سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
28. باب فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
باب: میت پر رونا۔
حدیث نمبر: 3126
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَنَسٌ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَكِيدُ بِنَفْسِهِ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَمَعَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَدْمَعُ الْعَيْنُ، وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، إِنَّا بِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات میرے یہاں بچہ پیدا ہوا، میں نے اس کا نام اپنے والد ابراہیم کے نام پر رکھا“، اس کے بعد راوی نے پوری حدیث بیان کی، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، آپ نے فرمایا: ”آنکھ آنسو بہا رہی ہے، دل غمگین ہے ۱؎، اور ہم وہی کہہ رہے ہیں جو ہمارے رب کو پسند آئے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں ۲؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 43 (1303)، صحیح مسلم/الفضائل 15 (2315)، (تحفة الأشراف: 405)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/194) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ آنکھ سے آنسو کا نکلنا اور غمزدہ ہونا صبر کے منافی نہیں بلکہ یہ رحم دلی کی نشانی ہے، البتہ نوحہ اور شکوہ کرنا صبر کے منافی اور حرام ہے۔
۲؎: ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2315)
وأصله عند البخاري (1303)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 3126 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3126
فوائد ومسائل:
معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ صاحب اختیار نہ تھے۔
بلکہ اللہ کی بارگاہ میں بالکل بے اختیار عاجز اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے والے بندے اور رسولﷺ تھے۔
آپﷺ کا یہ اسوہ حسنۃ ہر مسلمان کےلئے قابل اتباع ہے۔
اس میں غم کا فطری اظہار بھی ہے اور یہ رب کے فیصلے پر تسلیم ورضا کا آئینہ دار بھی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3126
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1303
1303. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابو سیف لوہار ؓ کے ہاں گئے جو حضرت ابراہیم ؓ کا رضاعی باپ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم کو لے کر بوسہ دیا اور اس کےاوپر اپنا منہ رکھا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ ابو سیف کے ہاں گئے تو حضرت ابراہیم ؓ حالت نزع میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ بھی روتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”اے ابن عوف ؓ !یہ تو ایک رحمت ہے۔“ پھر آپ ﷺ نے روتے ہوئے فرمایا:”آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے، لیکن ہم کو زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقیناً غمگین ہیں۔“ اس روایت کو موسیٰ نے سلیمان بن مغیرہ سے بھی بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1303]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اس طرح سے آنکھوں سے آنسو نکل آئیں اور دل غمگین ہو اور زبان سے کوئی لفظ اللہ کی ناراضی کا نہ نکلے تو ایسا رونا بے صبری نہیں، بلکہ یہ آنسو رحمت ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مرنے والے کو محبت آمیز لفظوں سے مخاطب کر کے اس کے حق میں کلمہ خیر کہنا درست ہے۔
آنحضرتﷺ کے یہ صاحبزادے ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے جو مشیت ایزدی کے تحت حالت شیر خوارگی ہی میں انتقال کر گئے۔
رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1303
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1303
1303. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابو سیف لوہار ؓ کے ہاں گئے جو حضرت ابراہیم ؓ کا رضاعی باپ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابراہیم کو لے کر بوسہ دیا اور اس کےاوپر اپنا منہ رکھا۔ اس کے بعد ہم دوبارہ ابو سیف کے ہاں گئے تو حضرت ابراہیم ؓ حالت نزع میں تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ بھی روتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”اے ابن عوف ؓ !یہ تو ایک رحمت ہے۔“ پھر آپ ﷺ نے روتے ہوئے فرمایا:”آنکھ اشکبار اور دل غمزدہ ہے، لیکن ہم کو زبان سے وہی کہنا ہے جس سے ہمارا مالک راضی ہو۔ اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے یقیناً غمگین ہیں۔“ اس روایت کو موسیٰ نے سلیمان بن مغیرہ سے بھی بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1303]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابو سیف کا نام براء بن اوس انصاری ہے۔
ان کی بیوی ام بردہ خولہ بنت منذر نے حضرت ابراہیم ؓ کو دودھ پلایا۔
ان کی وفات 10 ربیع الاول 10 ہجری کو ہوئی جبکہ ان کی پیدائش ماہ ذوالحجہ 8 ہجری ہے، اس طرح وہ ڈیڑھ سال زندہ رہے۔
ان کی وفات پر رسول اللہ ﷺ کا آبدیدہ ہونا شفقت و رحمت کی وجہ سے تھا، جزع و فزع اس کی قطعا بنیاد نہ تھی۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ محض رونے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ اس کے ساتھ واویلا نہ ہو، چنانچہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے کہ مجھے دو آوازوں سے منع کیا گیا:
ایک تو لہو و لعب اور موسیقی کے ساتھ گاتے ہوئے آواز نکالنا اور دوسرے مصیبت کے وقت رونا دھونا، منہ نوچنا اور گریبان پھاڑنا۔
رہا مصیبت کے وقت آبدیدہ ہونا تو یہ اللہ کی رحمت ہے۔
جو شخص ایسے حالات میں کسی پر رحم کا اظہار نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
(فتح الباري: 222/3)
موسیٰ بن اسماعیل تبوذ کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں متصل سند سے بیان کیا ہے، لیکن اس کے الفاظ میں معمولی سا اختلاف ہے۔
(فتح الباري: 223/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1303