(مرفوع) حدثنا حسين بن معاذ، حدثنا عبد الاعلى، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن ابي رافع، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا دعي احدكم إلى طعام فجاء مع الرسول، فإن ذلك له إذن" , قال ابو علي اللؤلئي: سمعت ابا داود يقول: قتادة لم يسمع من ابي رافع شيئا. (مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى طَعَامٍ فَجَاءَ مَعَ الرَّسُولِ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَهُ إِذْنٌ" , قال أَبُو عَلِيٍّ الْلُّؤْلُئِيُّ: سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ يَقُولُ: قَتَادَةُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي رَافِعٍ شَيْئًا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی کھانے کے لیے بلایا جائے اور وہ بلانے والا آنے والے کے ساتھ ہی آ جائے تو یہ اس کے لیے اجازت ہے“(پھر اسے اجازت لینے کی ضرورت نہیں)۔ ابوعلی لؤلؤی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا: کہ قتادہ نے ابورافع سے کچھ نہیں سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14673)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/533) (صحیح لغیرہ)»
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: When one of you is invited to take meals and comes along with the messenger, that serves as permission for him to enter. Abu Ali al-Lu'lu said: I heard Abu Dawud say: Qatadah did not hear anything from Abu Rafi.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5171
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة مدلس وعنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 179
عبیداللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ آیت استیذان پر اکثر لوگوں نے عمل نہیں کیا، لیکن میں نے تو اپنی لونڈی کو بھی حکم دے رکھا ہے کہ اسے بھی میرے پاس آنا ہو تو مجھ سے اجازت طلب کرے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ وہ اس کا (استیذان کا) حکم دیتے تھے۔
Ibn Abbas said: Most of the people did not act upon the verse about asking permission to enter the house. I have commanded this slave-girl of mine to ask my permission to enter. Abu Dawud said: Ata also transmitted it from Ibn Abbas in a similar way. He commanded to act upon this.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5172
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سفيان بن عينة مدلس و عنعن وكان يدلس عن الثقات والمدلسين والضعفاء انوار الصحيفه، صفحه نمبر 179
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد، عن عمرو بن ابي عمرو، عن عكرمة، ان نفرا من اهل العراق، قالوا: يا ابن عباس،" كيف ترى في هذه الآية التي امرنا فيها بما امرنا ولا يعمل بها احد، قول الله عز وجل: يايها الذين آمنوا ليستاذنكم الذين ملكت ايمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلاث مرات من قبل صلاة الفجر وحين تضعون ثيابكم من الظهيرة ومن بعد صلاة العشاء ثلاث عورات لكم ليس عليكم ولا عليهم جناح بعدهن طوافون عليكم سورة النور آية 58 , قرا القعنبي إلى: عليم حكيم سورة النور آية 58 , قال ابن عباس: إن الله حليم رحيم بالمؤمنين يحب الستر، وكان الناس ليس لبيوتهم ستور ولا حجال فربما دخل الخادم او الولد او يتيمة الرجل والرجل على اهله، فامرهم الله بالاستئذان في تلك العورات، فجاءهم الله بالستور والخير، فلم ار احدا يعمل بذلك بعد" , قال ابو داود: حديث عبيد الله وعطاء يفسد هذا الحديث. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالُوا: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ،" كَيْفَ تَرَى فِي هَذِهِ الْآيَةِ الَّتِي أُمِرْنَا فِيهَا بِمَا أُمِرْنَا وَلَا يَعْمَلُ بِهَا أَحَدٌ، قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلاةِ الْعِشَاءِ ثَلاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ سورة النور آية 58 , قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ إِلَى: عَلِيمٌ حَكِيمٌ سورة النور آية 58 , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ اللَّهَ حَلِيمٌ رَحِيمٌ بِالْمُؤْمِنِينَ يُحِبُّ السَّتْرَ، وَكَانَ النَّاسُ لَيْسَ لِبُيُوتِهِمْ سُتُورٌ وَلَا حِجَالٌ فَرُبَّمَا دَخَلَ الْخَادِمُ أَوِ الْوَلَدُ أَوْ يَتِيمَةُ الرَّجُلِ وَالرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ، فَأَمَرَهُمُ اللَّهُ بِالِاسْتِئْذَانِ فِي تِلْكَ الْعَوْرَاتِ، فَجَاءَهُمُ اللَّهُ بِالسُّتُورِ وَالْخَيْرِ، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَعْمَلُ بِذَلِكَ بَعْدُ" , قَالَ أَبُو دَاوُدَ: حَدِيثُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَعَطَاءٍ يُفْسِدُ هَذَا الْحَدِيثَ.
عکرمہ سے روایت ہے کہ عراق کے کچھ لوگوں نے کہا: ابن عباس! اس آیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس میں ہمیں حکم دیا گیا جو حکم دیا گیا لیکن اس پر کسی نے عمل نہیں کیا، یعنی اللہ تعالیٰ کے قول «يا أيها الذين آمنوا ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلاث مرات من قبل صلاة الفجر وحين تضعون ثيابكم من الظهيرة ومن بعد صلاة العشاء ثلاث عورات لكم ليس عليكم ولا عليهم جناح بعدهن طوافون عليكم»”اے ایمان والو! تمہارے غلاموں اور لونڈیوں کو اور تمہارے سیانے لیکن نابالغ بچوں کو تین اوقات میں تمہارے پاس اجازت لے کر ہی آنا چاہیئے نماز فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت جب تم کپڑے اتار کر آرام کے لیے لیٹتے ہو، بعد نماز عشاء یہ تینوں وقت پردہ پوشی کے ہیں ان تینوں اوقات کے علاوہ اوقات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم ان کے پاس جاؤ، اور وہ تمہارے پاس آئیں۔ (النور: ۵۸) قعنبی نے آیت «عليم حكيم» تک پڑھی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ تعالیٰ حلیم (بردبار) ہے اور مسلمانوں پر رحیم (مہربان) ہے، وہ پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے، (یہ آیت جب نازل ہوئی ہے تو) لوگوں کے گھروں پر نہ پردے تھے، اور نہ ہی چلمن (سرکیاں)، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی خدمت گار کوئی لڑکا یا کوئی یتیم بچی ایسے وقت میں آ جاتی جب آدمی اپنی بیوی سے صحبت کرتا ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پردے کے ان اوقات میں اجازت لینے کا حکم دیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پردے دیے اور خیر (مال) سے نوازا، اس وقت سے میں نے کسی کو اس آیت پر عمل کرتے نہیں دیکھا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبیداللہ اور عطاء کی حدیث (جن کا ذکر اس سے پہلے آ چکا ہے) اس حدیث کی تضعیف کرتی ہے۔ ۳؎ یعنی یہ حدیث ان دونوں احادیث کی ضد ہے۔
وضاحت: ۱؎: پردے ڈال لینے اور دروازہ بند کر لینے کے بعد بالعموم اس کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی اور کوئی ایسے اوقات میں دوسروں کے خلوت کدوں میں جاتا نہ تھا۔ ۳؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ان دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ اذن (اجازت) لینے کا حکم اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ نہ ہو اور عدم اذن اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ ہو۔
Narrated Abdullah Ibn Abbas: Ikrimah said: A group of people from Iraq said: Ibn Abbas, what is your opinion about the verse in which we have been commanded whatever we have been commanded, but no one acts upon it? The word of Allah, Most High, reads: "O ye who believe! Let those whom your right hands possess, and the (children) among you, who have not come of age, ask your permission (before) they enter your presence on three occasions: before morning prayer, while you are undressing for the noonday heat, and after late-night prayer. These are your three times of undress; outside those times it is not wrong for you or for them to move about. " Al-Qa'nabi recited the verse up to "full of knowledge and wisdom". Ibn Abbas said: Allah is Most Clement and Most Merciful to the believers. He loves concealment. The people had neither curtains nor curtained canopies in their houses. Sometimes a servant, a child or a female orphan of a man entered while the man was having sexual intercourse with his wife. So Allah commanded them to ask permission in those times of undress. Then Allah brought them curtains and all good things. But I did not see anyone following it after that. Abu Dawud said: The tradition of Ubaid Allah and of Ata, weakens this tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 42 , Number 5173
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد موقوف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن أخرجه ابن أبي حاتم في تفسيره (8/2632) وصححه ابن كثير (3/315 نسخة أخريٰ 6/89)