(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، اخبرنا ثابت، عن ابن عمر بن ابي سلمة، عن ابيه، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا اصابت احدكم مصيبة، فليقل: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم عندك احتسب مصيبتي، فآجرني فيها، وابدل لي خيرا منها". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَصَابَتْ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ، فَلْيَقُلْ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ عِنْدَكَ أَحْتَسِبُ مُصِيبَتِي، فَآجِرْنِي فِيهَا، وَأَبْدِلْ لِي خَيْرًا مِنْهَا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت پہنچے (تھوڑی ہو یا زیادہ) تو اسے چاہیئے کہ: «إنا لله وإنا إليه راجعون»، «اللهم عندك أحتسب مصيبتي فآجرني فيها وأبدل لي خيرا منها» بیشک ہم اللہ کے ہیں اور لوٹ کر بھی اسی کے پاس جانے والے ہیں، اے اللہ! میں تیرے ہی پاس اپنی مصیبت کو پیش کرتا ہوں تو مجھے اس مصیبت کے بدلے جو مجھے پہنچ چکی ہے ثواب عطا کر اور اس مصیبت کو خیر سے بدل دے، کہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18202)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/317) (ضعیف)» (ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعيفة، للالبانی 2382)
Narrated Umm Salamah: The Messenger of Allah ﷺ as saying: When one of you is afflicted with a calamity, he should say: "We belong to Allah, and to Him we do return. " O Allah, I expect reward from Thee from this affliction, so give me reward for it, and give me a better compensation.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3113
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وللحديث شواھد عند مسلم (918) وغيره
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مردوں پر سورۃ، يس، پڑھو ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 4 (1448)، (تحفة الأشراف: 11479)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/26،27) (ضعیف)» (اس کے راوی ابو عثمان اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں)
Narrated Maqil ibn Yasar: The Prophet ﷺ said: Recite Surah Ya-Sin over your dying men. This is the version of Ibn al-Ala
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3115
قال الشيخ الألباني: ضعيف وهذا لفظ ابن العلاء
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (1448) أبو عثمان ھذا مجهول كما قال ابن المديني وغيره وأبوه لا يعرف انظر التحرير (8240) والحديث ضعفه الدار قطني انوار الصحيفه، صفحه نمبر 115
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سليمان بن كثير، عن يحيى بن سعيد، عن عمرة، عن عائشة، قالت: لما قتل زيد بن حارثة، وجعفر،وعبد الله بن رواحة، جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، يعرف في وجهه الحزن، وذكر القصة. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُتِلَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرٌ،وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ الْحُزْنُ، وَذَكَرَ الْقِصَّةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابوطالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم قتل کر دئیے گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی) تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھ گئے، آپ کے چہرے سے غم ٹپک رہا تھا، اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔
Narrated Aishah: When Zaid bin Harithah, Jafar and Abdullah bin Rawahah were killed, the Messenger of Allah ﷺ sat down in the mosque and grief was visible in his face. Then he (the narrator) mentioned the rest of the tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3116
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1305) صحيح مسلم (935)
(مرفوع) حدثنا يزيد بن خالد بن عبد الله بن موهب الهمداني، حدثنا المفضل، عن ربيعة بن سيف المعافري، عن ابي عبد الرحمن الحبلي،عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: قبرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني ميتا، فلما فرغنا، انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانصرفنا معه، فلما حاذى بابه وقف، فإذا نحن بامراة مقبلة، قال: اظنه عرفها، فلما ذهبت، إذا هي فاطمة عليها السلام، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما اخرجك يا فاطمة من بيتك؟ فقالت: اتيت يا رسول الله اهل هذا البيت، فرحمت إليهم ميتهم، او عزيتهم به، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلعلك بلغت معهم الكدى، قالت: معاذ الله، وقد سمعتك تذكر فيها ما تذكر، قال: لو بلغت معهم الكدى" فذكر تشديدا في ذلك، فسالت ربيعة عن الكدى، فقال: القبور فيما احسب. (مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَبَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي مَيِّتًا، فَلَمَّا فَرَغْنَا، انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَانْصَرَفْنَا مَعَهُ، فَلَمَّا حَاذَى بَابَهُ وَقَفَ، فَإِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ مُقْبِلَةٍ، قَالَ: أَظُنُّهُ عَرَفَهَا، فَلَمَّا ذَهَبَتْ، إِذَا هِيَ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَخْرَجَكِ يَا فَاطِمَةُ مِنْ بَيْتِكِ؟ فَقَالَتْ: أَتَيْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَهْلَ هَذَا الْبَيْتِ، فَرَحَّمْتُ إِلَيْهِمْ مَيِّتَهُمْ، أَوْ عَزَّيْتُهُمْ بِهِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلَعَلَّكِ بَلَغْتِ مَعَهُمُ الْكُدَى، قَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ، وَقَدْ سَمِعْتُكَ تَذْكُرُ فِيهَا مَا تَذْكُرُ، قَالَ: لَوْ بَلَغْتِ مَعَهُمُ الْكُدَى" فَذَكَرَ تَشْدِيدًا فِي ذَلِكَ، فَسَأَلْتُ رَبِيعَةَ عَنِ الْكُدَى، فَقَالَ: الْقُبُورُ فِيمَا أَحْسَبُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک میت کو دفنایا، جب ہم تدفین سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے، ہم بھی آپ کے ساتھ لوٹے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کے دروازے کے سامنے آئے تو رک گئے، اچانک ہم نے دیکھا کہ ایک عورت چلی آ رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو پہچان لیا، جب وہ چلی گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”فاطمہ! تم اپنے گھر سے کیوں نکلی؟“، انہوں نے کہا: ”اللہ کے رسول! میں اس گھر والوں کے پاس آئی تھی تاکہ میں ان کی میت کے لیے اللہ سے رحم کی دعا کروں یا ان کی تعزیت کروں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”شاید تم ان کے ساتھ کُدی (مکہ میں ایک جگہ ہے) گئی تھی“، انہوں نے کہا: معاذاللہ! میں تو اس بارے میں آپ کا بیان سن چکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ان کے ساتھ کدی گئی ہوتی تو میں ایسا ایسا کرتا“، (اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت رویے کا اظہار فرمایا)۔ راوی کہتے ہیں: میں نے ربیعہ سے کدی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: جیسا کہ میں سمجھ رہا ہوں اس سے قبریں مراد ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 27 (1881)، (تحفة الأشراف: 8853)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/169، 223) (ضعیف) (اس کے راوی''ربیعہ '' کی ثقاہت میں بہت کلام ہے)»
Narrated Abdullah ibn Amr ibn al-As: We buried a deceased person in the company of the Messenger of Allah ﷺ. When we had finished, the Messenger of Allah ﷺ returned and we also returned with him. When he approached his door, he stopped, and we saw a woman coming towards him. He (the narrator) said: I think he recognized her. When she went away, we came to know that she was Fatimah. The Messenger of Allah ﷺ said to her: What brought you out of your house, Fatimah? She replied: I came to the people of this house, Messenger of Allah, and I showed pity and expressed my condolences to them for their deceased relation. The Messenger of Allah ﷺ said: You might have gone to the graveyard with them. She replied: I seek refuge in Allah! I heard you referring to what you mentioned. He said: If you had gone to the graveyard. . . He then mentioned severe words about it. I then asked Rabiah (a narrator of this tradition) about al-kuda (stony land). He replied: I think it means the graves.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3117
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن أخرجه النسائي (1881 وسنده حسن) ربيعة بن سيف حسن الحديث
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا شعبة، عن ثابت، عن انس، قال: اتى نبي الله صلى الله عليه وسلم على امراة تبكي على صبي لها، فقال لها" اتقي الله، واصبري، فقالت: وما تبالي انت بمصيبتي؟ فقيل لها: هذا النبي صلى الله عليه وسلم، فاتته، فلم تجد على بابه بوابين، فقالت: يا رسول الله، لم اعرفك. فقال: إنما الصبر عند الصدمة الاولى، او عند اول صدمة". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَتَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ تَبْكِي عَلَى صَبِيٍّ لَهَا، فَقَالَ لَهَا" اتَّقِي اللَّهَ، وَاصْبِرِي، فَقَالَتْ: وَمَا تُبَالِي أَنْتَ بِمُصِيبَتِي؟ فَقِيلَ لَهَا: هَذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْهُ، فَلَمْ تَجِدْ عَلَى بَابِهِ بَوَّابِينَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَعْرِفْكَ. فَقَالَ: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى، أَوْ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بچے کی موت کے غم میں (بآواز) رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ۱؎“، اس عورت نے کہا: آپ کو میری مصیبت کا کیا پتا ۲؎؟، تو اس سے کہا گیا: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں (جب اس کو اس بات کی خبر ہوئی) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ کے دروازے پہ اسے کوئی دربان نہیں ملا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو“ یا فرمایا: ”صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو“۔
Narrated Anas: The Prophet ﷺ came upon a woman who was weeping for her child. He said to her: Fear Allah and have patience. She said: What have you to do with my calamity ? She was then told that he was the Prophet ﷺ. She, therefore, came to him. She did not find doorkeepers at his gate. She said: I did not recognize you, Messenger of Allah. He said: Endurance is shown only at a first blow.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3118
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1252) صحيح مسلم (926)
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن عاصم الاحول، قال: سمعت ابا عثمان، عن اسامة بن زيد: ان ابنة لرسول الله صلى الله عليه وسلم ارسلت إليه، وانا معه، وسعد، واحسب ابيا ان ابني او بنتي قد حضر، فاشهدنا، فارسل يقرئ السلام، فقال: قل" لله ما اخذ وما اعطى، وكل شيء عنده إلى اجل، فارسلت تقسم عليه، فاتاها، فوضع الصبي في حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ونفسه تقعقع، ففاضت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له سعد: ما هذا؟ قال: إنها رحمة وضعها الله في قلوب من يشاء، وإنما يرحم الله من عباده الرحماء". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ: أَنَّ ابْنَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِ، وَأَنَا مَعَهُ، وَسَعْدٌ، وَأَحْسَبُ أُبَيًّا أَنَّ ابْنِي أَوْ بِنْتِي قَدْ حُضِرَ، فَاشْهَدْنَا، فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ، فَقَالَ: قُلْ" لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجَلٍ، فَأَرْسَلَتْ تُقْسِمُ عَلَيْهِ، فَأَتَاهَا، فَوُضِعَ الصَّبِيُّ فِي حِجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ، فَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا هَذَا؟ قَالَ: إِنَّهَا رَحْمَةٌ وَضَعَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ مَنْ يَشَاءُ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ".
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو یہ پیغام دے کر بلا بھیجا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کے موت کا وقت قریب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اس وقت میں اور سعد اور میرا خیال ہے کہ ابی بھی آپ کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواباً) سلام کہلا بھیجا، اور فرمایا: ”ان سے (جا کر) کہو کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو چیز کہ وہ لے، اور اسی کی ہے جو چیز کہ وہ دے، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے“۔ پھر زینب رضی اللہ عنہا نے دوبارہ بلا بھیجا اور قسم دے کر کہلایا کہ آپ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، بچہ آپ کی گود میں رکھا گیا، اس کی سانس تیز تیز چل رہی تھی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھیں بہ پڑیں، سعد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رحمت ہے، اللہ جس کے دل میں چاہتا ہے اسے ڈال دیتا ہے، اور اللہ انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو دوسروں کے لیے رحم دل ہوتے ہیں“۔
Narrated Usamah bin Zaid: A daughter of Messenger of Allah ﷺ sent him message while I and Saad were with him and I think Ubayy was also there: My son or daughter (the narrator is doubtful) is dying, so come to us. He sent her greeting, saying at the same time: Say! What Allah has been taken belongs to Him, what He has given (belongs to Him), and He has appointed time for everything. She then sent a message adjuring him (to come to her). So he came to her and the child who was on the point of death was placed in the hearts of those whom He wished. Allah shows compassion only to those of His servants who are compassionate.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3119
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1284) صحيح مسلم (923)
(مرفوع) حدثنا شيبان بن فروخ، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت البناني، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ولد لي الليلة غلام، فسميته باسم ابي إبراهيم، فذكر الحديث، قال انس: لقد رايته يكيد بنفسه بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدمعت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: تدمع العين، ويحزن القلب، ولا نقول إلا ما يرضى ربنا، إنا بك يا إبراهيم لمحزونون". (مرفوع) حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَنَسٌ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَكِيدُ بِنَفْسِهِ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَمَعَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَدْمَعُ الْعَيْنُ، وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، إِنَّا بِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات میرے یہاں بچہ پیدا ہوا، میں نے اس کا نام اپنے والد ابراہیم کے نام پر رکھا“، اس کے بعد راوی نے پوری حدیث بیان کی، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، آپ نے فرمایا: ”آنکھ آنسو بہا رہی ہے، دل غمگین ہے ۱؎، اور ہم وہی کہہ رہے ہیں جو ہمارے رب کو پسند آئے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 43 (1303)، صحیح مسلم/الفضائل 15 (2315)، (تحفة الأشراف: 405)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/194) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ آنکھ سے آنسو کا نکلنا اور غمزدہ ہونا صبر کے منافی نہیں بلکہ یہ رحم دلی کی نشانی ہے، البتہ نوحہ اور شکوہ کرنا صبر کے منافی اور حرام ہے۔ ۲؎: ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔
Narrated Anas bin Malik: The Messenger of Allah ﷺ as saying: A child was born to me at night and I named him Ibrahim after his. He then narrated the rest of the tradition. Anas said: I saw it at the point of the death before the Messenger of Allah ﷺ. Tears began to fall from the eyes of the Messenger of Allah ﷺ. He said: The eye weeps and the heart grieves, but we say only what our Lord is pleased with, and we are grieved for you, Ibrahim.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3120
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2315) وأصله عند البخاري (1303)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ (دلچسپی سے) سننے والی پر لعنت فرمائی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4194)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/65) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوة: محمد، ان کے والد اور دادا سب ضعیف ہیں)
Narrated Abu Saeed al-Khudri: The Messenger of Allah ﷺ cursed the wailing woman and the woman who listens to her.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3122
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قال أبو حاتم الرازي: ”حديث منكر،محمد بن الحسن (بن عطية العوفي) وأبوه وجده،ضعفاء في الحديث“ (علل الحديث 369/1 ح 1095) وانظر حديث: 452 لضعف عطية العوفي انوار الصحيفه، صفحه نمبر 115