(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عثمان بن غياث، قال: حدثني عبد الله بن بريدة، عن يحيى بن يعمر، وحميد بن عبد الرحمن، قالا: لقينا عبد الله بن عمر فذكرنا له القدر وما يقولون فيه فذكر نحوه زاد، قال: وساله رجل من مزينة او جهينة، فقال: يا رسول الله فيما نعمل افي شيء قد خلا او مضى او في شيء يستانف الآن؟ قال: في شيء قد خلا، ومضى، فقال الرجل او بعض القوم: ففيم العمل؟ قال: إن اهل الجنة ييسرون لعمل اهل الجنة، وإن اهل النار ييسرون لعمل اهل النار. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: لَقِيَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَذَكَرْنَا لَهُ الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ زَادَ، قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَا نَعْمَلُ أَفِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى أَوْ فِي شَيْءٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ: فِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا، وَمَضَى، فَقَالَ الرَّجُلُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ: إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ.
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملے تو ہم نے آپ سے تقدیر کے بارے میں جو کچھ لوگ کہتے ہیں اس کا ذکر کیا۔ پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ آپ سے مزینہ یا جہینہ ۱؎ کے ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! پھر ہم کیا جان کر عمل کریں؟ کیا یہ جان کر کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ سب پہلے ہی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے، یا یہ جان کر کہ (پہلے سے نہیں لکھا گیا ہے) نئے سرے سے ہونا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جان کر کہ جو کچھ ہونا ہے سب تقدیر میں لکھا جا چکا ہے“ پھر اس شخص نے یا کسی دوسرے نے کہا: تو آخر یہ عمل کس لیے ہے؟ ۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت کے لیے اہل جنت والے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کو اہل جہنم کے اعمال آسان کر دیئے جاتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10572) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: دو قبیلوں کے نام ہیں۔ ۲؎: یعنی جب جنت و جہنم کا فیصلہ ہو چکا ہے تو عمل کیوں کریں، یہی سوچ گمراہی کی ابتداء تھی۔
The tradition mentioned above has also been transmitted by Yahya bin Yamur and Humaid bin Abdur-Rahman through a different chain of narrators. This version has: we met Abdullah bin Umar. We told him about divine decree and what they said about it. He then mentioned something similar to it. He added: A man of Muzainah or juhainah asked: What is the good in doing anything, Messenger of Allah ? should we think that a thing has passed and gone or a thing that has happened now (without predestination)? He replied: About a thing that has passed and gone (i. e. predestined). A man or some people asked: Then, why action? He replied: Those who are among the number of those who go to Paradise will be helped to do the deeds of the people who will go to Paradise, and those who are among the number of those who go to Hell will be helped to do the deeds of those who will go to Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4679
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (4695)
یحییٰ بن یعمر سے یہی حدیث کچھ الفاظ کی کمی اور بیشی کے ساتھ مروی ہے اس نے پوچھا: اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، بیت اللہ کا حج، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کرنا“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: علقمہ مرجئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10572) (صحیح)»
The tradition mentioned above has also been transmitted by Ibn Yamur, with additions and omissions, through a different chain of narrators. This version adds; He asked: What is Islam? He replied: It means saying prayer, payment of zakat, performing HAJJ, fasting during RAMADAN, and taking a bath on account of sexual defilement. Abu Dawud said: Alqamah was a Murji'i.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4680
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح انظر الحديث السابق (4695)
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا جرير، عن ابي فروة الهمداني، عن ابي زرعة بن عمرو بن جرير، عن ابي ذر، قالا:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلس بين ظهري اصحابه، فيجيء الغريب، فلا يدري ايهم هو حتى يسال، فطلبنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نجعل له مجلسا يعرفه الغريب إذا اتاه، قال: فبنينا له دكانا من طين، فجلس عليه وكنا نجلس بجنبتيه، وذكر نحو هذا الخبر فاقبل رجل فذكر هيئته حتى سلم من طرف السماط، فقال: السلام عليك يا محمد، قال: فرد عليه النبي صلى الله عليه وسلم". (مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَا:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَيْ أَصْحَابِهِ، فَيَجِيءُ الْغَرِيبُ، فَلَا يَدْرِي أَيُّهُمْ هُوَ حَتَّى يَسْأَلَ، فَطَلَبْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَ لَهُ مَجْلِسًا يَعْرِفُهُ الْغَرِيبُ إِذَا أَتَاهُ، قَالَ: فَبَنَيْنَا لَهُ دُكَّانًا مِنْ طِينٍ، فَجَلَسَ عَلَيْهِ وَكُنَّا نَجْلِسُ بِجَنْبَتَيْهِ، وَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ فَذَكَرَ هَيْئَتَهُ حَتَّى سَلَّمَ مِنْ طَرَفِ السِّمَاطِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوذر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے بیچ میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ جب کوئی اجنبی شخص آتا تو وہ بغیر پوچھے آپ کو پہچان نہیں پاتا تھا، تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم آپ کے لیے ایک ایسی جائے نشست بنا دیں کہ جب بھی کوئی اجنبی آئے تو وہ آپ کو پہچان لے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنانچہ ہم نے آپ کے لیے ایک مٹی کا چبوترا بنا دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے، آگے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی جیسی روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ ایک شخص آیا، پھر انہوں نے اس کی ہیئت ذکر کی، یہاں تک کہ اس نے بیٹھے ہوئے لوگوں کے کنارے سے ہی آپ کو یوں سلام کیا: السلام علیک یا محمد! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب دیا۔
تخریج الحدیث: «وحدیث أبی ذر قد أخرجہ: سنن النسائی/ الإیمان 6 (4994)، مختصراً، وحدیث أبی ہریرة قد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 38 (50)، تفسیر سورة لقمان 2 (4777)، صحیح مسلم/ الأیمان 1 (9)، سنن ابن ماجہ/ المقدمة 9 (64)، (تحفة الأشراف: 19294)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/426) (صحیح)»
Narrated Abu Dharr and Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ used to sit among his Companions. A stranger would come and not recognize him (the Prophet) until he asked (about him). So we asked the Messenger of Allah ﷺ to make a place where he might take his seat so that when a stranger came, he might recognise him. So we built a terrace of soil on which he would take his seat, and we would sit beside him. He then mentioned something similar to this Hadith saying: A man came, and he described his appearance. He saluted from the side of the assembly, saying: Peace be upon you, Muhammad. The Prophet ﷺ then responded to him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4681
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أخرجه النسائي (4994 وسنده صحيح) وأصله عند مسلم (9)
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن ابي سنان، عن وهب بن خالد الحمصي، عن ابن الديلمي، قال:" اتيت ابي بن كعب، فقلت له: وقع في نفسي شيء من القدر فحدثني بشيء لعل الله ان يذهبه من قلبي، قال: لو ان الله عذب اهل سماواته واهل ارضه عذبهم وهو غير ظالم لهم، ولو رحمهم كانت رحمته خيرا لهم من اعمالهم ولو انفقت مثل احد ذهبا في سبيل الله ما قبله الله منك حتى تؤمن بالقدر، وتعلم ان ما اصابك لم يكن ليخطئك، وان ما اخطاك لم يكن ليصيبك، ولو مت على غير هذا لدخلت النار، قال: ثم اتيت عبد الله بن مسعود، فقال مثل ذلك، قال: ثم اتيت حذيفة بن اليمان، فقال مثل ذلك، قال: ثم اتيت زيد بن ثابت فحدثني عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل ذلك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ، عَنْ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ:" أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ لَهُ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْقَدَرِ فَحَدِّثْنِي بِشَيْءٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي، قَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَال: ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ".
ابن دیلمی ۱؎ کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہ پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا، فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور عذاب دینے میں وہ ظالم نہیں ہو گا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہے، اگر تم احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ نہ پہنچتا، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مر گئے تو ضرور جہنم میں داخل ہو گے۔ ابن دیلمی کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مرفوع روایت بیان کی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (77)، (تحفة الأشراف: 3726)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/182، 185، 189) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ابوالبسر عبداللہ بن فیروز الدیلمی۔
Ibn al-Dailami said: I went to Ubayy bin Kaab and said him: I am confused about Divine decree, so tell me something by means of which Allah may remove the confusion from my mind. He replied: were Allah to punish everyone in the heavens and in the earth. He would do so without being unjust to them, and were he to show mercy to them his mercy would be much better than their actions merited. Were you to spend in support of Allah’s cause an amount of gold equivalent to Uhud, Allah would not accept it from you till you believed in divine decree and knew that what has come to you could not miss you and that what has missed you could not come to you. Were you to die believing anything else you would enter Hell. He said: I then went to Abdullah bin Masud and he said something to the same effect. I next went to Hudhaifah bin al-Yaman and he said something to the same effect. I next went to Zaid bin Thabit who told me something from the Prophet ﷺ to the same effect.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4682
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (115) أخرجه ابن ماجه (77 وسنده صحيح)، سفيان الثوري صرح بالسماع عند أحمد (35/465 ح21589)
(مرفوع) حدثنا جعفر بن مسافر الهذلي، حدثنا يحيى بن حسان، حدثنا الوليد بن رباح، عن إبراهيم بن ابي عبلة، عن ابي حفصة، قال: قال عبادة بن الصامت لابنه: يا بني إنك لن تجد طعم حقيقة الإيمان حتى تعلم ان ما اصابك لم يكن ليخطئك، وما اخطاك لم يكن ليصيبك، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن اول ما خلق الله القلم فقال له: اكتب قال: رب وماذا اكتب؟ قال: اكتب مقادير كل شيء حتى تقوم الساعة، يا بني إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من مات على غير هذا فليس مني". (مرفوع) حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الْإِيمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ قَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ مَاتَ عَلَى غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي".
ابوحفصہ کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے میرے بیٹے! تم ایمان کی حقیقت کا مزہ ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ تم یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ ایسا نہیں کہ نہ ملتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے ایسا نہیں کہ وہ تمہیں مل جاتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”سب سے پہلی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، قلم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا: لکھ، قلم نے کہا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ“ اے میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”جو اس کے علاوہ (کسی اور عقیدے) پر مرا تو وہ مجھ سے نہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5082)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القدر 17 (2155)، تفسیر سورة النون 66 (3319) (صحیح)»
Ubadah bin al Samit said to his son: Sonny! You will not get the taste of the reality of faith until you know that what has come to you could not miss you, and that what has missed you could not come to you. I heard the Messenger of Allah ﷺ say: The first thing Allah created was pen. He said to it: Write. It asked: What should I write, my lord? He said: Write what was decreed about everything till the Last hour comes. Sonny! I heard the Messenger of Allah ﷺ say: He who dies on something other than this does not does not belong to me.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4683
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح وله شاھد عند أبي يعلٰي الموصلي (2329 وسنده صحيح)
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا سفيان. ح وحدثنا احمد بن صالح المعنى، قال: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، سمع طاوسا، يقول: سمعت ابا هريرة، يخبر عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" احتج آدم، وموسى، فقال موسى: يا آدم انت ابونا خيبتنا واخرجتنا من الجنة، فقال آدم: انت موسى اصطفاك الله بكلامه، وخط لك التوراة بيده تلومني على امر قدره علي قبل ان يخلقني باربعين سنة، فحج آدم، موسى"، قال احمد بن صالح: عن عمرو، عن طاوس، سمع ابا هريرة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، سَمِعَ طَاوُسًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يُخْبِرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" احْتَجَّ آدَمُ، وَمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا خَيَّبْتَنَا وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ، فَقَالَ آدَمُ: أَنْتَ مُوسَى اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِكَلَامِهِ، وَخَطَّ لَكَ التَّوْرَاةَ بِيَدِهِ تَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً، فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى"، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ: عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدم اور موسیٰ نے بحث کی تو موسیٰ نے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ ہی نے ہمیں محرومی سے دو چار کیا، اور ہمیں جنت سے نکلوایا، آدم نے کہا: تم موسیٰ ہو تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی گفتگو کے لیے چن لیا، اور تمہارے لیے تورات کو اپنے ہاتھ سے لکھا، تم مجھے ایسی بات پر ملامت کرتے ہو جسے اس نے میرے لیے مجھے پیدا کرنے سے چالیس سال پہلے ہی لکھ دیا تھا، پس آدم موسیٰ پر غالب آ گئے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 31 (3409)، القدر 11 (6614)، صحیح مسلم/القدر 2 (2652)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10(80)، (تحفة الأشراف: 13529)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القدر 2 (2134)، موطا امام مالک/القدر 1 (1)، مسند احمد (2/248، 268) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ بحث و تکرار اللہ کے سامنے ہوئی جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Adam and Moses held a disputation. Moses said: Adam you are our father. You deprived us and caused us to come out from Paradise. Adam said: You are Moses Allah chose you for his speech and wrote the Torah for you with his hand. Do you blame me for doing a deed which Allah had decreed that I should do forty year before he created me? So Adam got the better of Moses in argument. Ahmad bin Salih said from Amr from Tawus who heard Abu Hurairah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4684
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4614) صحيح مسلم (2652)
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، ان عمر بن الخطاب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن موسى قال: يا رب ارنا آدم الذي اخرجنا ونفسه من الجنة، فاراه الله آدم، فقال: انت ابونا آدم، فقال له آدم: نعم، قال: انت الذي نفخ الله فيك من روحه وعلمك الاسماء كلها، وامر الملائكة فسجدوا لك، قال: نعم، قال: فما حملك على ان اخرجتنا ونفسك من الجنة؟ فقال له آدم: ومن انت؟ قال: انا موسى، قال: انت نبي بني إسرائيل الذي كلمك الله من وراء الحجاب، لم يجعل بينك وبينه رسولا من خلقه، قال: نعم، قال: افما وجدت ان ذلك كان في كتاب الله قبل ان اخلق؟ قال: نعم، قال: فيم تلومني في شيء سبق من الله تعالى فيه القضاء قبلي؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عند ذلك فحج آدم، موسى، فحج آدم، موسى". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مُوسَى قَالَ: يَا رَبِّ أَرِنَا آدَمَ الَّذِي أَخْرَجَنَا وَنَفْسَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَرَاهُ اللَّهُ آدَمَ، فَقَالَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: نَعَمْ، قَالَ: أَنْتَ الَّذِي نَفَخَ اللَّهُ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَعَلَّمَكَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ أَخْرَجْتَنَا وَنَفْسَكَ مِنَ الْجَنَّةِ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: وَمَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: أَنْتَ نَبِيُّ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِي كَلَّمَكَ اللَّهُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ، لَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ رَسُولًا مِنْ خَلْقِهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَمَا وَجَدْتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فِيمَ تَلُومُنِي فِي شَيْءٍ سَبَقَ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى فِيهِ الْقَضَاءُ قَبْلِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عِنْدَ ذَلِكَ فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے رب! ہمیں آدم علیہ السلام کو دکھا جنہوں نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوایا، تو اللہ نے انہیں آدم علیہ السلام کو دکھایا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ ہمارے باپ آدم ہیں؟ تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: آپ ہی ہیں جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی، جسے تمام نام سکھائے اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا؟ انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تو پھر کس چیز نے آپ کو اس پر آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوا دیا؟ تو آدم نے ان سے کہا: اور تم کون ہو؟ وہ بولے: میں موسیٰ ہوں، انہوں نے کہا: تم بنی اسرائیل کے وہی نبی ہو جس سے اللہ نے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی اور تمہارے اور اپنے درمیان اپنی مخلوق میں سے کوئی قاصد مقرر نہیں کیا؟ کہا: ہاں، آدم علیہ السلام نے کہا: تو کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ وہ (جنت سے نکالا جانا) میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا؟ کہا: ہاں معلوم ہے، انہوں نے کہا: پھر ایک چیز کے بارے میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کیوں مجھے ملامت کرتے ہو؟“ یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو آدم، موسیٰ پر غالب آ گئے، تو آدم موسیٰ پر غالب آ گئے“۔
Umar bin al-Khattab reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Moses said: My lord, show us Adam who caused us and himself to come out from Paradise. So Allah showed him Adam. He asked: Are you our father, Adam? Adam said to him: Yes. He said: Are you the one into whom Allah breathed of his spirit, taught you all the names, and commanded angels (to prostrate) and they prostrated to you? He replied: Yes. He asked: Then what moved you to cause us and yourself to come out from paradise? Adam asked him: And who are you? He said: Yes. He asked: Did you not find that was decreed in the book (records) of Allah before I was created? He replied: Yes. He asked: Then why do you blame me about a thing for which Divine decree had already passed before me ? The Messenger of Allah ﷺ said: So Adam got the better of Moses in argument ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4685
(مرفوع) حدثنا عبد الله القعنبي، عن مالك، عن زيد بن انيسة، ان عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب اخبره، عن مسلم بن يسار الجهني، ان عمر بن الخطاب سئل عن هذه الآية وإذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم سورة الاعراف آية 172 قال: قرا القعنبي الآية فقال عمر سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عنها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل خلق آدم، ثم مسح ظهره بيمينه، فاستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للجنة وبعمل اهل الجنة يعملون، ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية، فقال خلقت هؤلاء للنار، وبعمل اهل النار يعملون، فقال رجل: يا رسول الله ففيم العمل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله عز وجل إذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل اهل الجنة حتى يموت على عمل من اعمال اهل الجنة، فيدخله به الجنة، وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار حتى يموت على عمل من اعمال اهل النار، فيدخله به النار". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُنَيْسَةَ، أَنَّ عَبْدَ الْحَمِيدِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ سورة الأعراف آية 172 قَالَ: قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ الْآيَةَ فَقَالَ عُمَرُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ، وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيُدْخِلَهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ، فَيُدْخِلَهُ بِهِ النَّارَ".
مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس آیت «وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم» کے متعلق پوچھا گیا ۱؎۔ (حدیث بیان کرتے وقت) قعنبی نے آیت پڑھی تو آپ نے کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، پھر ان کی پیٹھ پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرا، اس سے اولاد نکالی اور کہا: میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے، اور یہ جنتیوں کے کام کریں گے، پھر ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے بھی اولاد نکالی اور کہا: میں نے انہیں جہنمیوں کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہل جہنم کے کام کریں گے“ تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! پھر عمل سے کیا فائدہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جب بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جنتیوں کے کام کراتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنتیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے، تو اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے، اور جب کسی بندے کو جہنم کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس سے جہنمیوں کے کام کراتا ہے یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کے اعمال میں سے کسی عمل پر مر جاتا ہے تو اس کی وجہ سے اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر سورة الأعراف (3077)، (تحفة الأشراف: 10654)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القدر 1 (2)، مسند احمد (1/45) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور یاد کرو اس وقت کو جب تمہارے رب نے آدم کی اولاد کو اُن کی پشتوں سے نکالا۔
Narrated Umar ibn al-Khattab: Muslim ibn Yasar al-Juhani said: When Umar ibn al-Khattab was asked about the verse "When your Lord took their offspring from the backs of the children of Adam" - al-Qa'nabi recited the verse--he said: I heard the Messenger of Allah ﷺ say when he was questioned about it: Allah created Adam, then passed His right hand over his back, and brought forth from it his offspring, saying: I have these for Paradise and these will do the deeds of those who go to Paradise. He then passed His hand over his back and brought forth from it his offspring, saying: I have created these for Hell, and they will do the deeds of those who go to Hell. A man asked: What is the good of doing anything, Messenger of Allah? The Messenger of Allah ﷺ said: When Allah creates a servant for Paradise, He employs him in doing the deeds of those who will go to Paradise, so that his final action before death is one of the deeds of those who go to Paradise, for which He will bring him into Paradise. But when He creates a servant for Hell, He employs him in doing the deeds of those who will go to Hell, so that his final action before death is one of the deeds of those who go to Hell, for which He will bring him into Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4686
قال الشيخ الألباني: صحيح إلا مسح الظهر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3075) مسلم بن يسار سمعه من نعيم بن ربيعة (وھو رجل مجهول،وثقه ابن حبان وحده) عن عمر رضي اللّٰه عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 165
Nuaim bin Rablah said: I was with Umar bin al-Khattab when he transmitted this tradition. The tradition of Malik is more perfect.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4687
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (3075) مسلم بن يسار سمعه من نعيم بن ربيعة (وھو رجل مجهول،وثقه ابن حبان وحده) عن عمر رضي اللّٰه عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 165
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لڑکا جسے خضر (علیہ السلام) نے قتل کر دیا تھا طبعی طور پر کافر تھا اگر وہ زندہ رہتا تو اپنے ماں باپ کو سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دیتا“۔