پڑی تو اس نے نماز پائی اور وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے۔“ [سنن الدارقطني 323/2ح 1608، وسنده حسن]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو جمعہ کے دن ایک رکعت بھی نہ پائے تو وہ چار رکعتیں پڑھے گا۔ اخبار ایمان لابی نعیم الاصبہانی [2004] کی جس روایت میں آیا ہے کہ جمعہ نہ پانے والا (بھی) دو رکعتیں پڑھے گا یہ روایت محمد بن نوح بن حمد الشیبانی السمسار کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 23
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 200
´جو شخص سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت صبح کی پڑھ لے`
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من ادرك من الصبح ركعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح، ومن ادرك من العصر ركعة قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے سورج کے طلوع ہونے پہلے صبح (کی نماز) میں سے ایک رکعت پائی تو اس نے صبح (کی نماز) پالی اور جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر (کی نماز) میں سے ایک رکعت پائی تو اس نے عصر (کی نماز) پا لی . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 200]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 579، ومسلم 608، من حديث مالك به]
تفقه:
① دیکھئے حدیث سابق: 96
② اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ جو شخص سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت صبح کی پڑھ لے اور پھر سورج طلوع ہو جائے تو اس نے صبح کی نماز پالی ہے لہٰذا وہ اب دوسری رکعت پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیرے گا اور اس کی صبح کی نماز ہو گئی ہے۔ بعض الناس کہتے ہیں کہ ”ایسی حالت میں صبح کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔“ ان لوگوں کا یہ قول بلا دلیل اور باطل ہے۔ اس مسئلے پر بے دلیل بحث کرتے ہوئے رشید أحمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا: ”غرضیکہ یہ مسئلہ ابھی تک تشنۂ تحقیق ہے، معہذا ہمارا فتویٰ اور عمل امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا اس لئے کہ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لئے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلۂ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفۂ مجتہد ہے۔“ [ارشاد القاري اليٰ صحيح البخاري ص412]
اس اعتراف سے کئی باتیں معلوم ہوئیں:
اول:
تقلیدی حضرات قرآن، حدیث اور اجماع کو حجت نہیں مانتے بلکہ اپنے امام کی طرف منسوب اپنے مفتیٰ بہ قول کو حجت مانتے ہیں۔
دوم:
آلِ تقلید کے نزدیک ایک ہی حدیث کا آدھا حصہ واجب العمل اور دوسرا آدھا حصہ قابلِ عمل نہیں ہے۔
سوم:
آلِ تقلید کے نزدیک دلیل نہ ہونے کے باوجود بے دلیل بات سے چمٹنے رہنا چاہئے۔
چہارم:
تقلید کا موذی مرض انکار حدیث کی بنیاد ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 169
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 412
´عصر کے وقت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز عصر پالی، اور جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز فجر پالی۔“ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 412]
412۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ بالا حدیث صاحب عذر کے لیے ہے مثلاً جب کوئی سوتا رہ گیا ہو یا بھول گیا ہو اور بالکل آخر وقت میں جاگا ہو یا آخر وقت میں نماز یاد آئی ہو تو اس کے لیے یہی وقت ہے۔ مگر جو بغیر کسی عذر کے تاخیر کرے تو اس کے لیے انتہائی مکروہ ہے جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آ رہا ہے۔ نماز عصر کے وقت کے سلسلے میں امام نووی رحمہ اللہ کا درج ذیل بیان جو انہوں نے شرح صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے بہت اہم ہے: ”ہمارے اصحاب (شوافع) کہتے ہیں کہ نماز عصر کے پانچ وقت ہیں: (1) وقت فضیلت۔ (2) وقت اختیار۔ (3) وقت جواز بلاکراہت۔ (4) وقت جواز بالکراہت۔ (5) وقت عذر۔
وقت فضیلت اس کا اول وقت ہے اور وقت اختیار ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے تک ہے اور وقت جواز سورج زرد ہونے تک ہے اور وقت جواز مکروہ سورج غروب ہونے تک ہے اور وقت عذر، ظہر کا وقت ہے یعنی جب کوئی شخص سفر یا بارش وغیرہ کے عذر کی بنا پر ظہر اور عصر کو جمع کر لے۔ اور جب سورج غروب ہو جائے تو یہ نماز قضا ہو گی۔“ انتھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 412
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 893
´آدمی جب امام کو سجدہ کی حالت میں پائے تو کیسے کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز میں آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ میں چلے جاؤ اور تم اسے کچھ شمار نہ کرو، اور جس نے رکعت پالی تو اس نے نماز پالی۔“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 893]
893۔ اردو حاشیہ:
➊ مسبوق یعنی امام سے پیچھے رہ جانے والا تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کرے اور امام کے ساتھ مل جائے۔ وہ جس حالت میں بھی ہو۔
➋ زیر نظر حدیث میں «الركعة» کا ترجمہ ہم نے ”رکعت“ کیا ہے، جب کہ کچھ علماء یہاں اس سے مراد ”رکوع“ لیتے ہیں۔ ہمارے مشائخ اور علمائے پاک و ہند کی ایک کثیر تعداد اس سے رکعت ہی مراد لیتی ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی منقو ل ہے۔ جیسے کہ شوکانی نے نیل الاوطار [2/245۔ 244] میں یہ بحث کی ہے۔ وہ تمام حضرات آئمہ کرام جو وجو ب فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں، وہ رکوع کی رکعت کے قائل نہیں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ، امام ابن خزیمہ، تقی الدین سبکی اور دیگر علمائے شافعیہ اسی طرف گئے ہیں۔ تاہم رکوع میں مل جانے سے رکعت کے قائلین کی تعداد بھی کافی ہے، مگر راحج یہی ہے کہ رکعت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ ایک قیام اور دوسری قرأت اور رکوع میں ملنے والا ان دونوں سے محروم رہتا ہے۔ لہٰذا رکوع میں ملنے سے رکعت کو دہرانا زیادہ راحج ہے۔ «والله اعلم»
اور اس قسم کے مسائل میں عوام الناس کو اپنے ہاں کے قابل اعتماد محقق علماء سے رابطہ کرنا چاہیے۔
➌ مدرک رکوع کے مسئلے کی مذید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو حدیث نمبر [283] کے فوائد۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 893
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1121
´جس نے نماز جمعہ کی ایک رکعت پائی اس نے جمعہ پا لیا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی تو اس نے وہ نماز پا لی۔“ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1121]
1121۔ اردو حاشیہ:
جس شخص نے جمعہ جماعت اور نماز کے وقت میں ایک رکعت پا لی۔ اس نے نماز کی ادائیگی اور فضیلت پا لی۔ اس طرح جمعہ کی ایک رکعت پائے، تو ایک رکعت اور پڑھے۔ ورنہ چار رکعت مکمل کرے۔ آئمہ کرام سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق یہی بیان کرتے ہیں۔ علامہ محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی نے مسلک احناف کو ترجیح دی ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ نماز کا کچھ حصہ بھی پا لے چاہے تشہد ہی کیوں نہ ہو تو وہ باقی نماز دو کعت ہی جمعہ کی پوری کرے گا اور ظہرکی نماز نہیں پڑھے گا۔ «والله أعلم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1121
الشيخ غلام مصطفے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 579
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من أدرك من الصّبح ركعة قبل أن تطلع الشّمس، فقد أدرك الصّبح، ومن أدرك من العصر ركعة قبل أن تغرب الشّمس، فقد أدرك العصر .»
”جس نے طلوعِ آفتاب سے پہلے نماز ِ صبح کی ایک رکعت پالی، اس نے نماز ِ صبح پالی اورجس نے غروب ِ آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھ لی، اسے نے عصرکی نماز پالی۔“
[صحيح بخاري: ١/٨٢، ح: ٥٧٩، صحيح مسلم: ١/٢٢١، ح: ٦٠٧]
فوائد و مسائل
یہ روایت صحیح مسلم (٦٠٩) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔
یہ حدیث ِ مبارک اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ جس نے غروب ِ آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی، باقی رکعات ادا کر لے تو اس کی نماز عصر صحیح ہے، اگر طلوعِ آفتاب سے پہلے نماز ِ فجر کی ایک رکعت پالی، دوسری رکعت ادا کرنے پر نماز ِ فجر ادا ہو جائے گی۔
◈ اس حدیث کے تحت حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
«هذا دليل صريح فى أن من صلى ركعة من الصبح أو العصر، ثم خرج الوقت قبل سلامه، لا تبطل صلاته، بل يتمها، وهى صحيحة، وهذا مجمع عليه فى العصر، وأما فى الصبح، فقال به مالك والشافعي وأحمد والعلماء كافة الا أبا حنيفة قال: تبطل صلاة الصبح بطلوع الشمس فيها، لأنه وقت النهي من الصلاة بخلاف غروب الشمس والحديث حجة عليه .»
”یہ حدیث بین دلیل ہے کہ جس نے صبح یا عصر کی نماز کی ایک رکعت پڑھی، پھر سلام پھیرنے سے پہلے اس نماز کا وقت ختم ہو گیا، اس کی نماز باطل نہیں ہو گی، بلکہ وہ اپنی نماز کو پورا کرے گا اور اس کی نماز صحیح ہے۔ عصر کے بارے میں تو اجماع ہے، فجر کے بارے میں امام ابوحنیفہ کے علاوہ باقی سب ائمہ مثلاً امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہم اسی کے قائل ہیں، مگر امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر نماز ِ فجر کے دوران سورج طلوع ہو گیا تو نماز باطل ہو جائے گی، کیونکہ یہ نماز کا ممنوع وقت ہے، جبکہ غروب ِ آفتاب کا وقت ممنوع نہیں، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔“ [شرح صحيح مسلم للنووي: ١/٢٢١۔٢٢٢]
◈ امام ابن المنذر نیسابوری رحمہ اللہ (م ٣١٨ھ) لکھتے ہیں:
«قد جعل النبيّ صلّى اللّٰه عليه وسلّم من أدرك من العصر قبل أن تغرب الشّمس، ومن أدرك ركعة من الصّبح قبل أن تطلع الشّمس مدركا للصّلاتين وجمع بينهما، فلا معنيٰ لتفريق من فرق الشّيئين جمعت السّنّة بينهما، ولو جاز أن تفسد صلاة من جاء الي وقت لا تحلّ الصّلاة فيه ألزم أن تفسد صلاة من ابتدأها فى وقت لا تجوز الصّلاة فيها، وليس فيما ثبت عن رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلّم الّا التّسليم له وترك أن يحمل على القياس والنّظر ...» ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو نماز پانے والا قرار دیا ہے، جس نے غروب ِ آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی یا طلوعِ آفتاب سے پہلے صبح کی ایک رکعت پالی، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں نماز وں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے، چنانچہ سنت نے جن چیزوں کو جمع کیا ہے، انہیں الگ کرنا درست نہیں، اگر ایسے شخص کی نماز فاسد ہو گی، جس نے مکروہ وقت میں نماز ادا کی تو لازم تھا کہ اس کی نماز شروع ہی سے باطل ہو جاتی، حالانکہ جو کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اسے تسلیم کرنا اور قیاس پر محمول نہ کرنا ہی واجب ہے۔“ [الاوسط لابن المنذر: ٢/٣٤٩]
◈ کرمانی حنفی لکھتے ہیں:
«وفي الحديث أنّ من دخل الصّلاة، فصلّي ركعة وخرج الوقت كان مدركا لجميعها، وتكون أداء، وهو الصّحيح .»
”اس حدیث (ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ) سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص نماز میں داخل ہوا، اس نے ایک رکعت پڑھی تو وقت ختم ہوگیا، وہ ساری کی ساری نماز کو پانے والا ہے، یہی صحیح اور درست ہے۔“ [شرح صحيح البخاري: ٤/٢٠١]
------------------
➋ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اذا أدركت ركعة من صلاة الصّبح قبل أن تطلع الشّمس، فصلّ اليها أخري .»
”اگر آپ سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز ِ فجر کی ایک رکعت پالیں تو اس کے ساتھ دوسری رکعت بھی پڑھ لیں (نماز مکمل کر لیں)۔“ [مسند الامام احمد: ٢/٢٣٦، ٤٨٩، وسنده، صحيحٌ]
مسند احمد(٢/٤٩٠) میں ہی قتادہ رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
یہ حدیث ِ مبارکہ نصِ صریح ہے کہ جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز ِ فجر کی ایک رکعت پالی، وہ دوسری رکعت پڑھ کر نماز مکمل کرے گا۔
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
«وهذا اجماع من المسلمين، لا يختلفون فى أنّ هذا المصلّي فرض عليه واجب أن يأتي بتمام صلاة الصّبح وتمام صلاة العصر .»
”اس پر مسلمانوں کا بلا اختلاف اجماع ہے کہ ایسے نمازی پر نماز ِ صبح اور نماز ِ عصر مکمل کرنا واجب ہے۔“ [التمهيد لابن عبد البر: ٣/٢٧٣]
------------------
➌ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من صلّى سجدة واحدة من العصر قبل غروب الشّمس، ثمّ صلّى ما بقي بعد غروب الشّمس، فلم تفته العصر، وقال: ومن صلّى سجدة واحدة من الصّبح قبل طلوع الشّمس، ثمّ صلّى ما بقي بعد طلوع الشّمس، فلم تفته صلاة الصّبح .»
”جس شخص نے نماز ِ فجر کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھ لی، باقی ماندہ نماز سورج غروب ہونے کے بعد پڑھ لی، اس سے عصر کی نماز فوت نہیں ہوئی، فرمایا، اور جس نے نماز ِ فجر کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لی، باقی ماندہ نماز سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھی، اس کی صبح فوت نہیں ہوئی۔“ [مسند السراج: ٩٣٦، وسنده، صحيحٌ]
دیگر عمومی روایات بھی اس مسئلہ کی مؤید ہیں۔
«قال عبد اللّٰه: سألت أبى عن رجل صلّى بالغداة، فلمّا صلّى ركعة قام فى الثّانية، طلعت الشّمس، قال: يتمّ الصّلاة، هي جائزة .»
”عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اس شخص کا کیا حکم ہے، جس نے نماز ِ فجر پڑھی، جب رکعت ادا کر کے دوسری کے لیے کھڑا ہوا تو سورج طلوع ہو گیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، وہ اپنی نماز مکمل کرے، یہ جائز ہے۔“ [مسائل الامام احمد لابنه عبد الله: ٥٤۔٥٥]
------------------
اب ان صحیح احادیث ِ نبویہ اور اجماعِ امت کے خلاف فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
سوال: ”اگر صبح کی نماز پڑھتے پڑھتے آفتاب طلوع ہو جائے یا عصر کی نماز پڑھتے پڑھتے غروب ہو جائے تو کیا فجر وعصر کی نماز ادا ہو جائے گی؟“
الجواب: ”عصر کی نماز ہو جائے گی، فجر کی نہیں ہوگی۔”
[احسن الفتاوي از رشيد احمد ديوبندي لدهيانوي كراچوي: ٢/١٣١]
سوال: ”اگر فجر کی نماز میں آفتاب طلوع کرے تو نماز صحیح ہوگی یا نہیں؟“
الجواب: ”عندالحنفیہ نماز اس کی فاسد ہوگی، بعد طلوع وارتفاعِ آفتاب پھر صبح کی نماز اس کو پڑھنا چاہیے۔“ [فتاوي دارالعلوم ديوبند: ٤/٤٧]
بعض الناس کے یہ دونوں فتوے احادیث ِ صحیحہ اور اجماعِ امت کے خلاف ہیں، یہ حدیث کے ایک ٹکڑے پر عمل ہے، دوسرے کی مخالفت ہے، قرآنِ کریم میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے۔
«أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ» [البقرة: ٨٥]
”کیا تم کتاب کے بعض حصہ پر ایمان لے آتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو؟“ «فَاِلَي اللّٰهِ الْمُشْتَكيٰ!»
جناب محمد تقی عثمانی دیوبندی حیاتی صاحب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”حدیث ِ باب حنفیہ کے بالکل خلاف ہے، مختلف مشائخِ حنفیہ نے اس کا جواب دینے میں بڑا زور لگایا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی شافی جواب نہیں دیا جا سکا، یہی وجہ ہے کہ حنفیہ مسلک پر اس کو مشکلات میں شمار کیا گیا ہے۔“ [درسِ ترمذي از تقي عثماني: ١/٤٣٤]
نیز تقی عثمانی صاحب اس مسئلہ میں اپنے دلائل پر تبصرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”خود صاحب ِ معارف السنن (محمد یوسف بنوری دیوبندی) نے حضرت شاہ صاحب (انور شاہ کشمیری دیوبندی) کی اس توجیہ کو بہت مفصل اور موجہ کر کے بیان کیا ہے، لیکن آخر میں خود انہوں نے بھی یہ اعتراض کیا ہے شرح صدر اس پر بھی نہیں ہوتا، اس کے علاوہ ان تمام توجیہات پر ایک مشترک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کو اپنے ظاہر سے مؤوّل کرنا کسی نص یا دلیل شرعی کی وجہ سے ہو سکتا ہے اور اس معاملہ میں تفریق بین الفجر والعصر کے بارے میں حنفیہ کے پاس نصِ صریح نہیں، صرف قیاس ہے اور وہ بھی مضبوط نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں حنفیہ کی طرف سے کوئی ایسی توجیہ اب تک احقر (محمد تقی عثمانی)کی نظر سے نہیں گزری، جو کافی اور شافی ہو، اس لیے حدیث کو تروڑ مروڑ کر حنفیہ کے مسلک پر فٹ کرنا کسی طرح مناسب نہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرت (رشید احمد) گنگوہی نے فرمایا کہ اس حدیث کے بارے میں حنفیہ کی تمام تاویلات باردہ ہیں اور حدیث (ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ) میں کھینچ تان کرنے کے بجائے کھل کر یہ کہنا چاہیے کہ اس بارے میں حنفیہ کے دلائل ہماری سمجھ میں نہیں آ سکے، اور ان اوقات میں نماز پڑھنا ناجائز تو ہے، لیکن اگر کوئی پڑھ لے تو ہو جائے گی۔حضرت گنگوہی کے علاوہ صاحب ِ بحر الرائق (ابنِ نجیم حنفی) اور علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی نے بھی دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ (امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام مالک رحمها اللہ) کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام ابو یوسف سے ایک روایت یہ مروی ہے کہ طلوعِ شمس سے فجر کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔“ [درسِ ترمذي از تقي عثماني: ١/٤٣٩۔٤٤٠]
«اللّٰهم أرنا الحقّ حقّا وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه!»
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 15، حدیث/صفحہ نمبر: 27
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 515
´(سورج ڈوبنے سے پہلے) عصر کی دو رکعت پا لینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی دو رکعت ۲؎ یا سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے (نماز کا وقت) پا لیا ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 515]
515 ۔ اردو حاشیہ:
➊حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نما ز کا آغاز معتبر ہے، نہ کہ اختتام، یعنی جس نے نماز وقت میں شروع کرلی اور کم از کم ایک رکعت وقت پر پڑھ لی تو اس کی نماز ادا سمجھی جائے گی، نہ کہ قضا۔ (2)اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو نماز کے دوران میں سورج کے طلوع یا غروب ہونے سے نماز فاسد نہ ہو گی بلکہ نماز جاری رکھے اور مکمل کرے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ احناف نے فرق کیا ہے کہ فجر کی نماز پڑھتے پڑھتے سورج طلوع ہو جائے تو نماز فاسد ہو جائے گی کیونکہ مکروہ وقت نماز کے اندر شروع ہو گیا، البتہ عصر کی نماز میں سورج غروب ہو جائے تو نماز فاسد نہ ہو گی کیونکہ غروب سے پہلے بھی مکروہ وقت ہی تھا۔ لیکن یہ استدلال اور فرق بہت سی احادیث کے خلاف ہے اور یہ ایک قیاسی بات ہے جو نص کے مقابلے میں معتبر نہیں، اسی لیے اہل علم نے اسے قبول نہیں کیا۔
➌احناف نے اس اعتراض سے بچنے کے لیے اس حدیث کے معنیٰ یہ کیے ہیں کہ جس شخص نے ایک رکعت کا وقت پالیا، اس پر پوری نماز کا پڑھنا فرض ہے۔ مگر بعض روایات میں یہ صراحت ہے: «فلیتم صلاته» ”وہ اپنی نماز پوری کرے۔“ دیکھیے: [صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 556]
حدیث: 517 میں بھی یہ صراحت موجود ہے۔ یہ الفاظ ان کی اس تاویل کو رد کرتے ہیں۔
➍اس حدیث میں عصر کی دو رکعت پانے کا ذکر ہے جب کہ دیگر روایات میں ایک رکعت کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 579، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 608]
لہٰذا دو رکعت مل جائیں یا ایک، حکم یہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 515
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 186
´جسے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت مل جائے اسے عصر مل گئی۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے عصر پالی“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 186]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہو گیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضا نہیں،
یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہو گی،
اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی وہ اس روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہو گیا اور وہ نماز اس پر واجب ہوگئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا ہو یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی ہو یا کافر اسلام لایا ہو کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہوگی،
لیکن نسائی کی روایت جس میں ((فَلْيُتِمَّ صَلَاتَه)) کے الفاظ وارد ہیں اس تاویل کی نفی کرتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 186
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 524
´جسے جمعہ کی صرف ایک رکعت ملی اس کو جمعہ مل گیا۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے نماز میں ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 524]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی جماعت کی فضیلت اس نے پا لی،
یا اس نے نماز کا وقت پا لیا،
اس کے عموم میں جمعہ کی نماز بھی داخل ہے،
اس لیے جمعہ کی دو رکعتوں میں اگر کوئی ایک رکعت بھی پا لے تو گویا اس نے پوری نمازِ جمعہ جماعت سے پا لی۔
2؎:
کیا نمازِ جمعہ میں امام کے ساتھ دوسری رکعت کے کسی بھی حصے میں شامل ہونے والا ظہر کی پوری چار رکعت پڑھے گا یا صرف دو رکعت مکمل کرے گا؟ اس موضوع پر تفصیل جاننے کے لیے ”قول ثابت اردو شرح مؤطاامام مالک“ کی ”کتاب وقوف الصلاۃ کے باب وقت الجمعۃ“ کا مطالعہ کر لیں،
بموجب صحیح مسلک بالاختصار یہ ہے کہ ایسا مقتدی دو رکعت ہی پڑھے،
چار نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 524
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:976
976- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو شخص کسی نماز کی ایک رکعت پالے وہ اس نماز کو پالیتا ہے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:976]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 975
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:556
556. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لے تو وہ اپنی نماز کو پورا کر لے۔ اور جو شخص طلوع آفتاب سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لے تو وہ اپنی نماز کو پورا کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:556]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان میں رکعت کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں ایک سجدے کے پا لینے کا بیان ہے۔
امام بخاری ؒ اس عنوان کے ذریعے سے حدیث کی تشریح کرتے ہیں کہ اس مقام پر سجدے سے مراد رکعت ہے کیونکہ سجدے پر رکعت مکمل ہوتی ہے، اس لیے آخری جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں بعض روایات میں"سجدة" کے بجائے"رکعة" کا لفظ ہے۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 579) (2)
ادراک کے معنی یہ ہیں کہ ایک رکعت پا لینے سے اسے نماز کا وقت مل گیا ہے، اسے چاہیے کہ بقیہ رکعات ادا کرکے اپنی نماز مکمل کر لے۔
جیسا کہ سنن بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ جس نے طلوع شمس سے پہلے صبح کی ایک رکعت پڑھی اور دوسری رکعت طلوع آفتاب کے بعد ادا کی تو اس نے نماز کو پا لیا۔
اور اس سے زیادہ صراحت کے ساتھ یہ روایت ہے کہ جس نے غرب آفتاب سےپہلے ایک رکعت پڑھ لی اور بقیہ رکعات کو غروب آفتاب کے بعد ادا کیا تو اس کی نماز عصر فوت نہیں ہوئی۔
(فتح الباري: 75/2)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری کا مقصود یہ ہے کہ اگر غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت بھی مل گئی، خواہ باقی رکعات غروب کے بعد پڑھی گئی ہوں تو بھی نماز ہو گئی، اسے قضا ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔
امام بخاری کو اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ امام شافعی نے وقت عصر کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:
٭وقت مستحب:
زوال آفتاب کے بعد جب کسی چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے۔
٭ وقت جواز قدرے فضیلت کےساتھ:
دومثل سایہ ہونے تک ہے۔
٭مجرد وقت جواز:
دومثل مکمل سایہ ہونے کے بعد دھوپ کے زرد ہونے تک ہے۔
٭وقت ضرورت:
زردئ آفتاب کے بعد درجۂ مجبوری کا وقت ہے۔
اس وقت تک مؤخر کرنے والا نمازی گناہ گار بھی ہو گا۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر نماز وقت ضرورت میں ادا کرے تو اگرچہ اس کا کچھ حصہ ہی کیوں نہ ہو، فریضۂ نماز ادا ہو جائے گا، یہ اور بات ہے کہ تاخیر کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔
مطلب یہ ہے کہ وقت ضرورت تک نماز مؤخر کرنے کے باوجود قضا اور اعادے کی ضرورت نہیں۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 556
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:579
579. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے طلوع آفتاب سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی، وہ نماز فجر پانے میں کامیاب ہو گیا۔ اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی وہ نماز عصر پانے میں کامیاب ہو گیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:579]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پانے سے ہی پوری نماز ادا ہو گئی اور اسے اب بقیہ نماز مکمل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھ لے تو اس نے نماز کے وقت ادا کو پالیا، اب وہ باقی ماندہ نماز طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے بعد پڑھے گا تو بھی اسے ادا نماز ہی کا ثواب ملے گا۔
نماز کاجوحصہ وقت نکلنے کے بعد پڑھا گیا ہے، اسے بھی ادا ہی شمار کیا جائے گا، وہ قضا میں شامل نہیں ہوگا۔
جمہور محدثین کے ہاں حدیث کا یہی مفہوم ہے۔
مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:
”جس نے طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت پالی اور ایک طلوع آفتاب کے بعد پڑھی تو اس نے پوری نماز کو پالیا۔
اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھی اور پھر غروب آفتاب کے بعد باقی ماندہ نماز ادا کی تو اس کی نماز قضا نہیں ہوگی۔
“ (السنن الکبرٰی للبیھقی: 378/1) (2)
شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں:
اگر کسی کو نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پڑھنےکا وقت مل جاتا ہے تو وہ گویا پوری نماز وقت ادا ہی میں پڑھتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے پوری نماز کو پا لیا۔
اس حدیث کے الفاظ اس بات پر رہنمائی کرتے ہیں کہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اگر کسی نے ایک رکعت پڑھ لی ہے تو اس نے اس نماز کا وقت ادا پالیا ہے۔
اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم حصہ ملتا ہےتو وہ وقت ادا کو پانے والا نہیں ہوگا۔
اس طرح وقت ادا کے پالینے پر دوامرمرتب ہوتے ہیں:
٭بلاشبہ جس نے ایک رکعت کو پا لیا تو اس کی باقی ماندہ نماز بھی وقت ادا میں شمار ہوگی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دانستہ طور پر نماز مؤخر کرے کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام نماز وقت ادا میں مکمل کرے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ بیٹھا سورج کاانتطار کرتا رہتا ہے،جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان چلاجاتا ہے تو کھڑا ہوکر چار ٹھونگیں مار کر اسے مکمل کرلیتا ہے۔
وہ اس میں برائے نام ہی اللہ کاذکر کرتا ہے۔
“٭جو شخص کسی نماز کے وقت سے ایک رکعت ادا کرنے کی مقدار پالے، خواہ شروع وقت سے ہویاآخر وقت سے، اس پر پوری نماز ادا کرنا ضروری ہے۔
اس کی وضاحت درج ذیل دومثالوں سے کی جاتی ہے:
٭ایک عورت کو غروب آفتاب سے اتنی دیر بعد حیض آیا کہ وہ اس وقت میں ایک رکعت پڑھ سکتی تھی، لیکن اس نے نماز نہیں پڑھی تو اس کے ذمے پوری نماز مغرب کی ادائیگی ضروری ہے۔
حیض سے فراغت کے بعد وہ پوری نمازکی قضا کرے گی۔
٭اگر کسی عورت کو طلوع آفتاب سے اتنا وقت پہلے حیض سے طہارت حاصل ہوئی کہ اس وقت میں فجر کی ایک رکعت ادا کی جاسکتی ہوتو اس کے ذمے پوری نماز فجر کی ادائیگی ہے۔
اس کے برعکس اگر کسی عورت کو غروب آفتاب کے اتنی دیر بعد حیض آیا کہ اس میں ایک رکعت نہیں پڑھی جاسکتی تھی تو اس کے ذمے نماز مغرب کی ادائیگی نہیں ہوگی۔
اسی طرح اگر وہ طلوع آفتاب سےاتنا وقت پہلے حیض سے پاک ہوتی ہے کہ اس میں ایک رکعت نہیں پڑھی جاسکتی تھی تو اس کے ذمے نماز فجر کی ادائیگی ضروری نہیں ہے، کیونکہ دونوں صورتوں میں اسے کم ازکم ایک رکعت ادا کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔
(رسالة مواقیت الصلاة، ص: 16، 17) (3)
علامہ نووی ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ جس نے صبح یا عصر کی ایک رکعت پڑھی، لیکن سلام پھیرنے سے پہلے پہلے اس کا وقت ختم ہوگیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی، بلکہ وہ اسے مکمل کرے، ایسا کرنے سے اس کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔
عصر کے متعلق تو تمام علمائے امت کا اتفاق ہے، جبکہ نماز فجر کے متعلق امام ابو حنیفہ ؒ کے علاوہ تمام فقہاء کا یہ موقف ہے۔
امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ طلوع شمس سے اس کی نماز باطل ہوجائے گی، کیونکہ وہ اب ایسے وقت میں داخل ہوچکا ہے جس میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے بخلاف غروب شمس کے۔
یہ حدیث امام ابو حنیفہ کے موقف کی تردید کرتی ہے۔
(شرح الکرماني: 219/2) (4)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس مفہوم کی متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ احادیث علامہ طحاوی ؒ کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔
امام طحاوی ؒ کے نزدیک مذکورہ حدیث، بچے، کافر اور حائضہ عورت کے ساتھ خاص ہے، یعنی اگر بچے کی بلوغت، کافر کے اسلام اور حائضہ عورت کی طہارت کے کچھ دیر بعد سورج طلوع یا غروب ہوا کہ اس سے پہلے ایک رکعت پڑھنے کا وقت ہوتو ان پر اس نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔
دراصل امام طحاوی ؒ اس تخصیص کے ذریعے سے اپنے مذہب کی تائید کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت ہی پڑھ سکے تو اس کی نماز فاسد ہو گی، کیونکہ اس نے اپنی نماز کی تکمیل وقت کراہت میں کی ہے۔
جب مذکورہ حدیث ان کے اختیار کردہ موقف کے خلاف تھی تو انھوں نے اس حدیث کو بچے، کافر، عورت اور مسبوق وغیرہ کے ساتھ خاص کر دیا۔
(فتح الباري: 75/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 579
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:580
580. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے پوری نماز کو پا لیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:580]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں گزشتہ حدیث کے اعتبار سے عموم پایا جاتا ہے، کیونکہ اس میں یہی حکم صرف نماز فجر اور نماز عصر کےلیے بیان ہوا ہے جبکہ اس حدیث میں پانچوں نمازوں کو اس حکم میں شامل کردیا گیا ہے، البتہ اگرالصلاة کے "الف لام"عہد کا بنائیں تو اس سے مراد فجر اور عصر ہی ہوں گی۔
اس صورت میں دونوں عنوانات کا ایک ہی مطلب ہوگا جو بظاہر تکرار ہے، چنانچہ علامہ کرمانی ؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ تکرار نہیں، کیونکہ پہلے باب سے مراد ہے کہ جس نے ایک رکعت جتنا وقت پالیا اور اس باب کا مطلب ہےکہ جس نے ایک رکعت کو پالیا۔
(شرح الکرماني: 220/2) (2)
اس مقام پر حافظ ابن حجر ؒ نے ایک دقیق نکتہ بیان کیا ہے کہ امام بخاری ؒ جس مقام پر الفاظ حدیث کو اپنا کوئی عنوان قرار دیں اور حدیث کے الفاظ میں کوئی تبدیلی کریں تو اسی تبدیلی کے ساتھ وہ حدیث ضرور کہیں نہ کہیں موجود ہو گی، چنانچہ اس مقام پر حدیث میں (ركعة من الصلاة)
کے الفاظ ہیں جبکہ عنوان میں(من الصلاة ركعة)
کہا ہے تو اس تبدیلی کے ساتھ یہ حدیث بیہقی میں موجود ہے۔
اس سے احادیث کے متعلق امام بخاری ؒ کی وسعت علم کا پتہ چلتا ہے۔
(فتح الباري: 76/2) (3)
شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تقاضا ہےکہ کسی نماز کی ایک رکعت پالینے سے اس کا وقت ادا پایا جاتا ہے، یعنی اگر کسی نے کسی نماز کا اتنا وقت پالیا کہ اس میں صرف ایک ہی رکعت ادا کی جاسکےتو اس نے گویا مکمل نماز کوپالیا۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم ادا کرنے کا وقت ملا تو اس سے وقت ادا فوت ہوجاتا ہے۔
(رسالة مواقیت الصلاة، ص: 16)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 580
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 4
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے ایک رکعت نماز صبح کی آفتاب نکلنے سے پہلے پا لی تو وہ صبح کو پا چکا، اور جس شخص نے ایک رکعت نماز عصر کی آفتاب ڈوبنے سے پہلے پا لی تو اس نے عصر کو پا لیا۔ [موطا امام مالك: 4]
فائدہ:
اس جامع حدیثِ مبارکہ کے دو مفہوم ہیں:
➊ ایک یہ کہ جو شخص سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے فجر کی ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو اسے نماز شروع کر دینی چاہیے، ایسی صورت میں اس کی نماز کو ”ادا“ شمار کیا جائے گا نہ کہ قضاء اسی طرح نمازِ عصر کا معاملہ ہے، اگرچہ سورج کے طلوع یا غروب ہوتے ہی ان نمازوں کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کی ایک رکعت کے علاوہ باقی نماز وقت ختم ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے لیکن شریعت نے اس پر رحم و کرم فرماتے ہوئے اس کی ایک رکعت ہی کی برکت سے پوری نماز کو ادا شمار کیا ہے، یاد رہے کہ اس مفہوم کے مطابق اس حدیث کا تعلق عذر کی بنا پر نماز مؤخر ہو جانے سے ہے کہ کوئی شخص نیند، سفر یا بھول وغیرہ کی بنا پر نماز کو اوّل وقت یا درمیان وقت میں نہ پڑھ سکا ہو، جان بوجھ کر نماز عصر کو دھوپ زرد ہونے تک مؤخر کرنا منافق کی علامت ہے.... احناف بھائیوں کو چاہیے کہ تعصب چھوڑیں اور اس حدیث کے دونوں حصوں کو قابلِ اتباع سمجھیں، وہ عصر کے متعلق تو اسے تسلیم کرتے ہیں اور فجر والے حصے کو قیاس کے مخالف سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں، اللہ سے ڈریے، جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک صحیح سند سے ثابت ہو چکا تو پھر کیوں کسی امام، فقیہ اور اُمتی کی تقلید میں فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھکرایا جائے، یاد رکھیے اپنے مفاد اور خواہش کی خاطر یا اپنے ذہن اور سوچ کو ترجیح دیتے ہوئے شریعت کا کچھ حصہ مان لینے اور کچھ حصہ چھوڑ دینے والوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالی ہے:
«افتُؤْمِدُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزى فى الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ» [البقرة 2: 85]
”تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو، چنانچہ تم میں سے جو کوئی یہ کام کرے گا تو اس کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں کہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہو اور قیامت کے دن وہ سخت ترین عذاب کی طرف دھکیلے جائیں گے اور تم جو بھی عمل کرتے ہو اللہ اس سے ہرگز غافل نہیں ہے۔“
احناف نے محض اپنے امام کی تقلید میں اس حدیث میں بہت تاویلات کرنے کی کوشش کی لیکن اس آیت کے پیش نظر دل کہاں مطمئن ہونا تھا، اس لیے بعض نے دوسرے راستے اختیار کرنا چاہے لیکن اپنے امام کا قول بھی نہ چھوڑا تو پھر کچھ نے اس حدیث کو منسوخ کہہ کر بالکل ہی ترک کر دیا اور بعض نے اس حدیث کے واضح الفاظ میں تحریف معنوی کا ارتکاب بھی کیا اور حدیث کے راویوں کو وہم اور سوءِ فہم میں مبتلا قرار دینے کی جسارت بھی کی، احناف میں سے شیخ عبدالحٔی لکھنوی ہی کو تو فیق ملی کہ ”شرح وقایہ“ کے حاشیے میں انھوں نے جمہور فقہاء کی طرح اس حدیث کے دونوں حصوں کو تسلیم کیا۔ [مزيد تفصيل كے ليے ديكهيے۔ مرعاة المفاتح: 308/2 -311]
➋ اس حدیث کے جامع الفاظ میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اگر کوئی کافر اس وقت اسلام قبول کرے جب نماز کا وقت ختم ہونے میں صرف ایک رکعت کی ادائیگی کا وقت باقی ہو تو وہ نماز اس کے ذمے لازم ہو جاتی ہے جسے بعد میں پڑھنا اس پر فرض ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بچہ ایسے ہی وقت میں بالغ ہو جائے یا کوئی عورت حیض یا نفاس سے پاک ہو جائے تو وہ نماز ان کے ذمے بھی فرض ہو جاتی ہے۔
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 4
الشيخ حافظ ابو سمیعہ محمود تبسم، فوائد، موطا امام مالک : 14
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایک رکعت نماز میں سے پا لی تو اس نے وہ نماز پا لی۔“ [موطا امام مالك: 1]
فائدہ:
اس جامع حدیث مبارکہ کے متعدد مفہوم بیان کیے جاتے ہیں، مثلاً:
➊ جس نے کسی نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت ادا کر لی تو اس کی پوری نماز ادا شمار ہو گی، نہ کہ قضا۔
➋ جن لوگوں پر نماز فرض نہ ہو۔ مثلا نابالغ، مجنون اور حیض و نفاس والی عورت وغیرہ، تو اگر کسی نماز کا وقت ختم ہونے سے صرف ایک رکعت کی مقدار پہلے ان کا عذر ختم ہو جائے تو وہ نماز اُن پر لازم ہو جاتی ہے، چنانچہ اگر مثلاً وقتِ ظہر کے اختتام میں ابھی ایک رکعت کی ادائیگی کے برابر وقت باقی تھا کہ بچہ بالغ ہو گیا، مجنون کو افاقہ ہو گیا، حیض و نفاس ختم ہو گئے یا کافرمسلمان ہو گیا تو اب نمازِ ظہر ان کے ذمے واجب ہو گی۔
➌ جس نے جماعت کے ساتھ ایک رکعت پا لی تو اسے پوری جماعت کا ثواب مل گیا۔ لیکن یہ مطلب اس لیے صحیح نہیں کہ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جسے ایک رکعت سے کم جماعت ملی اُسے جماعت کا ثواب نہیں ملے گا، حالانکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا فرمان مبارک ہے:
«مَن تَوَضَّأَ فَاحْسَنَ وُضُوءَ، ثُمَّ رَاحَ فَوَجد النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا أَعْطَاهُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ مِثْلَ أَجْرٍ مَنْ صَلاهَا وَحَضَرَهَا»
جس شخص نے بہترین وضو کیا، پھر (جماعت کی طرف) گیا تو لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ نماز سے فارغ ہو چکے ہیں تو اللہ عزوجل اُسے (اس کی خالص نیت ہی کی وجہ سے) اُس شخص کی طرح اجر عطا فرما دیتے ہیں جس نے جماعت میں حاضر ہو کر نماز ادا کی ہو۔“
یہ روایت زیر مطالعہ حدیث کے مخالف و معارض نہیں کیونکہ یہ روایت اس شخص کے بارے میں ہے جو کوشش کر کے آتا ہے اور گھر سے ایک خاص حالت یعنی اچھی طرح وضو کر کے آتا ہے لیکن نماز نہیں پا سکا تو اسے پوری نماز کا ثواب ملے گا، زیر مطالعہ حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو آ کر نماز میں شامل ہو گیا تو ایک رکعت پانے سے وہ مدرک نماز شمار ہو گا۔
[ابوداود: 564، نسائي: 856، اس كي سند حسن لغيره هے۔ نيز ديكهيے ابو داود: 563]
➍ جس نے امام کے ساتھ پوری رکعت پالی تو وہ امام کی جماعت والی نماز کا حکم حاصل کر لے گا اور اسے امام کے سجدۂ سہو میں شریک ہونا پڑے گا اور اگر مسافر ہے تو مقیم امام کی طرح چار رکعتیں پڑھے گا۔۔
لیکن یہ مفہوم بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ آدمی امام کے سلام پھیرنے سے پہلے پہلے اس کے ساتھ شامل ہو جائے تو خواہ اُسے پوری رکعت نہ بھی ملے اُسے امام کے ساتھ سجدہ سہو وغیرہ کرنا پڑے گا،
کیونکہ فرمانِ مصطفی صلى الله عليه وسلم ہے:
«إِنَّمَا جُعِلَ الاِمَامُ لِيُؤْتُم بِهِ فَلَا تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ»
”يقينا امام تو صرف اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے، لہذا تم اس سے اختلاف نہ کرو۔“
[صحيح مسلم: 414، نيز ديكهيے، صحيح بخاري: 378]
اور فرمایا:
«إِذَا أَتٰى أَحَدُكُمُ الصَّلاةَ وَالاِمَامُ عَلَى حَالٍ فَلْيَصْنَعُ كَمَا يَصْنَعُ الامام»
”جب تم میں سے کوئی نماز کو آئے اور امام کسی بھی حالت میں ہو تو اسے وہی کچھ کرنا چاہیے جو امام کر رہا ہو۔“
[ترمذي: 591، الصحيحة: 1188]
➎ جس نے نماز جمعہ سے ایک رکعت پالی تو اس نے جمعہ کی نماز کا حکم پالیا۔ اب وہ صرف ایک رکعت ہی بعد میں ساتھ ملائے گا۔ جیسا کہ بعض روایات میں اس کی وضاحت ہے۔
[ابن ماجه: 1121- اس كي سند صحيح ہے]
اور جس نے امام کے ساتھ جمعہ کی پوری رکعت نہ پائی تو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد نمانے ظہر کی نیت سے چار رکعات پڑھے گا، جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے، لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، امام ابن حزم رحمہ اللہ اور اہل حدیث کے ہاں اگر کوئی شخص امام کی کسی بھی نماز میں اس کے سلام پھیرنے سے پہلے پہلے شامل ہو جائے تو وہ امام کی ادا کی ہوئی نماز ہی کا حکم پا کر باقی ماندہ رکعات پوری کرے گا، کیونکہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُوا»
”تو تم جو کچھ امام کے ساتھ پالو وہ پڑھ لو اور جو تم سے رہ گیا ہو وہ بعد میں پورا کر لو۔“
[بخاري: 635، مسلم: 602]
رہی ابن ماجہ والی روایت جسے امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے دلیل بنایا ہے تو اس کی وضاحت آگے [حديث: 235] کے فائدہ میں دیکھیے۔
➏ رکعت سے مراد رکوع ہو تو مفہوم یہ ہو گا کہ جس شخص نے امام کے ساتھ رکوع میں شرکت کر لی تو اس کی وہ رکعت شمار ہو جائے گی۔ یعنی مدرِکِ رکوع، مذرک رکعت شمار ہو گا، جیسا کہ جمہور، ائمہ اربعہ رحمہ اللہ، شیخ ابن باز رحمہ اللہ، علامہ البانی رحمہ اللہ اور سعودی مجلسِ افتا6 وغیرہ سب اسی کے قائل ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ بھی چونکہ یہی موقف رکھتے ہیں اس لیے وہ اس حدیث پاک کے بعد اسی مفہوم کے موافق چند اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم ذکر کر رہے ہیں۔
لیکن امام بخاری رحمہ اللہ، شوکانی رحمہ اللہ، ابن حزم رحمہ اللہ اور اہل حدیث حضرات کے ہاں وہ رکعت شمار نہیں ہوتی جس میں سورۃ فاتحہ اور قیام نہ ہو کیونکہ فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
«لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَّمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكتاب»
”جس کسی نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔“
[بخاري: 756، مسلم: 344]
اور چونکہ ہر ہر رکعت مستقل نماز کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے اہل حدیث کا دعویٰ یہ ہے کہ کسی کی کوئی رکعت بغیر فاتحہ کے نہیں ہوتی۔ [والله أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ]
موطا امام مالک از ابو سمیعہ محمود تبسم، حدیث/صفحہ نمبر: 14