سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai Wal-Imarah)
17. باب فِي كَرَاهِيَةِ الاِفْتِرَاضِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ
17. باب: آخری زمانہ میں عطیہ لینے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: The Disapproval of Taking Share In Later Times.
حدیث نمبر: 2958
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن ابي الحواري، حدثنا سليم بن مطير شيخ من اهل وادي القرى، قال: حدثني ابى مطير، انه خرج حاجا حتى إذا كان بالسويداء إذا برجل، قد جاء كانه يطلب دواء وحضضا، فقال: اخبرني من سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع وهو يعظ الناس ويامرهم وينهاهم؟ فقال:" يا ايها الناس خذوا العطاء، ما كان عطاء فإذا تجاحفت قريش على الملك وكان عن دين احدكم فدعوه"، قال ابو داود، ورواه ابن المبارك، عن محمد بن يسار، عن سليم بن مطير.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْحَوَارِيِّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ مُطَيْرٍ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ وَادِي الْقُرَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِى مُطَيْرٌ، أَنَّهُ خَرَجَ حَاجًّا حَتَّى إِذَا كَانَ بِالسُّوَيْدَاءِ إِذَا بِرَجُلٍ، قَدْ جَاءَ كَأَنَّهُ يَطْلُبُ دَوَاءً وَحُضُضًا، فَقَالَ: أَخْبَرَنِي مَن سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ يَعِظُ النَّاسَ وَيَأْمُرُهُمْ وَيَنْهَاهُمْ؟ فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوا الْعَطَاءَ، مَا كَانَ عَطَاءً فَإِذَا تَجَاحَفَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْمُلْكِ وَكَانَ عَنْ دِينِ أَحَدِكُمْ فَدَعُوهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد، وَرَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ مُطَيْرٍ.
سلیم بن مطیر کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ وہ حج کرنے کے ارادے سے نکلے، جب مقام سویدا پر پہنچے تو انہیں ایک (بوڑھا) شخص ملا، لگتا تھا کہ وہ دوا اور رسوت ۱؎ کی تلاش میں نکلا ہے، وہ کہنے لگا: مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں اس حال میں سنا کہ آپ لوگوں کو نصیحت کر رہے تھے، انہیں نیکی کا حکم دے رہے تھے اور بری باتوں سے روک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! (امام و حاکم کے) عطیہ کو لے لو جب تک کہ وہ عطیہ رہے ۲؎، اور پھر جب قریش ملک و اقتدار کے لیے لڑنے لگیں، اور عطیہ (بخشش) دین کے بدلے ۳؎ میں ملنے لگے تو اسے چھوڑ دو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس روایت کو ابن مبارک نے محمد بن یسار سے انہوں نے سلیم بن مطیر سے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3546) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں)

وضاحت:
۱؎: ایک کڑوی دوا جو اکثر آنکھوں اور پھنسیوں کی دوا میں استعمال ہوتی ہے۔
۲؎: یعنی شریعت کے مطابق وہ مال حاصل کیا گیا ہو اور شریعت کے مطابق تقسیم بھی کیا گیا ہو۔
۳؎: یعنی حاکم عطیہ دے کر تم سے کوئی ناجائز کام کرانا چاہتا ہو۔

Narrated A man: Sulaym ibn Mutayr reported on the authority of his father that Mutayr went away to perform hajj. When he reached as-Suwaida', a man suddenly came searching for medicine and ammonium anthorhizum extract, and he said: A man who heard the Messenger of Allah ﷺ addressing the people commanding and prohibiting them, told me that he said: O people, accept presents so long as they remain presents; but when the Quraysh quarrel about the rule, and the presents are given for the religion of one of you, then leave them alone. Abu Dawud said: This tradition has been transmitted by Ibn al-Mubarak from Muhammad bin Yasar from Sulaim bin Mutair.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2952


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سليم بن مطير: لين الحديث وأبوه مجهول الحال(تق: 2529،6715)
والرجل مجهول
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107
حدیث نمبر: 2959
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار، حدثنا سليم بن مطير من اهل وادي القرى، عن ابيه، انه حدثه قال: سمعت رجلا يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع فامر الناس ونهاهم، ثم قال:" اللهم هل بلغت قالوا: اللهم نعم، ثم قال: إذا تجاحفت قريش على الملك فيما بينها وعاد العطاء او كان رشا فدعوه"، فقيل: من هذا؟ قالوا: هذا ذو الزوائد صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ مُطَيْرٍ مِنْ أَهْلِ وَادِي الْقُرَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ قَالَ: سَمِعْت رَجُلًا يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَمَرَ النَّاسَ وَنَهَاهُمْ، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ قَالُوا: اللَّهُمَّ نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا تَجَاحَفَتْ قُرَيْشٌ عَلَى الْمُلْكِ فِيمَا بَيْنَهَا وَعَادَ الْعَطَاءُ أَوْ كَانَ رِشًا فَدَعُوهُ"، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا ذُو الزَّوَائِدِ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
وادی القری کے باشندہ سلیم بن مطیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ان سے بیان کیا کہ میں نے ایک شخص کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حجۃ الوداع میں سنا آپ نے (لوگوں کو اچھی باتوں کا) حکم دیا (اور انہیں بری باتوں سے) منع کیا پھر فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے (تیرا پیغام) انہیں پہنچا دیا، لوگوں نے کہا: ہاں، پہنچا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قریش کے لوگ حکومت اور ملک و اقتدار کے لیے لڑنے لگیں اور عطیہ کی حیثیت رشوت کی بن جائے (یعنی مستحق کے بجائے غیر مستحق کو ملنے لگے) تو اسے چھوڑ دو۔ پوچھا گیا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ذوالزوائد ۱؎ ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3546) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں ضعیف اور مجہول راوی ہیں)

وضاحت:
۱؎: یہ اہل مدینہ میں سے ایک صحابی کا لقب ہے، ان کے نام کا پتہ نہیں چل سکا۔

Narrated Dhul-Zawaid: Mutayr said: I heard a man say: I heard the Messenger of Allah ﷺ in the Farewell Pilgrimage. He was commanding and prohibiting them (the people). He said: O Allah, did I give full information? They said: Yes. He said: When the Quraysh quarrel about the rule among themselves, and the presents become bribery, them leave them. The people were asked: Who was he (who narrated this tradition)? They said: This was Dhul-Zawaid, a Companion of the Messenger of Allah ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2953


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
انظر الحديث السابق (2958)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107
18. باب فِي تَدْوِينِ الْعَطَاءِ
18. باب: وظیفہ کے مستحقین کے ناموں کو رجسٹر میں لکھنے کا بیان۔
Chapter: Registering The Names Of Those Who Are Given Something.
حدیث نمبر: 2960
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم يعني ابن سعد، حدثنا ابن شهاب، عن عبد الله بن كعب بن مالك الانصاري، ان جيشا من الانصار كانوا بارض فارس مع اميرهم، وكان عمر يعقب الجيوش في كل عام فشغل عنهم عمر، فلما مر الاجل قفل اهل ذلك الثغر فاشتد عليهم وتواعدهم وهم اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا: يا عمر إنك غفلت عنا وتركت فينا الذي امر به رسول الله صلى الله عليه وسلم من إعقاب بعض الغزية بعضا.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ جَيْشًا مِنْ الْأَنْصَارِ كَانُوا بِأَرْضِ فَارِسَ مَعَ أَمِيرِهِمْ، وَكَانَ عُمَرُ يُعْقِبُ الْجُيُوشَ فِي كُلِّ عَامٍ فَشُغِلَ عَنْهُمْ عُمَرُ، فَلَمَّا مَرَّ الأَجَلُ قَفَلَ أَهْلُ ذَلِكَ الثَّغْرِ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِمْ وَتَوَاعَدَهُمْ وَهُمْ أَصْحَاب رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: يَا عُمَرُ إِنَّكَ غَفَلْتَ عَنَّا وَتَرَكْتَ فِينَا الَّذِي أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِعْقَابِ بَعْضِ الْغَزِيَّةِ بَعْضًا.
عبداللہ بن کعب بن مالک انصاری کہتے ہیں کہ انصار کا ایک لشکر اپنے امیر کے ساتھ سر زمین فارس میں تھا اور عمر رضی اللہ عنہ ہر سال لشکر تبدیل کر دیا کرتے تھے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کو (خیال نہیں رہا) دوسرے کام میں مشغول ہو گئے جب میعاد پوری ہو گئی تو اس لشکر کے لوگ لوٹ آئے تو وہ ان پر برہم ہوئے اور ان کو دھمکایا جب کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے، تو وہ کہنے لگے: عمر! آپ ہم سے غافل ہو گئے، اور آپ نے وہ قاعدہ چھوڑ دیا جس پر عمل کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ایک کے بعد ایک لشکر بھیجنا تاکہ پہلا لشکر لوٹ آئے اور اس کی جگہ وہاں دوسرا لشکر رہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15615) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

Narrated Abdullah bin Kab bin Malik al-Ansari: An expedition of the Ansar was operating in Persia with their leader. Umar used to send expeditions by turns every year, but he neglected them. When the expired, the people of expedition appointed on the frontier came back. He (Umar) took serious action against them and threatened them, though they were the Companions of the Messenger of Allah ﷺ. They said: Umar you neglected us, and abandoned the practice for which the Messenger of Allah ﷺ commanded to send the detachments by turns.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2954


قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
ابن شھاب الزھري صرح بالسماع عند ابن الجارود (1095)
حدیث نمبر: 2961
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمود بن خالد، حدثنا محمد بن عائذ، حدثنا الوليد، حدثنا عيسى بن يونس، حدثني فيما حدثه ابن لعدي بن عدي الكندي، ان عمر بن عبد العزيز، كتب إن من سال عن مواضع الفيء فهو ما حكم فيه عمر بن الخطاب رضي الله عنه فرآه المؤمنون عدلا موافقا لقول النبي صلى الله عليه وسلم جعل الله الحق على لسان عمر وقلبه فرض الاعطية، وعقد لاهل الاديان ذمة بما فرض عليهم من الجزية لم يضرب فيها بخمس ولا مغنم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَائِذٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنِي فِيمَا حَدَّثَهُ ابْنٌ لِعَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، كَتَبَ إِنَّ مَنْ سَأَلَ عَنْ مَوَاضِعِ الْفَيْءِ فَهُوَ مَا حَكَمَ فِيهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَرَآهُ الْمُؤْمِنُونَ عَدْلًا مُوَافِقًا لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ اللَّهُ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ فَرَضَ الْأَعْطِيَةَ، وَعَقَدَ لِأَهْلِ الأَدْيَانِ ذِمَّةً بِمَا فُرَضَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْجِزْيَةِ لَمْ يَضْرِبْ فِيهَا بِخُمُسٍ وَلَا مَغْنَمٍ.
عدی بن عدی کندی کے ایک لڑکے کا بیان ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے لکھا کہ جو کوئی شخص پوچھے کہ مال فیٔ کہاں کہاں صرف کرنا چاہیئے تو اسے بتایا جائے کہ جہاں جہاں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے وہیں خرچ کیا جائے گا، عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کو مسلمانوں نے انصاف کے موافق اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «جعل الله الحق على لسان عمر وقلبه» (اللہ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کر دیا ہے) کا مصداق جانا، انہوں نے مسلمانوں کے لیے عطیے مقرر کئے اور دیگر ادیان والوں سے جزیہ لینے کے عوض ان کے امان اور حفاظت کی ذمہ داری لی، اور جزیہ میں نہ خمس (پانچواں حصہ) مقرر کیا اور نہ ہی اسے مال غنیمت سمجھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (عدی بن عدی کے لڑکے مبہم ہیں)

وضاحت:
۱؎: مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کیا جاتا ہے اور اس میں سے پانچواں حصہ اللہ و رسول کے حق کے طور پر نکالا جاتا ہے۔

Narrated Umar ibn al-Khattab: A son of Adi ibn Adi al-Kindi said that Umar ibn Abdul Aziz wrote (to his governors): If anyone asks about the places where spoils (fay) should be spent, that should be done in accordance with the decision made by Umar ibn al-Khattab (Allah be pleased with him). The believers considered him to be just, according to the saying of the Prophet ﷺ: Allah has placed truth upon Umar's tongue and heart. He fixed stipends for Muslims, and provided protection for the people of other religions by levying jizyah (poll-tax) on them, deducting no fifth from it, nor taking it as booty.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2955


قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن عدي بن عدي الكندي لم يسم ولا يعرف حاله (تق: 8480)
وحديث ابن حبان (الموارد: 2184) يغني عنه وسنده صحيح
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107
حدیث نمبر: 2962
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا محمد بن إسحاق، عن مكحول، عن غضيف بن الحارث، عن ابي ذر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الله وضع الحق على لسان عمر يقول به".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اللہ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے وہ (جب بولتے ہیں) حق ہی بولتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (108)، (تحفة الأشراف: 11973)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/145، 165، 177) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Dharr: I heard the Messenger of Allah ﷺ say: Allah, the Exalted, has placed truth on Umar's tongue and he speaks it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2956


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
مشكوة المصابيح (6043)
أخرجه ابن ماجه (108) محمد بن إسحاق صرح بالسماع عند يعقوب الفارسي في المعرفة والتاريخ (1/461) وللحديث شواھد كثيرة جدًا
19. باب فِي صَفَايَا رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنَ الأَمْوَالِ
19. باب: مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔
Chapter: Regarding Allocating A Special Portion For The Messenger Of Allah (saws) From Wealth.
حدیث نمبر: 2963
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، ومحمد بن يحيى بن فارس، المعنى قالا: حدثنا بشر بن عمر الزهراني، حدثني مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن مالك بن اوس بن الحدثان، قال: ارسل إلي عمر حين تعالى النهار فجئته فوجدته جالسا على سرير مفضيا إلى رماله، فقال حين دخلت عليه: يا مال إنه قد دف اهل ابيات من قومك وإني قد امرت فيهم بشيء فاقسم فيهم، قلت: لو امرت غيري بذلك فقال: خذه فجاءه يرفا فقال يا امير المؤمنين: هل لك في عثمان بن عفان، وعبد الرحمن بن عوف، والزبير بن العوام، وسعد بن ابي وقاص؟ قال: نعم فاذن لهم فدخلوا، ثم جاءه يرفا فقال: يا امير المؤمنين هل لك في العباس، وعلي؟ قال: نعم فاذن لهم فدخلوا، فقال العباس: يا امير المؤمنين اقض بيني وبين هذا يعني عليا فقال بعضهم: اجل يا امير المؤمنين اقض بينهما وارحمهما، قال مالك بن اوس: خيل إلي انهما قدما اولئك النفر لذلك فقال عمر رحمه الله: اتئدا ثم اقبل على اولئك الرهط، فقال: انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا نورث ما تركنا صدقة"، قالوا: نعم، ثم اقبل على علي، والعباس رضي الله عنهما فقال: انشدكما بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا نورث ما تركنا صدقة"، فقالا: نعم قال: فإن الله خص رسوله صلى الله عليه وسلم بخاصة لم يخص بها احدا من الناس، فقال الله تعالى: وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل ولا ركاب ولكن الله يسلط رسله على من يشاء والله على كل شيء قدير سورة الحشر آية 6، وكان الله افاء على رسوله بني النضير فوالله ما استاثر بها عليكم ولا اخذها دونكم، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ياخذ منها نفقة سنة او نفقته ونفقة اهله سنة ويجعل ما بقي اسوة المال ثم اقبل على اولئك الرهط فقال:" انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض هل تعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، ثم اقبل على العباس، وعلي رضي الله عنهما فقال: انشدكما بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض هل تعلمان ذلك؟ قالا: نعم، فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم فجئت انت وهذا إلىابي بكر تطلب انت ميراثك من ابن اخيك ويطلب هذا ميراث امراته من ابيها، فقال ابو بكر رحمه الله: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا نورث ما تركنا صدقة". والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق. فوليها ابو بكر، فلما توفي ابو بكر قلت: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وولي ابي بكر فوليتها ما شاء الله ان اليها فجئت انت وهذا وانتما جميع وامركما واحد فسالتمانيها، فقلت: إن شئتما ان ادفعها إليكما على ان عليكما عهد الله ان تلياها بالذي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يليها فاخذتماها مني على ذلك، ثم جئتماني لاقضي بينكما بغير ذلك والله لا اقضي بينكما بغير ذلك حتى تقوم الساعة فإن عجزتما عنها فرداها إلي، قال ابو داود: إنما سالاه ان يكون يصيره بينهما نصفين لا انهما جهلا ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" لا نورث ما تركنا صدقة" فإنهما كانا لا يطلبان إلا الصواب، فقال عمر: لا اوقع عليه اسم القسم ادعه على ما هو عليه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ فَجِئْتُهُ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رِمَالِهِ، فَقَالَ حِينَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ: يَا مَالِ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ وَإِنِّي قَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِشَيْءٍ فَأَقْسِمْ فِيهِمْ، قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ غَيْرِي بِذَلِكَ فَقَالَ: خُذْهُ فَجَاءَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ؟ قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَهُ يَرْفَأُ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ لَكَ فِي الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا يَعْنِي عَلِيًّا فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْمهُمَا، قَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: خُيِّلَ إِلَيَّ أَنَّهُمَا قَدَّمَا أُولَئِكَ النَّفَرَ لِذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ: اتَّئِدَا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ، وَالْعَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، فَقَالَا: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يَخُصَّ بِهَا أَحَدًا مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6، وَكَانَ اللَّهُ أَفَاءَ عَلَى رَسُولِهِ بَنِي النَّضِيرِ فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهَا نَفَقَةَ سَنَةٍ أَوْ نَفَقَتَهُ وَنَفَقَةَ أَهْلِهِ سَنَةً وَيَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى أُولَئِكَ الرَّهْطِ فَقَالَ:" أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا إِلَىأَبِي بَكْرٍ تَطْلُبُ أَنْتَ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ". وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ. فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ فَوَلِيتُهَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَلِيَهَا فَجِئْتَ أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ فَسَأَلْتُمَانِيهَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَلِيَاهَا بِالَّذِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلِيهَا فَأَخَذْتُمَاهَا مِنِّي عَلَى ذَلِك، ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِنَّمَا سَأَلَاهُ أَنْ يَكُونَ يُصَيِّرُهُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ لَا أَنَّهُمَا جَهِلَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ" فَإِنَّهُمَا كَانَا لَا يَطْلُبَانِ إِلَّا الصَّوَابَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا أُوقِعُ عَلَيْهِ اسْمَ الْقَسْمِ أَدَعُهُ عَلَى مَا هُوَ عَلَيْهِ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دن چڑھے بلوا بھیجا، چنانچہ میں آیا تو انہیں ایک تخت پر جس پر کوئی چیز بچھی ہوئی نہیں تھی بیٹھا ہوا پایا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے: مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے ہیں اور میں نے انہیں کچھ دینے کے لیے حکم دیا ہے تو تم ان میں تقسیم کر دو، میں نے کہا: اگر اس کام کے لیے آپ کسی اور کو کہتے (تو اچھا رہتا) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں تم (جو میں دے رہا ہوں) لے لو (اور ان میں تقسیم کر دو) اسی دوران یرفاء ۱؎ آ گیا، اس نے کہا: امیر المؤمنین! عثمان بن عفان، عبدالرحمٰن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آئے ہوئے ہیں اور ملنے کی اجازت چاہتے ہیں، کیا انہیں بلا لوں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں (بلا لو) اس نے انہیں اجازت دی، وہ لوگ اندر آ گئے، جب وہ اندر آ گئے، تو یرفا پھر آیا، اور آ کر کہنے لگا: امیر المؤمنین! ابن عباس اور علی رضی اللہ عنہما آنا چاہتے ہیں؛ اگر حکم ہو تو آنے دوں؟ کہا: ہاں (آنے دو) اس نے انہیں بھی اجازت دے دی، چنانچہ وہ بھی اندر آ گئے، عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: امیر المؤمنین! میرے اور ان کے (یعنی علی رضی اللہ عنہ کے) درمیان (معاملے کا) فیصلہ کر دیجئیے، (تاکہ جھگڑا ختم ہو) ۲؎ اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا: ہاں امیر المؤمنین! ان دونوں کا فیصلہ کر دیجئیے اور انہیں راحت پہنچائیے۔ مالک بن اوس کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ ان دونوں ہی نے ان لوگوں (عثمان، عبدالرحمٰن، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم) کو اپنے سے پہلے اسی مقصد سے بھیجا تھا (کہ وہ لوگ اس قضیہ کا فیصلہ کرانے میں مدد دیں)۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ ان پر رحم کرے! تم دونوں صبر و سکون سے بیٹھو (میں ابھی فیصلہ کئے دیتا ہوں) پھر ان موجود صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہم انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو کچھ چھوڑ کر مرتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے؟، سبھوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں۔ پھر وہ علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان دونوں سے کہا: میں تم دونوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے زمین، و آسمان قائم ہیں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ہمارا (گروہ انبیاء کا) کوئی وارث نہیں ہوتا، ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے؟، ان دونوں نے کہا: ہاں ہمیں معلوم ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی خصوصیت سے سرفراز فرمایا تھا جس سے دنیا کے کسی انسان کو بھی سرفراز نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب ولكن الله يسلط رسله على من يشاء والله على كل شىء قدير» اور ان کا جو مال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ہاتھ لگایا ہے جس پر نہ تو تم نے اپنے گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ اونٹ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو جس پر چاہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (سورۃ الحشر: ۶) چنانچہ اللہ نے اپنے رسول کو بنو نضیر کا مال دلایا، لیکن قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تمہیں محروم کر کے صرف اپنے لیے نہیں رکھ لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مال سے صرف اپنے اور اپنے اہل و عیال کا سال بھر کا خرچہ نکال لیتے تھے، اور جو باقی بچتا وہ دوسرے مالوں کی طرح رہتا (یعنی مستحقین اور ضرورت مندوں میں خرچ ہوتا)۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے: میں تم سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں، کیا تم اس بات کو جانتے ہو (یعنی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے) انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے کہا: میں اس اللہ کی ذات کو گواہ بنا کر تم سے پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم اس کو جانتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں ہم جانتے ہیں (یعنی ایسا ہی ہے) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں، پھر تم اور یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تم اپنے بھتیجے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ترکہ میں سے اپنا حصہ مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کی میراث مانگ رہے ہیں جو انہیں ان کے باپ کے ترکہ سے ملنے والا تھا، پھر ابوبکر (اللہ ان پر رحم کرے) نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، اور اللہ جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سچے نیک اور حق کی پیروی کرنے والے تھے، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اس مال پر قابض رہے، جب انہوں نے وفات پائی تو میں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلیفہ ہوں، اور اس وقت تک والی ہوں جب تک اللہ چاہے۔ پھر تم اور یہ (علی) آئے تم دونوں ایک ہی تھے، تمہارا معاملہ بھی ایک ہی تھا تم دونوں نے اسے مجھ سے طلب کیا تو میں نے کہا تھا: اگر تم چاہتے ہو کہ میں اسے تم دونوں کو اس شرط پر دے دوں کہ اللہ کا عہد کر کے کہو اس مال میں اسی طرح کام کرو گے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متولی رہتے ہوئے کرتے تھے، چنانچہ اسی شرط پر وہ مال تم نے مجھ سے لے لیا۔ اب پھر تم دونوں میرے پاس آئے ہو کہ اس کے سوا دوسرے طریقہ پر میں تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں ۳؎ تو قسم اللہ کی! میں قیامت تک تمہارے درمیان اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہ کروں گا، اگر تم دونوں ان مالوں کا (معاہدہ کے مطابق) اہتمام نہیں کر سکتے تو پھر اسے مجھے لوٹا دو (میں اپنی تولیت میں لے کر پہلے کی طرح اہتمام کروں گا)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ان دونوں حضرات نے اس بات کی درخواست کی تھی کہ یہ ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا کر دیا جائے، ایسا نہیں کہ انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: «لا نورث ما تركنا صدقة» ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے معلوم نہیں تھا بلکہ وہ بھی حق ہی کا مطالبہ کر رہے تھے، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس پر تقسیم کا نام نہ آنے دوں گا (کیونکہ ممکن ہے بعد والے میراث سمجھ لیں) بلکہ میں اسے پہلی ہی حالت پر باقی رہنے دوں گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجھاد 80 (2904)، فرض الخمس 1 (3094)، المغازي 14 (4033)، تفسیرالقرآن 3 (4880)، النفقات 3 (5358)، الفرائض 3 (6728)، الاعتصام 5 (7305)، صحیح مسلم/الجھاد 5 (1757)، سنن الترمذی/السیر 44 (1610)، الجھاد 39 (1719)، (تحفة الأشراف: 10632، 10633)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/25) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یرفأ عمر رضی اللہ عنہ کے دربان کا نام تھا، وہ ان کا غلام تھا۔
۲؎: معاملہ تھا بنو نضیر کے فِدَک اور خیبر کے اموال کی وراثت کا جوا للہ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا۔
۳؎: یعنی اس مال کو تم دونوں میں تقسیم کر دوں اور وہ تم میں سے ہر ایک کے ملک میں ہو جائے۔

Narrated Malik bin Aws bin Al-Hadathan: Umar sent for me when the day rose high. I found him sitting on a couch without cover. When I entered upon him, he said: Malik, some people of you tribe gradually came here, and I have ordered to give them something, so distribute it among them. I said: If you assigned this (work) to some other person, (it would be better). He said: Take it. Then Yarfa' came to him and said: Commander of the Faithful, will you permit Uthman bin Affan, Abdur-Rahman bin Awf, al-Zubair bin al-'Awwam, and Saad b, Abi Waqqas (to enter) ? He said: Yes. So he permitted them and they entered. Yarfa' again came to him and said: Commander of the Faithful, would you permit al-Abbas and Ali ? He said: Yes. He then permitted them and they entered. Al-Abbas said: Commander of Faithful, decide between me and this, referring to Ali. Some of them said: Yes, Commander of the Faithful, decide between them and give them comfort. Malik bin Aws said: It occurred to me that both of them brought the other people for this. Umar said: Show patience (do not make haste). He then turned towards those people and said: I adjure you by Allah by Whose order the heaven and earth stand. Do you know that Messenger of Allah ﷺ said: We are not inherited whatever we leave is sadaqah (alms). They said: Yes. He then turned towards Ali and al-Abbas and said: I adjure you by Allah by Whose order the heaven and earth stand. Do you know that Messenger of Allah ﷺ said: We are not inherited whatever we leave is sadaqah (alms). They said: Yes. He then said: Allah has appointed for the Messenger of Allah ﷺ a special portion (in the booty) which he did not do for anyone. Allah, Most High, said: What Allah has bestowed on His Messenger (and taken away) from them - for this ye made no expedition with either cavalry or camelry. But Allah gives power to His Messengers over any He pleases ; and Allah has power over all things". Allah bestowed (the property of) Banu al-Nadir on His Messenger. I swear by Allah, he did not reserve it for himself, nor did he take it over and above you. The Messenger of Allah ﷺ used to his share for his maintenance annually, or used to take his contribution and give his family their annual contribution (from this property), then take what remained and deal with it as he did with Allah's property. He then turned towards those people and said: I adjure you by Allah by Whose order the heaven and earth stand. Do you know that ? They said: Yes. He then turned towards Ali and al-Abbas and said: I adjure you by Allah by Whose order the heaven and earth stand. Do you know that ? They said: Yes. When the Messenger of Allah ﷺ died, Abu Bakr said: I am the protector of the Messenger of Allah ﷺ. Then you and this (Ali) came to Abu Bakr, demanding a share from the inheritance of your cousin, and this (Ali) demanding the share of his wife from (the property of her) father. Abu Bakr then said: The Messenger of Allah ﷺ said: We are not inherited. Whatever we leave is sadaqah. Allah knows that he (Abu Bakr) was true, faithful, rightly-guided, and the follower of Triuth. Abu Bakr then administered it (property of the Prophet). When Abu Bakr died, I said: I am the protector of the Messenger of Allah ﷺ and Abu Bakr. So I administered whatever Allah wished. Then you and this (Ali) came. Both of you are at one, and your matter is the same. So they asked me for it (property), and I said: If you wish I give it to you on condition that you are bound by the covenant of Allah, meaning that you will administer it as the Messenger of Allah ﷺ used to administer. So you took it from me on that condition. Then again you have come to me so that I decide between you other than that. I swear by Allah, I shall not decide between you other than that till the Last Hour comes. If you helpless, return it to me. Abu Dawud said: They asked him for making it half between them, and not that they were ignorant of the fact the Prophet ﷺ said: We are not inherited. Whatever we leave is sadaqah (alms). They were also seeking the truth. Umar then said: I do not apply the name of division to it ; It leave it on its former condition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2957


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7305) صحيح مسلم (1757)
حدیث نمبر: 2964
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا محمد بن ثور، عن معمر، عن الزهري، عن مالك بن اوس بهذه القصة، قال: وهما يعني عليا، والعباس رضي الله عنهما يختصمان فيما افاء الله على رسول الله صلى الله عليه وسلم من اموال بني النضير، قال ابو داود: اراد ان لا يوقع عليه اسم قسم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَهُمَا يَعْنِي عَلِيًّا، وَالْعَبَّاسَ رضي الله عنهما يختصمان فيما أفاء الله على رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَرَادَ أَنْ لَا يُوقَعَ عَلَيْهِ اسْمُ قَسْمٍ.
اس سند سے بھی مالک بن اوس سے یہی قصہ مروی ہے اس میں ہے: اور وہ دونوں (یعنی علی اور عباس رضی اللہ عنہما) اس مال کے سلسلہ میں جھگڑا کر رہے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو نضیر کے مالوں میں سے عنایت فرمایا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ (عمر رضی اللہ عنہ) چاہتے تھے کہ اس میں حصہ و تقسیم کا نام نہ آئے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10632، 10633) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس لئے کہ تقسیم تو ملکیت میں جاری ہوتی ہے اور وہ مال کسی کی ملکیت میں تھا نہیں۔

Narrating this tradition Malik bin Aws said: They i. e Ali and al-Abbas (Allah be pleased with them), were quarrelling about what Allah bestowed on His Messenger of Allah ﷺ, that is, the property of Banu al-Nadir. Abu Dawud said: He (Umar) intended that the name of division should not apply to it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2958


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
انظر الحديث السابق (2963)
حدیث نمبر: 2965
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، واحمد بن عبدة، المعنى ان سفيان بن عيينة اخبرهم، عن عمرو بن دينار، عن الزهري، عن مالك بن اوس بن الحدثان، عن عمر، قال: كانت اموال بني النضير مما افاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب، كانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم خالصا ينفق على اهل بيته، قال ابن عبدة: ينفق على اهله قوت سنة فما بقي جعل في الكراع وعدة في سبيل الله عز وجل، قال ابن عبدة: في الكراع والسلاح.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، الْمَعْنَى أَنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ الْمُسْلِمُونَ عَلَيْهِ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِصًا يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ قُوتَ سَنَةٍ فَمَا بَقِيَ جَعَلَ فِي الْكُرَاعِ وَعُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ.
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا) اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے۔ ابن عبدہ کہتے ہیں: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں: «في الكراع والسلاح» کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لیے گھوڑے اور ہتھیار کی فراہمی میں خرچ کرتے تھے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (2963)، (تحفة الأشراف: 10631) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Umar: The properties of Banu al-Nadir were part of what Allah bestowed on His Messenger from what the Muslims has not ridden on horses or camels to get; so they belonged specially to the Messenger of Allah ﷺ who gave his family their annual contribution. Ibn Abdah said: His family (ahlihi) and not the members of his houses (ahl baitihi) ; then applied what remained for horses and weapons in Allah's path.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2959


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2904) صحيح مسلم (1757)
حدیث نمبر: 2966
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، اخبرنا ايوب، عن الزهري، قال: قال عمر: وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم عليه من خيل ولا ركاب سورة الحشر آية 6، قال الزهري، قال عمر: هذه لرسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة قرى عرينة فدك وكذا وكذا ما افاء الله على رسوله من اهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل سورة الحشر آية 7، وللفقراء الذين اخرجوا من ديارهم واموالهم والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم والذين جاءوا من بعدهم فاستوعبت هذه الآية الناس، فلم يبق احد من المسلمين إلا له فيها حق، قال ايوب، او قال حظ: إلا بعض من تملكون من ارقائكم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلا رِكَابٍ سورة الحشر آية 6، قَالَ الزُّهْرِيُّ، قَالَ عُمَرُ: هَذِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً قُرَى عُرَيْنَةَ فَدَكَ وَكَذَا وَكَذَا مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ سورة الحشر آية 7، وَلَلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ فَاسْتَوْعَبَتْ هَذِهِ الْآيَةُ النَّاسَ، فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِيهَا حَقٌّ، قَالَ أَيُّوبُ، أَوْ قَالَ حَظٌّ: إِلَّا بَعْضَ مَنْ تَمْلِكُونَ مِنْ أَرِقَّائِكُمْ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں (عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا اللہ نے فرمایا: «وما أفاء الله على رسوله منهم فما أوجفتم عليه من خيل ولا ركاب» جو مال اللہ نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا، اور تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے (سورۃ الحشر: ۶) زہری کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس آیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عرینہ کے چند گاؤں جیسے فدک وغیرہ خاص ہوئے، اور دوسری آیتیں «‏‏‏‏ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل» گاؤں والوں کا جو (مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں، مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے (سورۃ الحشر: ۷)، اور «للفقراء الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم» (فئی کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دئیے گئے ہیں (سورۃ الحشر: ۸)   «والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم» اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنا لی ہے (سورۃ الحشر: ۹) «والذين جاءوا من بعدهم» اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئیں (سورۃ الحشر: ۱۰) تو اس آیت نے تمام لوگوں کو سمیٹ لیا کوئی ایسا مسلمان باقی نہیں رہا جس کا مال فیٔ میں حق نہ ہو۔ ایوب کہتے ہیں: یا «فيها حق» کے بجائے،، «فيها حظ» کہا، سوائے بعض ان چیزوں کے جن کے تم مالک ہو (یعنی اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10638) (صحیح)» ‏‏‏‏ (پچھلی اور اگلی روایات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں زہری اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے)

Narrated Al-Zuhri: Umar said explaining the verse: "What Allah has bestowed on His Messenger (and taken away) from them - for this ye made no expedition with either cavalry or camelry" this belonged specially to the Messenger of Allah ﷺ: lands of 'Urainah, Fadak, and so-and-so. What Allah as bestowed on His Messenger (and taken away) from the people of the townships - belong to Allah - to the Messenger, and to kindred and orphans, the needy and the wayfarer, to the indigent emigrants, those who were expelled from their homes and their property, and to those who, before them, had homes (in Madina), and had adopted the faith, and to those who came after them. This verse completely covered all the people ; they remained no one from Muslims but he had his right in it, or share (according to Ayyub's version) except the slaves.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2960


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال المنذري: ”ھٰذا منقطع،الزهري لم يسمع من عمر“ (عون المعبود 103/3)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107
حدیث نمبر: 2967
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار، حدثنا حاتم بن إسماعيل. ح وحدثنا سليمان بن داود المهري، اخبرنا ابن وهب، اخبرني عبد العزيز بن محمد. ح وحدثنا نصر بن علي، حدثنا صفوان بن عيسى، وهذا لفظ حديثه كلهم، عن اسامة بن زيد، عن الزهري، عن مالك بن اوس بن الحدثان، قال: كان فيما احتج به عمر رضي الله عنه، انه قال: كانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث صفايا بنو النضير وخيبر وفدك، فاما بنو النضير فكانت حبسا لنوائبه، واما فدك فكانت حبسا لابناء السبيل، واما خيبر فجزاها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة اجزاء جزاين بين المسلمين وجزءا نفقة لاهله فما فضل عن نفقة اهله جعله بين فقراء المهاجرين.
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل. ح وحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ. ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِهِ كُلُّهُمْ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، قَالَ: كَانَ فِيمَا احْتَجَّ بِهِ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُ صَفَايَا بَنُو النَّضِيرِ وَخَيْبَرُ وَفَدَكُ، فَأَمَّا بَنُو النَّضِيرِ فَكَانَتْ حُبُسًا لِنَوَائِبِهِ، وَأَمَّا فَدَكُ فَكَانَتْ حُبُسًا لِأَبْنَاءِ السَّبِيلِ، وَأَمَّا خَيْبَرُ فَجَزَّأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ جُزْأَيْنِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ وَجُزْءًا نَفَقَةً لِأَهْلِهِ فَمَا فَضُلَ عَنْ نَفَقَةِ أَهْلِهِ جَعَلَهُ بَيْنَ فُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے جس بات سے دلیل قائم کی وہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین «صفایا» ۱؎ (منتخب مال) تھے: بنو نضیر، خیبر، اور فدک، رہا بنو نضیر کی زمین سے ہونے والا مال، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی (ہنگامی) ضروریات کے کام میں استعمال کے لیے محفوظ ہوتا تھا ۲؎، اور جو مال فدک سے حاصل ہوتا تھا وہ محتاج مسافروں کے استعمال کے کام میں آتا تھا، اور خیبر کے مال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حصے کئے تھے، دو حصے عام مسلمانوں کے لیے تھے، اور ایک اپنے اہل و عیال کے خرچ کے لیے، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل و عیال کے خرچہ سے بچتا اسے مہاجرین کے فقراء پہ خرچ کر دیتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10635) (حسن الإسناد)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: «صفايا»: «صفیہ» کی جمع ہے، «صفیہ» اس مال کو کہتے ہیں جسے امام تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے اپنے لئے چھانٹ لے، یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا کہ خمس کے ساتھ اور بھی جو چیزیں چاہیں لے لیں۔
۲؎: جیسے مہمانوں کی ضیافت اور مجاہدین کے لئے ہتھیار و سواری کی فراہمی۔

Narrated Umar ibn al-Khattab: Malik ibn Aws al-Hadthan said: One of the arguments put forward by Umar was that he said that the Messenger of Allah ﷺ received three things exclusively to himself: Banu an-Nadir, Khaybar and Fadak. The Banu an-Nadir property was kept wholly for his emergent needs, Fadak for travellers, and Khaybar was divided by the Messenger of Allah ﷺ into three sections: two for Muslims, and one as a contribution for his family. If anything remained after making the contribution of his family, he divided it among the poor Emigrants.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2961


قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الزهري صرح بالسماع في أصل الحديث ولكنه عنعن في ھٰذا اللفظ وھو مدلس مشھور
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 107

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.