(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن إسماعيل بن ابي خالد، حدثني قيس، قال: حدثني عدي بن عميرة الكندي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" يا ايها الناس، من عمل منكم لنا على عمل فكتمنا منه مخيطا فما فوقه فهو غل ياتي به يوم القيامة، فقام رجل من الانصار، اسود كاني انظر إليه، فقال: يا رسول الله، اقبل عني عملك، قال: وما ذاك؟، قال: سمعتك تقول: كذا وكذا، قال: وانا اقول ذلك من استعملناه على عمل فليات بقليله وكثيره، فما اوتي منه اخذه وما نهي عنه انتهى". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنِي قَيْسٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ عُمَيْرَةَ الْكِنْدِيُّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ عُمِّلَ مِنْكُمْ لَنَا عَلَى عَمَلٍ فَكَتَمَنَا مِنْهُ مِخْيَطًا فَمَا فَوْقَهُ فَهُوَ غُلٌّ يَأْتِي بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنِ الْأَنْصَارِ، أَسْوَدُ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْبَلْ عَنِّي عَمَلَكَ، قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟، قَالَ: سَمِعْتُكَ تَقُولُ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: وَأَنَا أَقُولُ ذَلِكَ مَنِ اسْتَعْمَلْنَاهُ عَلَى عَمَلٍ فَلْيَأْتِ بِقَلِيلِهِ وَكَثِيرِهِ، فَمَا أُوتِيَ مِنْهُ أَخَذَهُ وَمَا نُهِيَ عَنْهُ انْتَهَى".
عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! تم میں سے جو شخص کسی کام پر ہمارا عامل مقرر کیا گیا، پھر اس نے ہم سے ان (محاصل) میں سے ایک سوئی یا اس سے زیادہ کوئی چیز چھپائی تو وہ چوری ہے، اور وہ قیامت کے دن اس چرائی ہوئی چیز کے ساتھ آئے گا“ اتنے میں انصار کا ایک کالے رنگ کا آدمی کھڑا ہوا، گویا کہ میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھ سے اپنا کام واپس لے لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا بات ہے؟“ اس شخص نے عرض کیا: آپ کو میں نے ایسے ایسے فرماتے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو یہ کہہ ہی رہا ہوں کہ ہم نے جس شخص کو کسی کام پر عامل مقرر کیا تو (محاصل) تھوڑا ہو یا زیادہ اسے حاضر کرے اور جو اس میں سے اسے دیا جائے اسے لے لے، اور جس سے منع کر دیا جائے اس سے رکا رہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 7 (1833)، (تحفة الأشراف: 9880)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/192) (صحیح)»
Narrated Adi ibn Umayrah al-Kindi: The Prophet ﷺ said: O people, if any of you is put in an administrative post on our behalf and conceals from us a needle or more, he is acting unfaithfully, and will bring it on the Day of Resurrection. A black man from the Ansar, as if I am seeing him, stood and said: Messenger of Allah, take back from me my post. He asked: What is that? He replied: I heard you say such and such. He said: And I say that. If we appoint anyone to an office, he must bring what is connected with it, both little and much. What he is given, he may take, and he must refrain from what is kept away from him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3574
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1833) مشكوة المصابيح (3752)
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، قال: اخبرنا شريك، عن سماك، عن حنش، عن علي، قال:" بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن قاضيا، فقلت: يا رسول الله، ترسلني وانا حديث السن، ولا علم لي بالقضاء، فقال: إن الله سيهدي قلبك، ويثبت لسانك، فإذا جلس بين يديك الخصمان فلا تقضين حتى تسمع من الآخر كما سمعت من الاول فإنه احرى ان يتبين لك القضاء"، قال: فما زلت قاضيا او ما شككت في قضاء بعد. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ حَنَشٍ، عَنْ عَلِيّ، قَالَ:" بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ قَاضِيًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُرْسِلُنِي وَأَنَا حَدِيثُ السِّنِّ، وَلَا عِلْمَ لِي بِالْقَضَاءِ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ سَيَهْدِي قَلْبَكَ، وَيُثَبِّتُ لِسَانَكَ، فَإِذَا جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْكَ الْخَصْمَانِ فَلَا تَقْضِيَنَّ حَتَّى تَسْمَعَ مِنِ الْآخَرِ كَمَا سَمِعْتَ مِنِ الْأَوَّلِ فَإِنَّهُ أَحْرَى أَنْ يَتَبَيَّنَ لَكَ الْقَضَاءُ"، قَالَ: فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا أَوْ مَا شَكَكْتُ فِي قَضَاءٍ بَعْدُ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے (قاضی) بنا کر بھیج رہے ہیں جب کہ میں کم عمر ہوں اور قضاء (فیصلہ کرنے) کا علم بھی مجھے نہیں ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے دل کی رہنمائی کرے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا، جب تم فیصلہ کرنے بیٹھو اور تمہارے سامنے دونوں فریق موجود ہوں تو جب تک تم دوسرے کا بیان اسی طرح نہ سن لو جس طرح پہلے کا سنا ہے فیصلہ نہ کرو کیونکہ اس سے معاملے کی حقیقت واشگاف ہو کر سامنے آ جائے گی“ وہ کہتے ہیں: تو میں برابر فیصلہ دیتا رہا، کہا: پھر مجھے اس کے بعد کسی فیصلے میں شک نہیں ہوا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأحکام 5 (1331)، مسند احمد (1/111) وعبداللہ بن أحمد فی زوائدی الأحد (1/149)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 1 (2310)، (تحفة الأشراف: 10081، 10113)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/83) والحاکم (3/135) بسند آفریة انقطاع (حسن)»
Narrated Ali ibn Abu Talib: The Messenger of Allah ﷺ sent me to the Yemen as judge, and I asked: Messenger of Allah, are you sending me when I am young and have no knowledge of the duties of a judge? He replied: Allah will guide your heart and keep your tongue true. When two litigants sit in front of you, do not decide till you hear what the other has to say as you heard what the first had to say; for it is best that you should have a clear idea of the best decision. He said: I had been a judge (for long); or he said (the narrator is doubtful): I have no doubts about a decision afterwards.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3575
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ترمذي (1331) شريك مدلس وعنعن وحنش بن المعتمر ضعيف ضعفه الجمھور وللحديث شواھد معنوية عند ابن ماجه (2310 سنده ضعيف) وغيره انوار الصحيفه، صفحه نمبر 127
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن هشام بن عروة، عن عروة، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما انا بشر وإنكم تختصمون إلي، ولعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض فاقضي له على نحو ما اسمع منه، فمن قضيت له من حق اخيه بشيء فلا ياخذ منه شيئا، فإنما اقطع له قطعة من النار". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ بِشَيْءٍ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ شَيْئًا، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّار".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں انسان ہی ہوں ۱؎، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہو سکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی میں انسان ہوں اور انسان کو معاملہ کی حقیقت اور اس کے باطنی امر کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کتاب اللہ کے ظاہر کے موافق لوگوں کے درمیان فیصلہ کروں گا، اگر کوئی شخص اپنی منہ زوری اور چرب زبانی سے دھوکا دے کر حاکم سے اپنے حق میں فیصلہ لے لے اور دوسرے کا حق چھین لے تو وہ مال اس کے حق میں اللہ کے نزدیک حرام ہو گا اور اس کا انجام جہنم کا عذاب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جیسے اور لوگوں کو غیب کا حال معلوم نہیں ظاہر پر فیصلہ کرتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی غیب کی ہر بات معلوم نہیں، موجودہ زمانہ کی عدالتی کارروائیوں اور وکلاء کی چرب زبانیوں اور رشوتوں اور سفارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی جیت سے خوش ہونے والے مسلمانوں کے لئے اس ارشاد نبوی میں بہت بڑی موعظت اور نصیحت ہے۔
Umm Salamah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: "I am only a human being, and you bring your disputes to me, some perhaps being more eloquent in their plea than others, so that I give judgement on their behalf according to what I hear from them. Therefore, whatever I decide fr anyone which by right belongs to his brother, he must not take anything, for I am granting him only a portion of Hell.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3576
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6967) صحيح مسلم (1713)
(مرفوع) حدثنا الربيع بن نافع ابو توبة، حدثنا ابن المبارك، عن اسامة بن زيد، عن عبد الله بن رافع مولى ام سلمة، عن ام سلمة، قالت: اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلان يختصمان في مواريث لهما لم تكن لهما بينة إلا دعواهما، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: فذكر مثله، فبكى الرجلان، وقال كل واحد منهما: حقي لك، فقال لهما النبي صلى الله عليه وسلم: اما إذ فعلتما ما فعلتما، فاقتسما وتوخيا الحق، ثم استهما، ثم تحالا. (مرفوع) حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ يَخْتَصِمَانِ فِي مَوَارِيثَ لَهُمَا لَمْ تَكُنْ لَهُمَا بَيِّنَةٌ إِلَّا دَعْوَاهُمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَبَكَى الرَّجُلَانِ، وَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: حَقِّي لَكَ، فَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا إِذْ فَعَلْتُمَا مَا فَعَلْتُمَا، فَاقْتَسِمَا وَتَوَخَّيَا الْحَقَّ، ثُمَّ اسْتَهَمَا، ثُمَّ تَحَالَّا.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو شخص اپنے میراث کے مسئلے میں جھگڑتے ہوئے آئے اور ان دونوں کے پاس بجز دعویٰ کے کوئی دلیل نہیں تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ (پھر راوی نے اسی کے مثل حدیث ذکر کی) تو دونوں رو پڑے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کہنے لگا: میں نے اپنا حق تجھے دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: ”جب تم ایسا کر رہے ہو تو حق کو پیش نظر رکھ کر (مال) کو تقسیم کر لو، پھر قرعہ اندازی کر لو اور ایک دوسرے کو معاف کر دو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18174)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/320) (صحیح)» (سیاق حدیث میں زائد چیزیں ہیں، اس لئے شیخ البانی نے اسامة بن زید لیثی کے حفظ پر نقد کرتے ہوئے اس حدیث کی تصحیح نہیں کی ہے) (الصحیحة: 455)
Umm Salamah said: Two men came to the Messenger of Allah ﷺ who were disputing over their inheritance. They had no evidence except their claim. The Prophet ﷺ then said in a similar way. Thereupon both the men wept and each of them said: This right of mine go to you. The Prophet ﷺ then said: Now you have done whatever you have done ; do divide it up, aiming at what is right, then drew lots, and let each of you consider the other to have what is legitimately his"
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3577
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (3770)
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي، اخبرنا عيسى، حدثنا اسامة، عن عبد الله بن رافع، قال: سمعت ام سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بهذا الحديث، قال: يختصمان في مواريث واشياء قد درست، فقال: إني إنما اقضي بينكم برايي فيما لم ينزل علي فيه. (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيث، قَالَ: يَخْتَصِمَانِ فِي مَوَارِيثَ وَأَشْيَاءَ قَدْ دَرَسَتْ، فَقَالَ: إِنِّي إِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمْ بِرَأْيِي فِيمَا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيَّ فِيهِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ دونوں ترکہ اور کچھ چیزوں کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو پرانی ہو چکی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں جس میں مجھ پر کوئی حکم نہیں نازل کیا گیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 18174) (صحیح)» (سابقہ حدیث کا نوٹ ملاحظہ ہو)
Umm Salamah reported the Prophet ﷺ as saying when two men were disputing over inheritance and old things: I decide between you on the basis of my opinion in cases about which no revelation has been sent down to me.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3578
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن مشكوة المصابيح (3770) انظر الحديث السابق (3584)
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود المهري، اخبرنا ابن وهب، عن يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قالو هو على المنبر:" يا ايها الناس، إن الراي إنما كان من رسول الله صلى الله عليه وسلم مصيبا لان الله كان يريه وإنما هو منا الظن والتكلف". (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَوَ هُوَ عَلَى الْمِنْبَر:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ الرَّأْيَ إِنَّمَا كَانَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصِيبًا لِأَنَّ اللَّهَ كَانَ يُرِيهِ وَإِنَّمَا هُوَ مِنَّا الظَّنُّ وَالتَّكَلُّفُ".
ابن شہاب کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر فرمایا: ”لوگو! رائے تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درست تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کو سجھاتا تھا، اور ہماری رائے محض ایک گمان اور تکلف ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19406) (ضعیف)» (زہری کی عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: یعنی ہم معاملہ کو سمجھ کر اور غور و فکر کرکے کوئی رائے قائم کرتے ہیں پھر اس پر بھی اطمینان نہیں کہ وہ درست ہو۔
Narrated Umar ibn al-Khattab: Umar said while he was (sitting) on the pulpit: O people, the opinion from the Messenger of Allah ﷺ was right, because Allah showed (i. e. inspired) him; but from us it is sheer conjecture and artifice.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3579
قال الشيخ الألباني: ضعيف مقطوع
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال المنذري: ”ھذا منقطع،الزهري لم يدرك عمر رضي اللّٰه عنه“ (عون المعبود 329/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 127
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے اپنے بیٹے کے پاس لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”غصے کی حالت میں قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے“۔
Abdur-Rahman bin Abi Bakrah reported on the authority of his father that he wrote to his son: The Messenger of Allah ﷺ said: A judge should not decide between the two while he is in anger.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3582
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7158) صحيح مسلم (1717)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں آیت کریمہ «فإن جاءوك فاحكم بينهم أو أعرض عنهم»”جب کافر آپ کے پاس آئیں تو آپ چاہیں تو فیصلہ کریں یا فیصلہ سے اعراض کریں“(سورۃ المائدہ: ۴۲) منسوخ ہے، اور اب یہ ارشاد ہے «فاحكم بينهم بما أنزل الله» تو ان کے معاملات میں اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلہ کیجئے“(سورۃ المائدہ: ۴۸)۔
Ibn Abbas said: The Quranic verse: "If they do come to thee, either judge between them, or decline to interfere" was abrogated by the verse: "So judge between them by what Allah hath revealed. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3583