(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابيه، ان عمر بن الخطاب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن موسى قال: يا رب ارنا آدم الذي اخرجنا ونفسه من الجنة، فاراه الله آدم، فقال: انت ابونا آدم، فقال له آدم: نعم، قال: انت الذي نفخ الله فيك من روحه وعلمك الاسماء كلها، وامر الملائكة فسجدوا لك، قال: نعم، قال: فما حملك على ان اخرجتنا ونفسك من الجنة؟ فقال له آدم: ومن انت؟ قال: انا موسى، قال: انت نبي بني إسرائيل الذي كلمك الله من وراء الحجاب، لم يجعل بينك وبينه رسولا من خلقه، قال: نعم، قال: افما وجدت ان ذلك كان في كتاب الله قبل ان اخلق؟ قال: نعم، قال: فيم تلومني في شيء سبق من الله تعالى فيه القضاء قبلي؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عند ذلك فحج آدم، موسى، فحج آدم، موسى". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مُوسَى قَالَ: يَا رَبِّ أَرِنَا آدَمَ الَّذِي أَخْرَجَنَا وَنَفْسَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَرَاهُ اللَّهُ آدَمَ، فَقَالَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: نَعَمْ، قَالَ: أَنْتَ الَّذِي نَفَخَ اللَّهُ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَعَلَّمَكَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى أَنْ أَخْرَجْتَنَا وَنَفْسَكَ مِنَ الْجَنَّةِ؟ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: وَمَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: أَنْتَ نَبِيُّ بَنِي إِسْرَائِيلَ الَّذِي كَلَّمَكَ اللَّهُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ، لَمْ يَجْعَلْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ رَسُولًا مِنْ خَلْقِهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَمَا وَجَدْتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَبْلَ أَنْ أُخْلَقَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فِيمَ تَلُومُنِي فِي شَيْءٍ سَبَقَ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى فِيهِ الْقَضَاءُ قَبْلِي؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عِنْدَ ذَلِكَ فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى، فَحَجَّ آدَمُ، مُوسَى".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے رب! ہمیں آدم علیہ السلام کو دکھا جنہوں نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوایا، تو اللہ نے انہیں آدم علیہ السلام کو دکھایا، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ ہمارے باپ آدم ہیں؟ تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: آپ ہی ہیں جس میں اللہ نے اپنی روح پھونکی، جسے تمام نام سکھائے اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا؟ انہوں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تو پھر کس چیز نے آپ کو اس پر آمادہ کیا کہ آپ نے ہمیں اور خود کو جنت سے نکلوا دیا؟ تو آدم نے ان سے کہا: اور تم کون ہو؟ وہ بولے: میں موسیٰ ہوں، انہوں نے کہا: تم بنی اسرائیل کے وہی نبی ہو جس سے اللہ نے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی اور تمہارے اور اپنے درمیان اپنی مخلوق میں سے کوئی قاصد مقرر نہیں کیا؟ کہا: ہاں، آدم علیہ السلام نے کہا: تو کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں کہ وہ (جنت سے نکالا جانا) میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی کتاب میں لکھا ہوا تھا؟ کہا: ہاں معلوم ہے، انہوں نے کہا: پھر ایک چیز کے بارے میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ میرے پیدا کئے جانے سے پہلے ہی مقدر ہو چکا تھا کیوں مجھے ملامت کرتے ہو؟“ یہاں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو آدم، موسیٰ پر غالب آ گئے، تو آدم موسیٰ پر غالب آ گئے“۔
Umar bin al-Khattab reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: Moses said: My lord, show us Adam who caused us and himself to come out from Paradise. So Allah showed him Adam. He asked: Are you our father, Adam? Adam said to him: Yes. He said: Are you the one into whom Allah breathed of his spirit, taught you all the names, and commanded angels (to prostrate) and they prostrated to you? He replied: Yes. He asked: Then what moved you to cause us and yourself to come out from paradise? Adam asked him: And who are you? He said: Yes. He asked: Did you not find that was decreed in the book (records) of Allah before I was created? He replied: Yes. He asked: Then why do you blame me about a thing for which Divine decree had already passed before me ? The Messenger of Allah ﷺ said: So Adam got the better of Moses in argument ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 41 , Number 4685
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4702
فوائد ومسائل: تقدیر یعنی اللہ عزوجل کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے، کہیں بھی اس سے ذرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہو سکتا، مگر علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا۔ انسانوں کے لئے جائز نہیں کہ اپنے آئندہ امور میں تقدیرکو بطور عذراور بہانہ پیش کریں، کیونکہ ہر ایک کو صحیح راہ کا اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف بنایا گیا ہے، لیکن ماضی کے حقائق میں تقدیر کا بیان بطور عذر، مباح ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4702