عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(بایع پر) غلام و لونڈی کے عیب کی جواب دہی کی مدت تین دن ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 44 (2245)، (تحفة الأشراف: 9917)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/143، 150، 152)، سنن الدارمی/البیوع 18 (2594) (ضعیف)» (حسن بصری کا سماع عقبہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
Narrated Uqbah ibn Amir: The Prophet ﷺ said: The contractual obligation of a slave is three days.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3499
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف ابن ماجه (2245) قال المنذري: ”ھذا منقطع فإن الحسن لم يصح له سماع من عقبة“ (انظر عون المعبود 304/3) وللحديث طريق آخر ضعيف عند ابن ماجه (2244) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 124
(مرفوع) حدثنا هارون بن عبد الله، حدثني عبد الصمد، حدثنا همام، عن قتادة بإسناده ومعناه، زاد إن وجد داء في الثلاث ليالي رد بغير بينة وإن وجد داء بعد الثلاث كلف البينة، انه اشتراه وبه هذا الداء، قال ابو داود: هذا التفسير من كلام قتادة. (مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، زَادَ إِنْ وَجَدَ دَاءً فِي الثَّلَاثِ لَيَالِي رُدَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ وَإِنْ وَجَدَ دَاءً بَعْدَ الثَّلَاثِ كُلِّفَ الْبَيِّنَةَ، أَنَّهُ اشْتَرَاهُ وَبِهِ هَذَا الدَّاءُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا التَّفْسِيرُ مِنْ كَلَامِ قَتَادَةَ.
اس سند سے بھی قتادہ سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے، اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ اگر تین دن کے اندر ہی اس میں کوئی عیب پائے تو وہ اسے بغیر کسی گواہ کے لوٹا دے گا، اور اگر تین دن بعد اس میں کوئی عیب نکلے تو اس سے اس بات پر بینہ (گواہ) طلب کیا جائے گا، کہ جب اس نے اسے خریدا تھا تو اس میں یہ بیماری اور یہ عیب موجود تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ تفسیر قتادہ کے کلام کا ایک حصہ ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 9917) (ضعیف) وسندہ إلی قتادة صحیح» (حسن بصری کا سماع عقبہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے)
The tradition mentioned above has also been transmitted by Qatadah through a different chain of narrators to the same effect. This version adds: "If he finds defect (in the slave) within three days, he may return it without evidence; if he finds a defect after three days, he will be required to produce evidence that he (the slave) had the defect when he bought it. " Abu Dawud said: This explanation is from the words of Qatadah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3500
قال الشيخ الألباني: ضعيف وسنده إلى قتادة صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف ضعيف انظر الحديث السابق (3506) و إن كان ھذا من قول قتادة فسنده صحيح انوار الصحيفه، صفحه نمبر 124
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خراج ضمان سے جڑا ہوا ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 53 (1285)، سنن النسائی/ البیوع 13 (4495)، سنن ابن ماجہ/التجارات 43 (2242، 2243)، (تحفة الأشراف: 16755)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/49، 208، 237) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: مثلاً خریدار نے ایک غلام خریدا اسی دوران غلام نے کچھ کمائی کی تو اس کا حق دار مشتری ہو گا بائع نہیں کیونکہ غلام کے کھو جانے یا بھاگ جانے کی صورت میں مشتری ہی اس کا ضامن ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن خالد، عن سفيان، عن محمد بن عبد الرحمن، عن مخلد بن خفاف الغفاري، قال:" كان بيني وبين اناس شركة في عبد فاقتويته، وبعضنا غائب فاغل علي غلة فخاصمني في نصيبه إلى بعض القضاة، فامرني ان ارد الغلة، فاتيت عروة بن الزبير فحدثته، فاتاه عروة فحدثه، عن عائشة رضي الله عنها، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الخراج بالضمان". (مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خُفَافٍ الْغِفَارِيِّ، قَال:" كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ أُنَاسٍ شَرِكَةٌ فِي عَبْدٍ فَاقْتَوَيْتُهُ، وَبَعْضُنَا غَائِبٌ فَأَغَلَّ عَلَيَّ غَلَّةً فَخَاصَمَنِي فِي نَصِيبِهِ إِلَى بَعْضِ الْقُضَاةِ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَرُدَّ الْغَلَّةَ، فَأَتَيْتُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ فَحَدَّثْتُهُ، فَأَتَاهُ عُرْوَةُ فَحَدَّثَهُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ".
(مخلد بن خفاف) غفاری کہتے ہیں میرے اور چند لوگوں کے درمیان ایک غلام مشترک تھا، میں نے اس غلام سے کچھ کام لینا شروع کیا اور ہمارا ایک حصہ دار موجود نہیں تھا اس غلام نے کچھ غلہ کما کر ہمیں دیا تو میرا شریک جو غائب تھا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور معاملہ ایک قاضی کے پاس لے گیا، اس قاضی نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے حصہ کا غلہ اسے دے دوں، پھر میں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے اسے بیان کیا، تو عروہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور ان سے وہ حدیث بیان کی جو انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی تھی آپ نے فرمایا: ”منافع اس کا ہو گا جو ضامن ہو گا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 16755) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: عروہ نے اس حصہ دار سے یہ حدیث اس لئے بیان کی تاکہ وہ مخلد سے غلہ نہ لے کیونکہ غلام اس وقت مخلد کے ضمان میں تھا اس لئے اس کی کمائی کے مستحق بھی تنہا وہی ہوئے۔
Narrated Makhlad ibn Khufaf al-Ghifari: I and some people were partners in a slave. I employed him on some work in the absence of one of the partners. He got earnings for me. He disputed me and the case of his claim to his share in the earnings to a judge, who ordered me to return the earnings (i. e. his share) to him. I then came to Urwah ibn az-Zubayr, and related the matter to him. Urwah then came to him and narrated to him a tradition from the Messenger of Allah ﷺ on the authority of Aishah: Profit follows responsibility.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3502
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: حسن انظر الحديث السابق (3509)
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن مروان، حدثنا ابي، حدثنا مسلم بن خالد الزنجي، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها،" ان رجلا ابتاع غلاما، فاقام عنده ما شاء الله ان يقيم، ثم وجد به عيبا فخاصمه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فرده عليه، فقال الرجل: يا رسول الله، قد استغل غلامي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الخراج بالضمان"، قال ابو داود: هذا إسناد ليس بذاك. (مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ غُلَامًا، فَأَقَامَ عِنْدَهُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يُقِيمَ، ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا فَخَاصَمَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدِ اسْتَغَلَّ غُلَامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا إِسْنَادٌ لَيْسَ بِذَاكَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے ایک غلام خریدا، وہ غلام جب تک اللہ کو منظور تھا اس کے پاس رہا، پھر اس نے اس میں کوئی عیب پایا تو اس کا مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام بائع کو واپس کرا دیا، تو بائع کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس نے میرے غلام کے ذریعہ کمائی کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خراج (منافع) اس شخص کا حق ہے جو ضامن ہو“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ سند ویسی (قوی) نہیں ہے (جیسی سندوں سے کوئی حدیث ثابت ہوتی ہے)
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/ التجارات 43 (2243)، (تحفة الأشراف: 17243)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/80، 116) (حسن)» بما قبلہ (مسلم زنجی حافظہ کے کمزور راوی ہیں)
Narrated Aishah, Ummul Muminin: A man bought a slave, and he remained with him as long as Allah wished him to remain. He then found defect in him. He brought his dispute with him to the Prophet ﷺ and he returned him to him. The man said: Messenger of Allah, my slave earned some wages. The Messenger of Allah ﷺ then said: Profit follows responsibility. Abu Dawud said: This chain of narrators (of this version) is not reliable.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3503
قال الشيخ الألباني: حسن لغيره
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (3243) مسلم بن خالد ضعيف وقال الھيثمي: والجمھور ضعفه (مجمع الزوائد 45/5) وقيل: تابعه خالد بن مھران مختصرًا المرفوع فقط (تاريخ بغداد 8/ 297298) والسند إليه ضعيف والحديث السابق (الأصل: 3508) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 124
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى بن فارس، حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا ابي، عن ابي عميس، اخبرني عبد الرحمن بن قيس بن محمد بن الاشعث، عن ابيه، عن جده، قال: اشترى الاشعث رقيقا من رقيق الخمس من عبد الله بعشرين الفا، فارسل عبد الله إليه في ثمنهم، فقال: إنما اخذتهم بعشرة آلاف. فقال عبد الله: فاختر رجلا يكون بيني وبينك، قال الاشعث: انت بيني وبين نفسك، قال عبد الله: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة، فهو ما يقول رب السلعة او يتتاركان". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ قَيْسِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَشْعَثِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: اشْتَرَى الْأَشْعَثُ رَقِيقًا مِنْ رَقِيقِ الْخُمْسِ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بِعِشْرِينَ أَلْفًا، فَأَرْسَلَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَيْهِ فِي ثَمَنِهِمْ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَخَذْتُهُمْ بِعَشَرَةِ آلَافٍ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاخْتَرْ رَجُلًا يَكُونُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ، قَالَ الْأَشْعَثُ: أَنْتَ بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِكَ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا بَيِّنَةٌ، فَهُوَ مَا يَقُولُ رَبُّ السِّلْعَةِ أَوْ يَتَتَارَكَانِ".
محمد بن اشعث کہتے ہیں اشعث نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے خمس کے غلاموں میں سے چند غلام بیس ہزار میں خریدے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشعث سے ان کی قیمت منگا بھیجی تو انہوں نے کہا کہ میں نے دس ہزار میں خریدے ہیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی شخص کو چن لو جو ہمارے اور تمہارے درمیان معاملے کا فیصلہ کر دے، اشعث نے کہا: آپ ہی میرے اور اپنے معاملے میں فیصلہ فرما دیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب بائع اور مشتری (بیچنے اور خریدنے والے) دونوں کے درمیان (قیمت میں) اختلاف ہو جائے اور ان کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ ہو تو صاحب مال و سامان جو بات کہے وہی مانی جائے گی، یا پھر دونوں بیع کو فسخ کر دیں ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 43 (1270)، سنن النسائی/البیوع 80 (4652)، سنن ابن ماجہ/التجارات 19 (2186)، (تحفة الأشراف: 9358، 9546)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/446) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: خریدار اور بیچنے والے کے مابین قیمت کی تعیین و تحدید میں اگر اختلاف ہو جائے اور ان کے درمیان کوئی گواہ موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں بیچنے والا قسم کھا کر کہے گا کہ میں نے اس سامان کو اتنے میں نہیں بلکہ اتنے میں بیچا ہے، اب خریدار اس کی قسم اور قیمت کی تعیین پر راضی ہے تو بہتر ورنہ خریدار بھی قسم کھا کر یہ کہے کہ میں نے یہ سامان اتنے میں نہیں بلکہ اتنے میں خریدا ہے، پھر بیع فسخ کر دی جائے گی۔
Narrated Abdullah ibn Masud: Muhammad ibn al-Ashath said: Al-Ashath bought slaves of booty from Abdullah ibn Masud for twenty thousand (dirhams. Abdullah asked him for payment of their price. He said: I bought them for ten thousand (dirhams). Abdullah said: Appoint a man who may adjudicate between me and you. Al-Ashath said: (I appoint) you between me and yourself. Abdullah said: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: If both parties in a business transaction differ (on the price of an article), and they have witness between them, the statement of the owner of the article will be accepted (as correct) or they may annul the transaction.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3504
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وللحديث شواھد عند ابن الجارود (624) وغيره
قاسم بن عبدالرحمٰن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما نے ایک غلام اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بیچا، پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث الفاظ کی کچھ کمی و بیشی کے ساتھ بیان کی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/ التجارات 19 (2186)، (تحفة الأشراف: 9358)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/466) (صحیح)»
Al-Qasim bin Abdur-Rahman reported on the authority of his father: Ibn Masud sold slaves to al-Ashath bin Qais. He then narrated the rest of the tradition to the same effect with some variation of words.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3505
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن رواه الدارقطني (3/20 ح2836) وصححه ابن الجارود (624) وللحديث شواھد
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ابن جريج، عن ابي الزبير، عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشفعة في كل شرك ربعة او حائط لا يصلح ان يبيع حتى يؤذن شريكه، فإن باع فهو احق به حتى يؤذنه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شِرْكٍ رَبْعَةٍ أَوْ حَائِطٍ لَا يَصْلُحُ أَنْ يَبِيعَ حَتَّى يُؤْذِنَ شَرِيكَهُ، فَإِنْ بَاعَ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ حَتَّى يُؤْذِنَهُ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شفعہ ۱؎ ہر مشترک چیز میں ہے، خواہ گھر ہو یا باغ کی چہار دیواری، کسی شریک کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے شریک کو آگاہ کئے بغیر بیچ دے، اور اگر بغیر آگاہ کئے بیچ دیا تو شریک اس کے لینے کا زیادہ حقدار ہے یہاں تک کہ وہ اسے دوسرے کے ہاتھ بیچنے کی اجازت دیدے ۲؎“۔
وضاحت: ۱؎: شفعہ وہ استحقاق ہے جس کے ذریعہ شریک اپنے شریک کا وہ حصہ جو دوسرے کی ملکیت میں جا چکا ہے قیمت ادا کر کے حاصل کر سکے۔ ۲؎: اگر شریک لینے کا خواہش مند ہے تو مشتری نے جتنی قیمت دی ہے، وہ قیمت دے کر لے لے، مشتری کے پیسے واپس ہو جائیں گے، لیکن اگر اس نے آگاہ کر دیا، اور شریک لینے کا خواہش مند نہیں ہے، تو جس کے ہاتھ بھی چاہے بیچے حق شفغہ باقی نہ رہے گا۔
Narrated Jabir: The Messenger of Allah ﷺ as saying: There is the right of option regarding everything which is shared, whether a dwelling or a garden. It is not lawful to sell before informing one's partner, but if he sells without informing him, he has the greatest right to it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3506
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس چیز میں رکھا ہے، جو تقسیم نہ ہوئی ہو، لیکن جب حد بندیاں ہو گئی ہوں، اور راستے الگ الگ نکا ل دئیے گئے ہوں تو اس میں شفعہ نہیں ہے۔
Narrated Jabir bin Abdullah: The Messenger of Allah ﷺ decreed the right to buy the neighboring property applicable to everything which is not divided, but when boundaries are fixed and separate roads made, there is no option.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3507
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب زمین کا بٹوارہ ہو چکا ہو اور ہر ایک کی حد بندی کر دی گئی ہو تو پھر اس میں شفعہ نہیں رہا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15213، 13201)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الأحکام 3 (2497) (صحیح)»