عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 71 (2168)، صحیح مسلم/البیوع 5 (1517)، سنن النسائی/البیوع 18 (4507)، سنن ابن ماجہ/التجارات (2179)، (تحفة الأشراف: 8329، 8059)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ البیوع 45 (95)، مسند احمد (2/7، 22، 63، 91) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک کے خریدار کو دوسرا نہ بلائے، یا اس کے گاہک کو نہ توڑے، مثلا، یہ کہے کہ یہ اتنے میں دے رہا ہے، تو چل میرے ساتھ میں تجھے یہی مال اس سے اتنے کم میں دے دوں گا۔ ۲؎: چونکہ تاجر کو بازار کی قیمت کا صحیح علم نہیں ہے اس لئے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خریدنے میں تاجر کو دھوکہ ہو سکتا ہے، اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان سے مل کر ان کا سامان خریدنے سے منع فرما دیا ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو تاجر کو اختیار حاصل ہو گا بیع کے نفاذ اور عدم نفاذ کے سلسلہ میں۔
Narrated Abdullah bin Umar: The Messenger of Allah ﷺ as saying: None of you must buy in opposition to one another ; and do not go out to meet the merchandise, (but one must wait) till it is brought down to the market.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3429
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2139، 2165) صحيح مسلم (1412 بعد ح 1514)
(مرفوع) حدثنا الربيع بن نافع ابو توبة، حدثنا عبيد الله يعني ابن عمرو الرقي، عن ايوب، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن تلقي الجلب فإن تلقاه متلق مشتر، فاشتراه، فصاحب السلعة بالخيار إذا وردت السوق"، قال ابو علي: سمعت ابا داود، يقول: قال سفيان: لا يبع بعضكم على بيع بعض، ان يقول: إن عندي خيرا منه بعشرة. (مرفوع) حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو الرَّقِّيَّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ تَلَقِّي الْجَلَبِ فَإِنْ تَلَقَّاهُ مُتَلَقٍّ مُشْتَرٍ، فَاشْتَرَاهُ، فَصَاحِبُ السِّلْعَةِ بِالْخِيَارِ إِذَا وَرَدَتِ السُّوقَ"، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ، يَقُولُ: قَالَ سُفْيَانُ: لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، أَنْ يَقُولَ: إِنَّ عِنْدِي خَيْرًا مِنْهُ بِعَشَرَةٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلب سے یعنی مال تجارت بازار میں آنے سے پہلے ہی راہ میں جا کر سودا کر لینے سے منع فرمایا ہے، لیکن اگر خریدنے والے نے آگے بڑھ کر (ارزاں) خرید لیا، تو صاحب سامان کو بازار میں آنے کے بعد اختیار ہے (کہ وہ چاہے اس بیع کو باقی رکھے، اور چاہے تو فسخ کر دے)۔ ابوعلی کہتے ہیں: میں نے ابوداؤد کو کہتے سنا کہ سفیان نے کہا کہ کسی کے بیع پر بیع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ (خریدار کوئی چیز مثلاً گیارہ روپے میں خرید رہا ہے تو کوئی اس سے یہ نہ کہے) کہ میرے پاس اس سے بہتر مال دس روپے میں مل جائے گا۔
Abu Hurairah said: Do not go our to meet what is being brought (to market for sale). If anyone does so and buys some of it, the owner of merchandise has a choice (of canceling the deal) when it comes to the market. Abu Ali said: I heard Abu Dawud say: Sufyan said: none of you must buy in opposition to one another ; that is he says: I have a better one for ten (dirhams).
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3430
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح أخرجه الترمذي (1221 وسنده صحيح) ورواه مسلم (1519)
وضاحت: ۱؎: نجش یہ ہے کہ بیچی جانے والی چیز کی تعریف کر کے بائع کی موافقت کی جائے، یا خریداری کا ارادہ نہ ہو لیکن دوسرے کو پھنسانے کے لئے بیچنے والے کے سامان کی قیمت بڑھا دی جائے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کی چیز بیچے، میں (طاؤس) نے کہا: شہری دیہاتی کی چیز نہ بیچے اس کا کیا مطلب ہے؟ تو ابن عباس نے فرمایا: (اس کا مطلب یہ ہے کہ) وہ اس کی دلالی نہ کرے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی بستی والا باہر سے آئے ہوئے تاجر کا دلال بن کر نہ تو اس کے ہاتھ کوئی چیز بیچے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی چیز خریدے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں بستی والوں کا خسارہ ہے، جب کہ باہر سے آنے والا اگر خود خرید و فروخت کرتا ہے تو وہ مسافر ہونے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت سے خرید و فروخت کرے گا۔
Narrated Ibn Abbas: The Messenger of Allah ﷺ forbade a townsman to sell for a man from the desert. I asked: What do you mean by the selling of a townsman for a man from the desert ? He replied: He should not be a broker for him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3432
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2158) صحيح مسلم (1521)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ بیچے اگرچہ وہ اس کا بھائی یا باپ ہی کیوں نہ ہو ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے حفص بن عمر کو کہتے ہوئے سنا: مجھ سے ابوہلال نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: مجھ سے محمد نے بیان کیا انہوں نے انس بن مالک سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: لوگ کہا کرتے تھے کہ شہری دیہاتی کا سامان نہ بیچے، یہ ایک جامع کلمہ ہے (مفہوم یہ ہے کہ) نہ اس کے واسطے کوئی چیز بیچے اور نہ اس کے لیے کوئی چیز خریدے (یہ ممانعت دونوں کو عام ہے)۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 15 (4497)، (تحفة الأشراف: 525، 1454)، حدیث حفص بن عمر قد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 70 (2161)، صحیح مسلم/البیوع 6 (1523)، وحدیث زہیر بن حرب قد أخرجہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بلکہ اسے خود بیچنے دے کیونکہ رعایت سے بیچے گا اور خریداروں کو اس سے فائدہ ہو گا۔
Narrated Anas ibn Malik: The Prophet ﷺ said: A townsman must not sell for a man from the desert, even if he is his brother or father. Abu Dawud said: Anas bin Malik said: It was said: A townsman must not sell for a man from the desert. This phrase carries a broad meaning. It means that the (the townsman) must not sell anything for him or buy anything for him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3433
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح رواه البخاري (2161) ومسلم (1523)
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، عن محمد بن إسحاق، عن سالم المكي، ان اعرابيا حدثه، انه قدم بحلوبة له على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنزل على طلحة بن عبيد الله، فقال:" إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى ان يبيع حاضر لباد، ولكن اذهب إلى السوق فانظر من يبايعك، فشاورني حتى آمرك او انهاك". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَالِمٍ الْمَكِّيِّ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا حَدَّثَهُ، أَنَّهُ قَدِمَ بِحَلُوبَةٍ لَهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ عَلَى طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقَالَ:" إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلَكِنِ اذْهَبْ إِلَى السُّوقِ فَانْظُرْ مَنْ يُبَايِعُكَ، فَشَاوِرْنِي حَتَّى آمُرَكَ أَوْ أَنْهَاكَ".
سالم مکی سے روایت ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) نے ان سے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی ایک دودھاری اونٹنی لے کر آیا، یا اپنا بیچنے کا سامان لے کر آیا، اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس قیام کیا، تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری کو دیہاتی کا سامان کو بیچنے سے روکا ہے (اس لیے میں تمہارے ساتھ تمہارا دلال بن کر تو نہ جاؤں گا) لیکن تم بازار جاؤ اور دیکھو کون کون تم سے خرید و فروخت کرنا چاہتا ہے پھر تم مجھ سے مشورہ کرنا تو میں تمہیں بتاؤں گا کہ دے دو یا نہ دو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5019) (ضعیف الإسناد)» (اس کی سند میں ایک راوی اعرابی مبہم ہے)
Narrated Salim al-Makki: That a bedouin told him that he brought a milch she-camel in the time of the Messenger of Allah ﷺ. He alighted with Talhah ibn Ubaydullah (and wanted to sell his milch animal to him). He said: The Prophet ﷺ forbade a townsman to sell for a man from the desert. But go to the market and see who buys from you. consult me thereafter, and then I shall ask you (to sell) or forbid you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3434
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن إسحاق عنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 123
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شہری کسی دیہاتی کی چیز نہ بیچے، لوگوں کو چھوڑ دو (انہیں خود سے لین دین کرنے دو) اللہ بعض کو بعض کے ذریعہ روزی دیتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البیوع 6 (1522)، (تحفة الأشراف: 2721)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 13 (1223)، سنن النسائی/البیوع 15 (4500)، سنن ابن ماجہ/التجارات 15 (2177)، مسند احمد (2/379، 465) (صحیح)»
Narrated Jabir: The Messenger of Allah ﷺ as saying: A townsman must not sell for a man from the desert ; and leave people alone, Allah will give them provision from one another.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3435
12. باب: کوئی شخص ایسا جانور خریدے جس کے تھن میں کئی دن کا دودھ اکٹھا کیا گیا ہو اور بعد میں اس دھوکہ کا علم ہونے پر اس کو یہ بیع ناپسند ہو تو کیا کرے؟
Chapter: One Who Buys An Animal Whose Udders Have Been Tied Up.
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:"لا تلقوا الركبان للبيع، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، ولا تصروا الإبل والغنم، فمن ابتاعها بعد ذلك فهو بخير النظرين، بعد ان يحلبها فإن رضيها امسكها، وإن سخطها ردها وصاعا من تمر". (مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"لَا تَلَقَّوْا الرُّكْبَانَ لِلْبَيْعِ، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا تُصَرُّوا الْإِبِلَ وَالْغَنَمَ، فَمَنِ ابْتَاعَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، بَعْدَ أَنْ يَحْلُبَهَا فَإِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ سَخِطَهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجارتی قافلوں سے آگے بڑھ کر نہ ملو ۱؎، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اور اونٹ و بکری کا تصریہ ۲؎ نہ کرو جس نے کوئی ایسی بکری یا اونٹنی خریدی تو اسے دودھ دوہنے کے بعد اختیار ہے، چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو پسند کر کے اسے واپس کر دے، اور ساتھ میں ایک صاع کھجور دیدے ۳؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 64 (2150)، صحیح مسلم/البیوع 4 (1515)، سنن النسائی/ البیوع 15 (4501)، سنن ابن ماجہ/التجارات 13 (2172)، (تحفة الأشراف: 13802)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 13 (1223)، موطا امام مالک/البیوع 45 (96)، مسند احمد (2/379، 465) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی مال بازار میں پہنچنے سے پہلے راستہ میں مالکان سے مل کر سودا نہ طے کر لو۔ ۲؎: تھن میں دو یا تین دن تک دودھ چھوڑے رکھنے اور نہ دوہنے کو تصریہ کہتے ہیں تا کہ اونٹنی یا بکری دودھاری سمجھی جائے اور جلد اور اچھے پیسوں میں بک جائے۔ ۳؎: کسی ثابت شدہ حدیث کی تردید یہ کہہ کر نہیں کی جا سکتی کہ کسی مخالف اصل سے اس کا ٹکراو ہے یا اس میں مثلیت نہیں پائی جارہی ہے اس لئے عقل اسے تسلیم نہیں کرتی بلکہ شریعت سے جو چیز ثابت ہو وہی اصل ہے اور اس پر عمل واجب ہے، اسی طرح حدیث مصراۃ ان احادیث میں سے ہے جو ثابت شدہ ہیں لہٰذا کسی قیل وقال کے بغیر اس پر عمل واجب ہے۔
Narrated Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: Do not go out to meet riders to conduct business with them ; none of you must buy in opposition to one another; and do not tie up the udders of camels and sheep, for he who buys them after that has been done has two courses open to him after milking them: he may keep them if he is pleased with them, or he may return them along with a sa' of dates is he is displeased with them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3436
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2150) صحيح مسلم (1515)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تصریہ کی ہوئی بکری خریدی تو اسے تین دن تک اختیار ہے چاہے تو اسے لوٹا دے، اور ساتھ میں ایک صاع غلہ (جو غلہ بھی میسر ہو) دیدے، گیہوں دینا ضروری نہیں“۔
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ as saying: If anyone buys sheep whose udders have been tied up, he has option for three days: he may return it if he desires with a sa' of any grain, not (necessarily) wheat.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3437
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے تھن میں دودھ جمع کی ہوئی بکری خریدی اسے دوہا، تو اگر اسے پسند ہو تو روک لے اور اگر ناپسند ہو تو دوہنے کے عوض ایک صاع کھجور دے کر اسے واپس پھیر دے۔
Narrated Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: If anyone buys sheep or goat whose udders have been tied up and he milked it, he may keep it if he is pleased with it, or he may return it if he is displeased with it. There is one sa' of dates (which he must give to the seller) for milking it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3438