سنن ابي داود
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ
کتاب: مشروبات سے متعلق احکام و مسائل
12. باب فِي النَّبِيذِ إِذَا غَلِيَ
باب: جب نبیذ میں تیزی پیدا ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 3716
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ، فَتَحَيَّنْتُ فِطْرَهُ بِنَبِيذٍ صَنَعْتُهُ فِي دُبَّاءٍ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِهِ فَإِذَا هُوَ يَنِشُّ، فَقَالَ: اضْرِبْ بِهَذَا الْحَائِطِ، فَإِنَّ هَذَا شَرَابُ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھا کرتے ہیں تو میں اس نبیذ کے لیے جو میں نے ایک تمبی میں بنائی تھی آپ کے روزہ نہ رکھنے کا انتظار کرتا رہا پھر میں اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا وہ جوش مار رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اس دیوار پر مار دو یہ تو اس شخص کا مشروب ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا“۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الأشربة 25 (5613)، 48 (5707)، سنن ابن ماجہ/الأشربة 15 (3409)، (تحفة الأشراف: 12297)، (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
أخرجه النسائي (5213) ورواه ابن ماجه (3409) ورواه قزعة بن يحيي عن أبي ھريرة انظر سنن الدارقطني (4/252)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3716 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3716
فوائد ومسائل:
فائدہ: نبیذ حلال اور طیب مشروب ہے، لیکن اگ اس میں نشہ پیدا ہوجائے تو پھر اس کا پینا حرام ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3716
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5613
´جس مشروب کو زیادہ پینے سے نشہ آ جائے اس کی حرمت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ رہے ہیں، تو ایک دن میں نے نبیذ لے کر آپ کے افطار کرنے کے وقت کا انتظار کیا جسے میں نے آپ کے لیے کدو کی تونبی میں تیار کی تھی، میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”میرے پاس لاؤ“، میں نے اسے آپ کے پاس بڑھا دی، وہ جوش مار رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اس دیوار سے مار دو، اس لیے کہ یہ ان لوگوں کا مشروب ہے جو اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5613]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نشہ آور طعام وشراب کو ضائع کرنا ضروری ہے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی ملکیت نشہ آور چیز کو اس طرح ضائع کردے تو اس پر کوئی تاوان وغیرہ نہیں۔ کسی مسلمان شخص کے ہاں منشیات کی کو ئی وقعت اور ان کو کوئی احترام نہیں ہونا چاہیے۔ ساری کی ساری نشہ آور اشیاء اور ہر قسم کی منشیات حرام ہیں۔
(2) بعض اعمال ایمان کامل کے منافی ہیں، اس لیے ان سے بچنا چاہئے۔
(3) امام صاحب ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر نشہ آور نبیذ تھوڑی مقدار میں پینی جائز ہوتی تو آپ ایک گھونٹ سے روزہ افطار کرلیتے اور باقی واپس کردیتے تا کہ کوئی دوسرا شخص بھی تھوڑی سی پی سکے، جبکہ آپ نے تو ساری ضائع کرنے کا حکم دیا۔ ثابت ہوا نشہ آور مشروب کا ایک گھونٹ بھی جائز نہیں، خواہ کوئی سا بھی مشروب ہو۔ اوریہ بالکل صحیح استدلال ہے۔
(4) ”جوش مار رہی تھی“ یعنی اس میں نشے کی علامات تھیں۔
(5) ”نہیں مانتے“ یعنی یہ کافروں کا مشروب ہے مسلمانوں کا نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ جو پیے گا، کافر ہو جائے گا، جیسے ریشم کے بارے میں گزرا۔
(6) ”دھوکا دینے والے“ مراد احناف ہیں۔ اور دھوکا یہ ہے کہ شراب کو دوسرے ناموں سے پی لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے شراب نہیں پی۔
(7) ”فرق“ تین صاع کو کہتے ہیں۔ یہ بطور مبالغہ فرمایا ورنہ بیک وقت اتنی پینی ممکن نہیں۔
(8) ”آخری گھونٹ سے“ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے کہ ”صرف وہ گھونٹ حرام ہے جس سے نشہ پیدا ہوا۔ پہلے گھونٹ نشہ آور نہیں تھے“ جب کہ ایک ہی ہے۔ جب اس کا آخری گھونٹ نشہ آور ہے تو پہلے کیو ں نہیں؟ نیز اگر وہ پہلے گھونٹ نہ پیتا تو کیا صرف اس گھونٹ سے نشہ آتا؟ ظاہر ہے وہ سارا مشروب نشہ آور ہے۔ اتنی بات ہے کہ نشے کا اظہار آخری گھونٹ پر ہو ا، یعنی زیادہ پینے سے ہوا اور شراب (جسے حنفی بھی خمر کہتے ہیں) بھی ایسے ہی ہے۔ اس کا ایک گھونٹ پینے سے نشہ محسوس نہیں ہوتا۔ نشہ زیادہ پینے سے ہی ہوگا۔ تو آخر کس عقلی وشرعی علت کی بنا پر شراب اور دوسرے نشہ آور مشروب میں فرق کیا گیا ہے؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5613
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5707
´نشہ لانے والی شراب کو مباح اور جائز قرار دینے کی احادیث کا ذکر۔`
خالد بن حسین کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھے ہوئے ہیں ان دنوں میں جن میں رکھا کرتے تھے۔ تو میں نے ایک بار آپ کے روزہ افطار کرنے کے لیے کدو کی تونبی میں نبیذ بنائی، جب شام ہوئی تو میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اس دن روزہ رکھتے ہیں تو میں آپ کے افطار کے لیے نبیذ لایا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5707]
اردو حاشہ:
(1) حدیث کی وضاحت کے لیے دیکھیے حدیث: 5613۔
(2) ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تو نشہ آور نبیذ کو دیوار پر دے مارتے تھے۔ آپ سے یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اس میں پانی ملا کر اسی پی لیں بلکہ آپ تو اسے کافروں کا مشروب قرار دے رہے ہیں، لہٰذا حدیث 5706 درست نہیں کیونکہ یہ صحیح روایات کے خلاف ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5707
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3409
´مٹی کے روغنی گھڑے میں نبیذ تیار کرنے کی ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسے گھڑے میں نبیذ لائی گئی جو جوش مار رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے دیوار پر مار دو، اس لیے کہ یہ ایسے لوگوں کا مشروب ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3409]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
نبیذ میں جوش آنا اور جھاگ آجانا اس کے نشہ آور ہوجانے کی علامت ہے اسی طرح اگر اس کا ذائقہ تلخ ہوجائے تو اسے پینا منع ہے۔
(2)
حرام مشروب کو ضائع کردینا چاہیے۔
(3)
کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ایمان کے ناقص ہونے کی علامت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3409