(موقوف) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن جابر بن زيد، وعكرمة، انهما كانا يكرهان البسر وحده وياخذان ذلك عن ابن عباس، وقال ابن عباس:" اخشى ان يكون المزاء الذي نهيت عنه عبد القيس"، فقلت لقتادة: ما المزاء؟، قال: النبيذ في الحنتم والمزفت. (موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، وَعِكْرِمَةَ، أَنَّهُمَا كَانَا يَكْرَهَانِ الْبُسْرَ وَحْدَهُ وَيَأْخُذَانِ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" أَخْشَى أَنْ يَكُونَ الْمُزَّاءُ الَّذِي نُهِيَتْ عَنْهُ عَبْدُ القَيْسِ"، فَقُلْتُ لِقَتَادَةَ: مَا الْمُزَّاءُ؟، قَالَ: النَّبِيذُ فِي الْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ.
جابر بن زید اور عکرمہ سے روایت ہے کہ وہ دونوں صرف کچی کھجور کی نبیذ کو مکروہ جانتے تھے، اور اس مذہب کو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے لیتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں ڈرتا ہوں کہیں یہ «مزاء» نہ ہو جس سے عبدالقیس کو منع کیا گیا تھا ہشام کہتے ہیں: میں نے قتادہ سے کہا: «مزاء» کیا ہے؟ انہوں نے کہا: حنتم اور مزفت میں تیار کی گئی نبیذ۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5385)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/310، 334) (صحیح الإسناد)»
Qatadah said on the authority of Jabir bin Zaid and Ikrimah that they disapprove of drink made exclusively from unripe dates. This they reported on the authority of Ibn Abbas said: I am afraid it may not be muzza from which (the people of) Abd al-Qais were prohibited. I asked Qatadah: What is muzza’? He replied: Drink of dates made in a green jar and vessels smeared with pitch.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3700
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة مدلس وعنعن وحديث النسائي (5573) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 132
(مرفوع) حدثنا عيسى بن محمد، حدثنا ضمرة، عن السيباني، عن عبد الله بن الديلمي، عن ابيه، قال:" اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا: يا رسول الله، قد علمت من نحن ومن اين نحن، فإلى من نحن؟، قال: إلى الله وإلى رسوله، فقلنا: يا رسول الله، إن لنا اعنابا ما نصنع بها؟، قال: زببوها، قلنا: ما نصنع بالزبيب؟، قال: انبذوه على غدائكم واشربوه على عشائكم، وانبذوه على عشائكم واشربوه على غدائكم، وانبذوه في الشنان ولا تنبذوه في القلل، فإنه إذا تاخر عن عصره صار خلا". (مرفوع) حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ضَمُرَةُ، عَنْ السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْتَ مَنْ نَحْنُ وَمِنْ أَيْنَ نَحْنُ، فَإِلَى مَنْ نَحْنُ؟، قَالَ: إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لَنَا أَعْنَابًا مَا نَصْنَعُ بِهَا؟، قَالَ: زَبِّبُوهَا، قُلْنَا: مَا نَصْنَعُ بِالزَّبِيبِ؟، قَالَ: انْبِذُوهُ عَلَى غَدَائِكُمْ وَاشْرَبُوهُ عَلَى عَشَائِكُمْ، وَانْبِذُوهُ عَلَى عَشَائِكُمْ وَاشْرَبُوهُ عَلَى غَدَائِكُمْ، وَانْبِذُوهُ فِي الشِّنَانِ وَلَا تَنْبِذُوهُ فِي الْقُلَلِ، فَإِنَّهُ إِذَا تَأَخَّرَ عَنْ عَصْرِهِ صَارَ خَلًّا".
دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں، لیکن کس کے پاس آئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول کے پاس“ پھر ہم نے عرض کیا: اے رسول اللہ! ہمارے یہاں انگور ہوتا ہے ہم اس کا کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے خشک لو“ ہم نے عرض کیا: اس زبیب (سوکھے ہوئے انگور) کو کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبح کو اسے بھگو دو، اور شام کو پی لو، اور جو شام کو بھگوؤ اسے صبح کو پی لو اور چمڑوں کے برتنوں میں اسے بھگویا کرو، مٹکوں اور گھڑوں میں نہیں کیونکہ اگر نچوڑنے میں دیر ہو گی تو وہ سرکہ ہو جائے گا ۱؎“۔
وضاحت: ۱؎: اکثر مٹکوں اور گھڑوں میں تیزی جلد آ جاتی ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت فرمائی ہے، اور چمڑے کے مشکیزوں میں نبیذ بھگونے کی اجازت دی، کیونکہ اس میں تیزی جلد آ جانے کا اندیشہ نہیں رہتا، اور ”نچوڑنے میں دیر ہوگی“ سے مراد مٹکوں اور گھڑوں سے نکال کر بھگوئی ہوئی کشمش کو نچوڑنے میں دیر کرنا ہے۔
Narrated Ad-Daylami: We came to the Prophet ﷺ and said to him: Messenger of Allah, you know who we are, from where we are and to whom we have come. He said: To Allah and His Messenger. We said: Messenger of Allah, we have grapes; what should we do with them? He said: Make them raisins. We then asked: What should we do with raisins? He replied: Steep them in the morning and drink in the evening, and steep them in the evening and drink in the morning. Steep them in skin vessels and do not steep them in earthen jar, for it it is delayed in pressing, it becomes vinegar.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3701
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أخرجه النسائي (5739 وسنده حسن)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ایسے چمڑے کے برتن میں نبیذ تیار کی جاتی تھی جس کا اوپری حصہ باندھ دیا جاتا، اور اس کے نیچے کی طرف بھی منہ ہوتا، صبح میں نبیذ بنائی جاتی تو اسے شام میں پیتے اور شام میں نبیذ بنائی جاتی تو اسے صبح میں پیتے ۱؎۔
Aishah said: Dates were steeped for the Apostel of Allah ﷺ in skin which was tied up at the top and had a mouth. What was steeped in the morning he would drink in the evening and what was steeped in the evening he would drink in the morning.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3702
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا المعتمر، قال: سمعت شبيب بن عبد الملك يحدث، عن مقاتل بن حيان، قال: حدثتني عمتي عمرة، عن عائشة رضي الله عنها،" انها كانت تنبذ للنبي صلى الله عليه وسلم غدوة، فإذا كان من العشي فتعشى شرب على عشائه، وإن فضل شيء صببته او فرغته، ثم تنبذ له بالليل، فإذا اصبح تغدى فشرب على غدائه، قالت: نغسل السقاء غدوة وعشية"، فقال لها ابي: مرتين في يوم؟، قالت: نعم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ شَبِيبَ بْنَ عَبْدِ الْمَلِكِ يُحَدِّثُ، عَنْ مُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَمَّتِي عَمْرَةُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّهَا كَانَتْ تَنْبِذُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُدْوَةً، فَإِذَا كَانَ مِنَ الْعَشِيِّ فَتَعَشَّى شَرِبَ عَلَى عَشَائِهِ، وَإِنْ فَضَلَ شَيْءٌ صَبَبْتُهُ أَوْ فَرَّغْتُهُ، ثُمَّ تَنْبِذُ لَهُ بِاللَّيْلِ، فَإِذَا أَصْبَحَ تَغَدَّى فَشَرِبَ عَلَى غَدَائِهِ، قَالَتْ: نَغْسِلُ السِّقَاءَ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً"، فَقَالَ لَهَا أَبِي: مَرَّتَيْنِ فِي يَوْمٍ؟، قَالَتْ: نَعَمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صبح کو نبیذ بھگوتی تھیں تو جب شام کا وقت ہوتا تو آپ شام کا کھانا کھانے کے بعد اسے پیتے، اور اگر کچھ بچ جاتی تو میں اسے پھینک دیتی یا اسے خالی کر دیتی، پھر آپ کے لیے رات میں نبیذ بھگوتی اور صبح ہوتی تو آپ اسے دن کا کھانا تناول فرما کر پیتے۔ وہ کہتی ہیں: مشک کو صبح و شام دھویا جاتا تھا۔ مقاتل کہتے ہیں: میرے والد (حیان) نے ان سے کہا: ایک دن میں دو بار؟ وہ بولیں: ہاں دو بار۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17957)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/124) (حسن الإسناد)»
Narrated Aishah, Ummul Muminin: Amrah said on the authority of Aishah that she would steep dates for the Messenger of Allah ﷺ in the morning. When the evening came, he took his dinner and drank it after his dinner. If anything remained, she poured it out. She then would steep for him at night. When the morning came, he took his morning meal and drank it after his morning meal. She said: The skin vessel was washed in the morning and in the evening. My father (Hayyan) said to her: Twice a day? She said: Yes.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3703
(مرفوع) حدثنا مخلد بن خالد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي عمر يحيى البهراني، عن ابن عباس، قال:" كان ينبذ للنبي صلى الله عليه وسلم الزبيب، فيشربه اليوم والغد وبعد الغد إلى مساء الثالثة، ثم يامر به، فيسقى الخدم او يهراق"، قال ابو داود: معنى يسقى الخدم: يبادر به الفساد، قال ابو داود: ابو عمر يحيى بن عبيد البهراني. (مرفوع) حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي عُمَرَ يَحْيَى الْبَهْرَانِيِّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ يُنْبَذُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّبِيبُ، فَيَشْرَبُهُ الْيَوْمَ وَالْغَدَ وَبَعْدَ الْغَدِ إِلَى مَسَاءِ الثَّالِثَةِ، ثُمَّ يَأْمُرُ بِهِ، فَيُسْقَى الْخَدَمُ أَوْ يُهَرَاقُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: مَعْنَى يُسْقَى الْخَدَمُ: يُبَادَرُ بِه الْفَسَادَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو عُمَرَ يَحْيَى بْنُ عُبَيْدٍ الْبَهْرَانِيُّ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کشمش کی نبیذ تیار کی جاتی تو آپ اس دن پیتے، دوسرے دن پیتے اور تیسرے دن کی شام تک پیتے پھر حکم فرماتے تو جو بچا ہوتا اسے خدمت گزاروں کو پلا دیا جاتا یا بہا دیا جاتا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: خادموں کو پلانے کا مطلب یہ ہے کہ خراب ہونے سے پہلے پہلے انہیں پلا دیا جاتا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأشربة 9 (2004)، سنن النسائی/الأشربة 55 (5740)، سنن ابن ماجہ/الأشربة 12 (3399)، (تحفة الأشراف: 6548)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/232، 240، 287،355) (صحیح)»
Ibn abbas said: Raisins were steeped for the Prophet ﷺ and he would drink it in the morning and the night after, the following day and the night after. He then gave orders and it was given to servants to drinks or poured away. Abu Dawud said: That "it was given to servants to drink" means before it spoiled. Abu Dawud said: Abu Umar Yahya al-Bahrani.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3704
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد بن حنبل، حدثنا حجاج بن محمد، قال: قال ابن جريج، عن عطاء، انه سمع عبيد بن عمير، قال: سمعت عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم تخبر:" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يمكث عند زينب بنت جحش، فيشرب عندها عسلا، فتواصيت انا وحفصة ايتنا ما دخل عليها النبي صلى الله عليه وسلم، فلتقل: إني اجد منك ريح مغافير، فدخل على إحداهن، فقالت له ذلك، فقال: بل شربت عسلا عند زينب بنت جحش، ولن اعود له، فنزلت: لم تحرم ما احل الله لك تبتغي سورة التحريم آية 1 إلى إن تتوبا إلى الله سورة التحريم آية 4، لعائشة وحفصة رضي الله عنهما، وإذ اسر النبي إلى بعض ازواجه حديثا سورة التحريم آية 3، لقوله صلى الله عليه وسلم: بل شربت عسلا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُخْبِرُ:" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَيَّتُنَا مَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُنَّ، فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَلَنْ أَعُودَ لَهُ، فَنَزَلَتْ: لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي سورة التحريم آية 1 إِلَى إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 4، لِعَائِشَةَ وَحَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا سورة التحريم آية 3، لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا".
عبید بن عمیر کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ خبر دے رہی تھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرتے اور شہد پیتے تھے تو ایک روز میں نے اور حفصہ رضی اللہ عنہما نے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں وہ کہے: مجھے آپ سے مغافیر ۱؎ کی بو محسوس ہو رہی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ایک کے پاس تشریف لائے، تو اس نے آپ سے ویسے ہی کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ میں نے تو زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ہے اور اب دوبارہ ہرگز نہیں پیوں گا“ تو قرآن کریم کی آیت: «لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي»۲؎ سے لے کر «إن تتوبا إلى الله»۳؎ تک عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے متعلق نازل ہوئی۔ «إن تتوبا» میں خطاب عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کو ہے اور «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا» میں «حديثا» سے مراد آپ کا: «بل شربت عسلا»(بلکہ میں نے شہد پیا ہے) کہنا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة التحریم (4912) الطلاق 8 (5267)، الأیمان 25 (6691)، صحیح مسلم/الطلاق 3 (1474)، سنن النسائی/عشرة النساء 4 (3410)، الطلاق 17 (3450)، الأیمان 40 (3866)، (تحفة الأشراف: 16322)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/221) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مغافیر ایک قسم کا گوند ہے جس میں بدبو ہوتی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے سخت نفرت تھی کہ آپ کے جسم اطہر سے کسی کو کوئی بو محسوس ہو۔ ۲؎: سورة التحريم: (۱) ۳؎: سورة التحريم: (۴)
Aishah said that the prophet ﷺ used to stay with Zainab, daughter of Jahsh, and drink honey. I and Hafsah counseled each other that if the Prophet ﷺ enters upon any of us, she must say: I find the smell of gum (maghafir) from you. He then entered upon one of them; she said that to him. Thereupon he said: No, I drank honey at (the house of) Zainab daughter of jahsh, and I will not do it again. Then the following verse came down: ’’O Prophet!why holdest thou to be forbidden that which Allah has made lawful to thee ? ‘’Thou seekest. . . If you two turn in repentance to Allah ‘’ refers to Hafsah and Aishah, and the verse: ‘’When the Prophet disclosed a matter in confidence to one of his consorts’’ refers to the statements of the Prophet ﷺ disclosed a matter in confidence to one of his consorts’’ refers to the statement of the Prophet ﷺ: No, I drank honey.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3705
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5267) صحيح مسلم (1474)
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا ابو اسامة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب الحلواء والعسل، فذكر بعض هذا الخبر، وكان النبي صلى الله عليه وسلم يشتد عليه ان توجد منه الريح، وفي الحديث، قالت سودة: بل اكلت مغافير، قال: بل شربت عسلا سقتني حفصة، فقلت: جرست نحله العرفط، قال ابو داود: المغافير مقلة وهي صمغة، وجرست رعت، والعرفط نبت من نبت النحل. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ، فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا الْخَبَرِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ تُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، وَفِي الْحَدِيثِ، قَالَتْ سَوْدَةُ: بَلْ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، قَالَ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا سَقَتْنِي حَفْصَةُ، فَقُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْمَغَافِيرُ مُقْلَةٌ وَهِيَ صَمْغَةٌ، وَجَرَسَتْ رَعَتْ، وَالْعُرْفُطُ نَبْتٌ مِنْ نَبْتِ النَّحْلِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیزیں اور شہد پسند کرتے تھے، اور پھر انہوں نے اسی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بہت ناگوار لگتا کہ آپ سے کسی قسم کی بو محسوس کی جائے اور اس حدیث میں یہ ہے کہ سودہ ۱؎ نے کہا: بلکہ آپ نے مغافیر کھائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ میں نے شہد پیا ہے، جسے حفصہ نے مجھے پلایا ہے“ تو میں نے کہا: شاید اس کی مکھی نے عرفط ۲؎ چاٹا ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مغافیر: مقلہ ہے اور وہ گوند ہے، اور جرست: کے معنی چاٹنے کے ہیں، اور عرفط شہد کی مکھی کے پودوں میں سے ایک پودا ہے۔
وضاحت: ۱؎: پچھلی حدیث میں مغافیر کی بات کہنے والی عائشہ رضی اللہ عنہا یا حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں، اور اس حدیث میں سودہ رضی اللہ عنہا،یہ دونوں دو الگ الگ واقعات ہیں، اس حدیث میں مذکور واقعہ پہلے کا ہے، اور پچھلی حدیث میں مذکور واقعہ بعد کا ہے جس کے بعد سورۃ التحریم والی آیت نازل ہوئی۔ ۲؎: عرفط: ایک قسم کی کانٹے دار گھاس ہے جس میں بدبو ہوتی ہے۔
Aishah said: The Messenger of Allah ﷺ liked sweet meats and honey. The narrator then mentioned a part of the tradition mentioned above. The Messenger of Allah ﷺ felt it hard on him to find smell from him. In this tradition saudah said: but you ate gum ? He said: No, I drank honey. Hafsah gave it to me to drank. I said: Its bees ate ‘urfut. Abu Dawud said: Maghafir is a gum ; jarasat means ate; ’urfut is a bees ‘ plant.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3706
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5599) صحيح مسلم (1474)
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار، حدثنا صدقة بن خالد، حدثنا زيد بن واقد، عن خالد بن عبد الله بن حسين، عن ابي هريرة، قال:" علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم، فتحينت فطره بنبيذ صنعته في دباء، ثم اتيته به فإذا هو ينش، فقال: اضرب بهذا الحائط، فإن هذا شراب من لا يؤمن بالله واليوم الآخر". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ، فَتَحَيَّنْتُ فِطْرَهُ بِنَبِيذٍ صَنَعْتُهُ فِي دُبَّاءٍ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهِ فَإِذَا هُوَ يَنِشُّ، فَقَالَ: اضْرِبْ بِهَذَا الْحَائِطِ، فَإِنَّ هَذَا شَرَابُ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھا کرتے ہیں تو میں اس نبیذ کے لیے جو میں نے ایک تمبی میں بنائی تھی آپ کے روزہ نہ رکھنے کا انتظار کرتا رہا پھر میں اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا وہ جوش مار رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اس دیوار پر مار دو یہ تو اس شخص کا مشروب ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا“۔
Narrated Abu Hurairah: I knew that the Messenger of Allah ﷺ used to keep fast. I waited for the day when he did not fast to present him the drink (nabidh) which I made in a pumpkin. I then brought it to him while it fermented. He said: Throw it to this wall, for this is a drink of the one who does not believe in Allah and the Last Day.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3707
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح أخرجه النسائي (5213) ورواه ابن ماجه (3409) ورواه قزعة بن يحيي عن أبي ھريرة انظر سنن الدارقطني (4/252)
(مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، عن قتادة، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى ان يشرب الرجل قائما". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يَشْرَبَ الرَّجُلُ قَائِمًا".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ آدمی کھڑے ہو کر کچھ پیئے۔
نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا اور اسے کھڑے ہو کر پیا اور کہا: بعض لوگ ایسا کرنے کو مکروہ اور ناپسند سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے جیسے تم لوگوں نے مجھے کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
Nazzal bin Samurah said: Ali asked for water and he drank it while standing. He then said: some people disapprove of doing this (drinking while standing ), but I saw the Messenger of Allah ﷺ doing as I have done.
USC-MSA web (English) Reference: Book 26 , Number 3709