(موقوف) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن عطاء، عن رجل من بكر بن وائل، عن خاله، قال: قلت: يا رسول الله اعشر قومي، قال:" إنما العشور على اليهود والنصارى". (موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَكْرِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ خَالِهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُعَشِّرُ قَوْمِي، قَالَ:" إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى".
عطا سے روایت ہے انہوں نے (قبیلہ) بکر بن وائل کے ایک شخص سے اس نے اپنے ماموں سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی قوم سے (اموال تجارت میں) دسواں حصہ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دسواں حصہ یہود و نصاریٰ پر ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (3046)، (تحفة الأشراف: 15546، 18489) (ضعیف)» (اس کے سند میں بکر بن وائل اور ان کے ماموں مجہول ہیں)
A man reported from Bakr bin Wail on the authority of his maternal uncle as saying, I said “Messenger of Allah ﷺ may I levy tithe on my people. ?” He replied “Tithes are to be levied on Jews and Christians. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3042
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سفيان الثوري عنعن ورجل من بكر بن وائل،لعله حرب إلا فمجهول انوار الصحيفه، صفحه نمبر 111
(مرفوع) حدثنا محمد بن إبراهيم البزاز، حدثنا ابو نعيم، حدثنا عبد السلام، عن عطاء بن السائب، عن حرب بن عبيد الله بن عمير الثقفي،عن جده رجل من بني تغلب، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فاسلمت وعلمني الإسلام وعلمني كيف آخذ الصدقة من قومي ممن اسلم، ثم رجعت إليه فقلت: يا رسول الله كل ما علمتني قد حفظته إلا الصدقة افاعشرهم؟ قال:" لا إنما العشور على النصارى واليهود". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ حَرْبِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ الثَّقَفِيِّ،عَنْ جَدِّهِ رَجُلٍ مِنْ بَنِي تَغْلِبَ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمْتُ وَعَلَّمَنِي الْإِسْلَامَ وَعَلَّمَنِي كَيْفَ آخُذُ الصَّدَقَةَ مِنْ قَوْمِي مِمَّنْ أَسْلَمَ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كُلُّ مَا عَلَّمْتَنِي قَدْ حَفِظْتُهُ إِلَّا الصَّدَقَةَ أَفَأُعَشِّرُهُمْ؟ قَالَ:" لَا إِنَّمَا الْعُشُورُ عَلَى النَّصَارَى وَالْيَهُودِ".
حرب بن عبیداللہ کے نانا جو بنی تغلب سے تعلق رکھتے تھے کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسلمان ہو کر آیا، آپ نے مجھے اسلام سکھایا، اور مجھے بتایا کہ میں اپنی قوم کے ان لوگوں سے جو اسلام لے آئیں کس طرح سے صدقہ لیا کروں، پھر میں آپ کے پاس لوٹ کر آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو آپ نے مجھے سکھایا تھا سب مجھے یاد ہے، سوائے صدقہ کے کیا میں اپنی قوم سے دسواں حصہ لیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، دسواں حصہ تو یہود و نصاریٰ پر ہے“۔
Narrated A man of Banu Taghlib: Harb ibn Ubaydullah ibn Umayr ath-Thaqafi told on the authority of his grandfather, a man of Banu Taghlib: I came to the Prophet ﷺ, embraced Islam, and he taught me Islam. He also taught me how I should take sadaqah from my people who had become Muslim. I then returned to him and said: Messenger of Allah, I remembered whatever you taught me except the sadaqah. Should I levy tithe on them? He replied: No, tithes are to be levied on Christians and Jews.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3043
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عطاء اختلط وانظر حديث (3046) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 111
(مرفوع) حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا اشعث بن شعبة، حدثنا ارطاة بن المنذر، قال: سمعت حكيم بن عمير ابا الاحوص، يحدث عن العرباض بن سارية السلمي، قال: نزلنا مع النبي صلى الله عليه وسلم خيبر ومعه من معه من اصحابه، وكان صاحب خيبر رجلا ماردا منكرا فاقبل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد الكم ان تذبحوا حمرنا وتاكلوا ثمرنا وتضربوا نساءنا، فغضب يعني النبي صلى الله عليه وسلم وقال:" يا ابن عوف اركب فرسك ثم ناد الا إن الجنة لا تحل إلا لمؤمن وان اجتمعوا للصلاة، قال: فاجتمعوا، ثم صلى بهم النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قام فقال: ايحسب احدكم متكئا على اريكته قد يظن ان الله لم يحرم شيئا إلا ما في هذا القرآن الا وإني والله قد وعظت وامرت ونهيت عن اشياء إنها لمثل القرآن او اكثر، وإن الله عز وجل لم يحل لكم ان تدخلوا بيوت اهل الكتاب إلا بإذن ولا ضرب نسائهم ولا اكل ثمارهم إذا اعطوكم الذي عليهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَكِيمَ بْنَ عُمَيْرٍ أَبَا الأَحْوَصِ، يُحَدِّثُ عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ، قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ وَمَعَهُ مَنْ مَعَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَكَانَ صَاحِبُ خَيْبَرَ رَجُلًا مَارِدًا مُنْكَرًا فَأَقْبَلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَلَكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا حُمُرَنَا وَتَأْكُلُوا ثَمَرَنَا وَتَضْرِبُوا نِسَاءَنَا، فَغَضِبَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" يَا ابْنَ عَوْفٍ ارْكَبْ فَرَسَكَ ثُمَّ نَادِ أَلَا إِنَّ الْجَنَّةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِمُؤْمِنٍ وَأَنْ اجْتَمِعُوا لِلصَّلَاةِ، قَالَ: فَاجْتَمَعُوا، ثُمَّ صَلَّى بِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ فَقَالَ: أَيَحْسَبُ أَحَدُكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ قَدْ يَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ شَيْئًا إِلَّا مَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ أَلَا وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ وَعَظْتُ وَأَمَرْتُ وَنَهَيْتُ عَنْ أَشْيَاءَ إِنَّهَا لَمِثْلُ الْقُرْآنِ أَوْ أَكْثَرُ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُحِلَّ لَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتَ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا بِإِذْنٍ وَلَا ضَرْبَ نِسَائِهِمْ وَلَا أَكْلَ ثِمَارِهِمْ إِذَا أَعْطَوْكُمُ الَّذِي عَلَيْهِمْ".
عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر میں پڑاؤ کیا، جو لوگ آپ کے اصحاب میں سے آپ کے ساتھ تھے وہ بھی تھے، خیبر کا رئیس سرکش و شریر شخص تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: محمد! کیا تمہارے لیے روا ہے کہ ہمارے گدھوں کو ذبح کر ڈالو، ہمارے پھل کھاؤ، اور ہماری عورتوں کو مارو پیٹو؟ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے، اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”عبدالرحمٰن! اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اعلان کر دو کہ جنت سوائے مومن کے کسی کے لیے حلال نہیں ہے، اور سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ“، تو سب لوگ اکٹھا ہو گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی پھر کھڑے ہو کر فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھ کر یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس قرآن میں جو کچھ حرام کیا اس کے سوا اور کچھ حرام نہیں ہے؟ خبردار! سن لو میں نے تمہیں کچھ باتوں کی نصیحت کی ہے، کچھ باتوں کا حکم دیا ہے اور کچھ باتوں سے روکا ہے، وہ باتیں بھی ویسی ہی (اہم اور ضروری) ہیں جیسی وہ باتیں جن کا ذکر قرآن میں ہے یا ان سے بھی زیادہ ۱؎، اللہ نے تمہیں بغیر اجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی ہے، اور نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے و ستانے کی، اور نہ ہی ان کے پھل کھانے کی، جب تک کہ وہ تمہیں وہ چیزیں دیتے رہیں جو تمہارا ان پر ہے (یعنی جزیہ)“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9886) (ضعیف)» (اس کے راوی اشعث لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی حدیث پر بھی قرآن کی طرح عمل واجب اور ضروری ہے، یہ نہ سمجھو کہ جو قرآن میں نہیں ہے اس پر عمل کرنا ضروری نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس بات کا حکم دیا ہے، وہ اصل میں اللہ ہی کا حکم ہے، اسی طرح جن باتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے ان سے اللہ تعالی نے روکا ہے، ارشاد باری ہے: «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا»(سورۃ الحشر: ۷)۔
Narrated Al-Irbad ibn Sariyah as-Sulami: We alighted with the Prophet ﷺ at Khaybar, and he had his companions with him. The chief of Khaybar was a defiant and abominable man. He came to the Prophet ﷺ and said: Is it proper for you, Muhammad, that you slaughter our donkeys, eat our fruit, and beat our women? The Prophet ﷺ became angry and said: Ibn Awf, ride your horse, and call loudly: Beware, Paradise is lawful only for a believer, and that they (the people) should gather for prayer. They gathered and the Prophet ﷺ led them in prayer, stood up and said: Does any of you, while reclining on his couch, imagine that Allah has prohibited only that which is to be found in this Quran? By Allah, I have preached, commanded and prohibited various matters as numerous as that which is found in the Quran, or more numerous. Allah has not permitted you to enter the houses of the people of the Book without permission, or beat their women, or eat their fruits when they give you that which is imposed on them.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3044
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أشعث بن شعبة ضعيف ضعفه الجمهور ولم يثبت توثيقه عن أبي داود رحمه اللّٰه وقال أبو زرعة الرازي: لين (الجرح و التعديل 273/2) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 112
(مرفوع) حدثنا مسدد، وسعيد بن منصور، قالا: حدثنا ابو عوانة، عن منصور، عن هلال، عن رجل من ثقيف، عن رجل من جهينة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لعلكم تقاتلون قوما فتظهرون عليهم فيتقونكم باموالهم دون انفسهم وابنائهم"، قال سعيد في حديثه: فيصالحونكم على صلح، ثم اتفقا فلا تصيبوا منهم شيئا فوق ذلك فإنه لا يصلح لكم. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُهَيْنَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّكُمْ تُقَاتِلُونَ قَوْمًا فَتَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ فَيَتَّقُونَكُمْ بِأَمْوَالِهِمْ دُونَ أَنْفُسِهِمْ وَأَبْنَائِهِمْ"، قَالَ سَعِيدٌ فِي حَدِيثِهِ: فَيُصَالِحُونَكُمْ عَلَى صُلْحٍ، ثُمَّ اتَّفَقَا فَلَا تُصِيبُوا مِنْهُمْ شَيْئًا فَوْقَ ذَلِكَ فَإِنَّهُ لَا يَصْلُحُ لَكُمْ.
جہینہ کے ایک شخص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا ہو سکتا ہے کہ تم ایک قوم سے لڑو اور اس پر غالب آ جاؤ تو وہ تمہیں مال (جزیہ) دے کر اپنی جانوں اور اپنی اولاد کو تم سے بچا لیں“۔ سعید کی روایت میں ہے: «فيصالحونكم على صلح» پھر وہ تم سے صلح پر مصالحت کر لیں پھر (مسدد اور سعید بن منصور دونوں راوی آگے کی بات پر) متفق ہو گئے کہ: جتنے پر مصالحت ہو گئی ہو اس سے زیادہ کچھ بھی نہ لینا کیونکہ یہ تمہارے واسطے درست نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15707) (ضعیف)» (رجل من ثقیف مبہم مجہول راوی ہے)
Narrated A man of Juhaynah: The Prophet ﷺ said: Probably you will fight with a people, you will dominate them, and they will save themselves and their children by their property. The version of Saeed has You will then conclude peace with them. The agreed version goes: Then do no take anything from them more than that, for it is not proper for you.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3045
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف رجل من ثقيف: مجهول،وإليه أشار المنذري (انظر عون المعبود 136/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 112
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود المهري، اخبرنا ابن وهب، حدثني ابو صخر المديني، ان صفوان بن سليم، اخبره عن عدة، من ابناء اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن آبائهم دنية، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" الا من ظلم معاهدا او انتقصه او كلفه فوق طاقته او اخذ منه شيئا بغير طيب نفس فانا حجيجه يوم القيامة". (مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ الْمَدِينِيُّ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ سُلَيْمٍ، أَخْبَرَهُ عَنْ عِدَّةٍ، مِنْ أَبْنَاءِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَن آبَائِهِمْ دِنْيَةً، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أَوِ انْتَقَصَهُ أَوْ كَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أَوْ أَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوصخر مدینی کا بیان ہے کہ صفوان بن سلیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے کچھ بیٹوں سے اور انہوں نے اپنے آبائ سے (جو ایک دوسرے کے عزیز تھے) اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کا کوئی حق چھینا یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالا یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی مرضی کے لے لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے ”وکیل“۱؎ ہوں گا“۔
Narrated A number of Companions of the Prophet: Safwan reported from a number of Companions of the Messenger of Allah ﷺ on the authority of their fathers who were relatives of each other. The Messenger of Allah ﷺ said: Beware, if anyone wrongs a contracting man, or diminishes his right, or forces him to work beyond his capacity, or takes from him anything without his consent, I shall plead for him on the Day of Judgment.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3046
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف عدة من أبناء أصحاب رسول اللّٰه ﷺ كلھم مجھولون انوار الصحيفه، صفحه نمبر 112
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، قال: سئل سفيان، عن تفسير هذا فقال: إذا اسلم فلا جزية عليه. (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: سُئِلَ سُفْيَانُ، عَنْ تَفْسِيرِ هَذَا فَقَالَ: إِذَا أَسْلَمَ فَلَا جِزْيَةَ عَلَيْهِ.
محمد بن کثیر کہتے ہیں سفیان سے اس حدیث کا مطلب ۱؎ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب ذمی اسلام قبول کر لے تو اس پر (اسلام لاتے وقت سال میں سے گزرے ہوئے دنوں کا) جزیہ نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «(صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث (نمبر ۳۰۵۳) کے متعلق سوال کیا۔
Muhammad bin Kathir said “Sufyan was asked to explain the tradition mentioned above. ” He said “When he embraces Islam, no jizyah will be levied on him. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3048
(مرفوع) حدثنا ابو توبة الربيع بن نافع، حدثنا معاوية يعني ابن سلام، عن زيد، انه سمع ابا سلام، قال: حدثني عبد الله الهوزني، قال: لقيت بلالا مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بحلب، فقلت: يا بلال حدثني كيف كانت نفقة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ما كان له شيء كنت انا الذي الي ذلك منه منذ بعثه الله إلى ان توفي وكان إذا اتاه الإنسان مسلما فرآه عاريا يامرني فانطلق فاستقرض فاشتري له البردة فاكسوه واطعمه حتى اعترضني رجل من المشركين، فقال: يا بلال إن عندي سعة فلا تستقرض من احد إلا مني ففعلت، فلما ان كان ذات يوم توضات ثم قمت لاؤذن بالصلاة، فإذا المشرك قد اقبل في عصابة من التجار، فلما ان رآني قال: يا حبشي قلت يا لباه فتجهمني، وقال لي قولا غليظا، وقال لي: اتدري كم بينك وبين الشهر؟ قال: قلت قريب قال: إنما بينك وبينه اربع فآخذك بالذي عليك فاردك ترعى الغنم كما كنت قبل ذلك، فاخذ في نفسي ما ياخذ في انفس الناس حتى إذا صليت العتمة رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهله فاستاذنت عليه فاذن لي، فقلت: يا رسول الله بابي انت وامي إن المشرك الذي كنت اتدين منه قال لي: كذا وكذا وليس عندك ما تقضي عني ولا عندي وهو فاضحي فاذن لي ان آبق إلى بعض هؤلاء الاحياء الذين قد اسلموا حتى يرزق الله رسوله صلى الله عليه وسلم ما يقضي عني، فخرجت حتى إذا اتيت منزلي فجعلت سيفي وجرابي ونعلي ومجني عند راسي حتى إذا انشق عمود الصبح الاول اردت ان انطلق، فإذا إنسان يسعى يدعو: يا بلال اجب رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلقت حتى اتيته فإذا اربع ركائب مناخات عليهن احمالهن فاستاذنت فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابشر فقد جاءك الله بقضائك، ثم قال: الم تر الركائب المناخات الاربع، فقلت: بلى فقال: إن لك رقابهن وما عليهن فإن عليهن كسوة وطعاما اهداهن إلي عظيم فدك فاقبضهن واقض دينك، ففعلت فذكر الحديث ثم انطلقت إلى المسجد فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد في المسجد فسلمت عليه فقال: ما فعل ما قبلك؟ قلت: قد قضى الله كل شيء كان على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يبق شيء، قال: افضل شيء قلت: نعم قال: انظر ان تريحني منه فإني لست بداخل على احد من اهلي حتى تريحني منه، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العتمة دعاني فقال: ما فعل الذي قبلك؟ قال: قلت: هو معي لم ياتنا احد، فبات رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد وقص الحديث حتى إذا صلى العتمة يعني من الغد دعاني، قال: ما فعل الذي قبلك؟ قال: قلت: قد اراحك الله منه يا رسول الله فكبر وحمد الله شفقا من ان يدركه الموت وعنده ذلك"، ثم اتبعته حتى إذا جاء ازواجه، فسلم على امراة امراة حتى اتى مبيته فهذا الذي سالتني عنه. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، عَنْ زَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ الْهَوْزَنِيُّ، قَالَ: لَقِيتُ بِلَالًا مُؤَذِّنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَلَبَ، فَقُلْتُ: يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي كَيْفَ كَانَتْ نَفَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَا كَانَ لَهُ شَيْءٌ كُنْتُ أَنَا الَّذِي أَلِي ذَلِكَ مِنْهُ مُنْذُ بَعَثَهُ اللَّهُ إِلَى أَنْ تُوُفِّيَ وَكَانَ إِذَا أَتَاهُ الإِنْسَانُ مُسْلِمًا فَرَآهُ عَارِيًا يَأْمُرُنِي فَأَنْطَلِقُ فَأَسْتَقْرِضُ فَأَشْتَرِي لَهُ الْبُرْدَةَ فَأَكْسُوهُ وَأُطْعِمُهُ حَتَّى اعْتَرَضَنِي رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: يَا بِلَالُ إِنَّ عِنْدِي سَعَةً فَلَا تَسْتَقْرِضْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا مِنِّي فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا أَنْ كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ تَوَضَّأْتُ ثُمَّ قُمْتُ لِأُؤَذِّنَ بِالصَّلَاةِ، فَإِذَا الْمُشْرِكُ قَدْ أَقْبَلَ فِي عِصَابَةٍ مِنَ التُّجَّارِ، فَلَمَّا أَنْ رَآنِي قَالَ: يَا حَبَشِيُّ قُلْتُ يَا لَبَّاهُ فَتَجَهَّمَنِي، وَقَالَ لِي قَوْلًا غَلِيظًا، وَقَالَ لِي: أَتَدْرِي كَمْ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الشَّهْرِ؟ قَالَ: قُلْتُ قَرِيبٌ قَالَ: إِنَّمَا بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ أَرْبَعٌ فَآخُذُكَ بِالَّذِي عَلَيْكَ فَأَرُدُّكَ تَرْعَى الْغَنَمَ كَمَا كُنْتَ قَبْلَ ذَلِكَ، فَأَخَذَ فِي نَفْسِي مَا يَأْخُذُ فِي أَنْفُسِ النَّاسِ حَتَّى إِذَا صَلَّيْتُ الْعَتَمَةَ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَأَذِنَ لِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي إِنَّ الْمُشْرِكَ الَّذِي كُنْتُ أَتَدَيَّنُ مِنْهُ قَالَ لِي: كَذَا وَكَذَا وَلَيْسَ عِنْدَكَ مَا تَقْضِي عَنِّي وَلَا عِنْدِي وَهُوَ فَاضِحِي فَأْذَنْ لِي أَنْ آبَقَ إِلَى بَعْضِ هَؤُلَاءِ الأَحْيَاءِ الَّذِينَ قَدْ أَسْلَمُوا حَتَّى يَرْزُقَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَقْضِي عَنِّي، فَخَرَجْتُ حَتَّى إِذَا أَتَيْتُ مَنْزِلِي فَجَعَلْتُ سَيْفِي وَجِرَابِي وَنَعْلِي وَمِجَنِّي عِنْدَ رَأْسِي حَتَّى إِذَا انْشَقَّ عَمُودُ الصُّبْحِ الأَوَّلِ أَرَدْتُ أَنْ أَنْطَلِقَ، فَإِذَا إِنْسَانٌ يَسْعَى يَدْعُو: يَا بِلَالُ أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَتَيْتُهُ فَإِذَا أَرْبَعُ رَكَائِبَ مُنَاخَاتٌ عَلَيْهِنَّ أَحْمَالُهُنَّ فَاسْتَأْذَنْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْشِرْ فَقَدْ جَاءَكَ اللَّهُ بِقَضَائِكَ، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ تَرَ الرَّكَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الأَرْبَعَ، فَقُلْتُ: بَلَى فَقَالَ: إِنَّ لَكَ رِقَابَهُنَّ وَمَا عَلَيْهِنَّ فَإِنَّ عَلَيْهِنَّ كِسْوَةً وَطَعَامًا أَهْدَاهُنَّ إِلَيَّ عَظِيمُ فَدَكَ فَاقْبِضْهُنَّ وَاقْضِ دَيْنَكَ، فَفَعَلْتُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي الْمَسْجِدِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ: مَا فَعَلَ مَا قِبَلَكَ؟ قُلْتُ: قَدْ قَضَى اللَّهُ كُلَّ شَيْءٍ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَبْقَ شَيْءٌ، قَالَ: أَفَضَلَ شَيْءٍ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: انْظُرْ أَنْ تُرِيحَنِي مِنْهُ فَإِنِّي لَسْتُ بِدَاخِلٍ عَلَى أَحَدٍ مِنْ أَهْلِي حَتَّى تُرِيحَنِي مِنْهُ، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَتَمَةَ دَعَانِي فَقَالَ: مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: هُوَ مَعِي لَمْ يَأْتِنَا أَحَدٌ، فَبَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَقَصَّ الْحَدِيثَ حَتَّى إِذَا صَلَّى الْعَتَمَةَ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ دَعَانِي، قَالَ: مَا فَعَلَ الَّذِي قِبَلَكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ أَرَاحَكَ اللَّهُ مِنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَبَّرَ وَحَمِدَ اللَّهَ شَفَقًا مِنْ أَنْ يُدْرِكَهُ الْمَوْتُ وَعِنْدَهُ ذَلِكَ"، ثُمَّ اتَّبَعْتُهُ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَزْوَاجَهُ، فَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ امْرَأَةٍ حَتَّى أَتَى مَبِيتَهُ فَهَذَا الَّذِي سَأَلْتَنِي عَنْهُ.
عبداللہ ہوزنی کہتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال رضی اللہ عنہ سے حلب ۱؎ میں ملاقات کی، اور کہا: بلال! مجھے بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خرچ کیسے چلتا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نہ ہوتا، بعثت سے لے کر موت تک جب بھی آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی میں ہی اس کا انتظام کرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو ننگا دیکھتے تو مجھے حکم کرتے، میں جاتا اور قرض لے کر اس کے لیے چادر خریدتا، اسے پہننے کے لیے دے دیتا اور اسے کھانا کھلاتا، یہاں تک کہ مشرکین میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا: بلال! میرے پاس وسعت ہے (تنگی نہیں ہے) آپ کسی اور سے قرض نہ لیں، مجھ سے لے لیا کریں، میں ایسا ہی کرنے لگا یعنی (اس سے لینے لگا) پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے وضو کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوا کہ اچانک وہی مشرک سوداگروں کی ایک جماعت لیے ہوئے آ پہنچا جب اس نے مجھے دیکھا تو بولا: اے حبشی! میں نے کہا: «يا لباه»۲؎ حاضر ہوں، تو وہ ترش روئی سے پیش آیا اور سخت سست کہنے لگا اور بولا: تو جانتا ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟ میں نے کہا: قریب ہے، اس نے کہا: مہینہ پورا ہونے میں صرف چار دن باقی ہیں ۳؎ میں اپنا قرض تجھ سے لے کر چھوڑوں گا اور تجھے ایسا ہی کر دوں گا جیسے تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا، مجھے اس کی باتوں کا ایسے ہی سخت رنج و ملال ہوا جیسے ایسے موقع پر لوگوں کو ہوا کرتا ہے، جب میں عشاء پڑھ چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے جا چکے تھے (میں بھی وہاں گیا) اور شرف یابی کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی، میں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے اور نہ آپ کے پاس مال ہے جس سے میرے قرض کی ادائیگی ہو جائے اور نہ ہی میرے پاس ہے (اگر ادا نہ کیا) تو وہ مجھے اور بھی ذلیل و رسوا کرے گا، تو آپ مجھے اجازت دے دیجئیے کہ میں بھاگ کر ان قوموں میں سے کسی قوم کے پاس جو مسلمان ہو چکے ہیں اس وقت تک کے لیے چلا جاؤں جب تک کہ اللہ اپنے رسول کو اتنا مال عطا نہ کر دے جس سے میرا قرض ادا ہو جائے، یہ کہہ کر میں نکل آیا اور اپنے گھر چلا آیا، اور اپنی تلوار، موزہ جوتا اور ڈھال سرہانے رکھ کر سو گیا، صبح ہی صبح پو پھٹتے ہی یہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک شخص بھاگا بھاگا پکارتا ہوا آیا کہ اے بلال (تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد کر رہے ہیں) چل کر آپ کی بات سن لو، تو میں چل پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار لدے ہوئے جانور بیٹھے ہیں، آپ سے اجازت طلب کی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”بلال! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہاری ضرورت پوری کر دی، کیا تم نے چاروں بیٹھی ہوئی سواریاں نہیں دیکھیں؟“، میں نے کہا: ہاں دیکھ لی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ وہ جانور بھی لے لو اور جو ان پر لدا ہوا ہے وہ بھی ان پر کپڑا اور کھانے کا سامان ہے، فدک کے رئیس نے مجھے ہدیہ میں بھیجا ہے، ان سب کو اپنی تحویل میں لے لو، اور ان سے اپنا قرض ادا کر دو“، تو میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں مسجد میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہیں، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”جو مال تمہیں ملا اس کا کیا ہوا؟“، میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے سارے قرضے ادا کر دیئے اب کوئی قرضہ باقی نہ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ مال بچا بھی ہے؟“، میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ جو بچا ہے اسے اللہ کی راہ میں صرف کر کے مجھے آرام دو کیونکہ جب تک یہ مال صرف نہ ہو جائے گا میں اپنی ازواج (مطہرات) میں سے کسی کے پاس نہ جاؤں گا“، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا: ”کیا ہوا وہ مال جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟“ میں نے کہا: وہ میرے پاس موجود ہے، کوئی ہمارے پاس آیا ہی نہیں کہ میں اسے دے دوں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رات مسجد ہی میں گزاری۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی (اس میں ہے) یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھ چکے یعنی دوسرے دن تو آپ نے مجھے بلایا اور پوچھا: ”وہ مال کیا ہوا جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کو اس سے بے نیاز و بےفکر کر دیا (یعنی وہ میں نے ایک ضرورت مند کو دے دیا) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا بیان کی اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو موت نہ آ جاتی اور یہ مال آپ کے پاس باقی رہتا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلا، آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے اور ایک ایک کو سلام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے جہاں رات گزارنی تھی، (اے عبداللہ ہوزنی!) یہ ہے تمہارے سوال کا جواب۔
وضاحت: ۱؎: شام کے ایک شہر کا نام ہے۔ ۲؎: یہ کلمہ عربی میں جی، یا حاضر ہوں کی جگہ بولا جاتا ہے۔ ۳؎: قرض واپسی کی مدت میں ابھی چار دن باقی تھے اس لئے اسے لڑنے جھگڑنے اور بولنے کا حق نہیں تھا، ادائیگی کا وقت گزر جانے کے بعد اسے بولنے اور جھگڑنے کا حق تھا۔ مگر تھا تو کافر مسلمانوں کا دشمن، قرض کا بہانہ کر کے لڑ پڑا۔
Narrated Abdullah al-Hawzani: I met Bilal, the muadhdhin of the Messenger of Allah ﷺ at Aleppo, and said: Bilal, tell me, what was the financial position of the Messenger of Allah ﷺ? He said: He had nothing. It was I who managed it on his behalf since the day Allah made him Prophet of Allah ﷺ until he died. When a Muslim man came to him and he found him naked, he ordered me (to clothe him). I would go, borrow (some money), and purchase a cloak for him. I would then clothe him and feed him. A man from the polytheists met me and said: I am well off, Bilal. Do not borrow money from anyone except me. So I did accordingly. One day when I performed ablution and stood up to make call to prayer, the same polytheist came along with a body of merchants. When he saw me, he said: O Abyssinian. I said: I am at your service. He met me with unpleasant looks and said harsh words to me. He asked me: Do you know how many days remain in the completion of this month? I replied: The time is near. He said: Only four days remain in the completion of this month. I shall then take that which is due from you (i. e. loan), and then shall return you to tend the sheep as you did before. I began to think in my mind what people think in their minds (on such occasions). When I offered the night prayer, the Messenger of Allah ﷺ returned to his family. I sought permission from him and he gave me permission. I said: Messenger of Allah, may my parents be sacrificed for you, the polytheist from whom I used to borrow money said to me such-and-such. Neither you nor I have anything to pay him for me, and he will disgrace me. So give me permission to run away to some of those tribes who have recently embraced Islam until Allah gives His Messenger ﷺ something with which he can pay (the debt) for me. So I came out and reached my house. I placed my sword, waterskin (or sheath), shoes and shield near my head. When dawn broke, I intended to be on my way. All of a sudden I saw a man running towards me and calling: Bilal, return to the Messenger of Allah ﷺ. So I went till I reached him. I found four mounts kneeling on the ground with loads on them. I sought permission. The Messenger of Allah ﷺ said to me: Be glad, Allah has made arrangements for the payment (of your debt). He then asked: Have you not seen the four mounts kneeling on the ground? I replied: Yes. He said: You may have these mounts and what they have on them. There are clothes and food on them, presented to me by the ruler of Fadak. Take them away and pay off your debt. I did so. He then mentioned the rest of the tradition. I then went to the mosque and found that the Messenger of Allah ﷺ was sitting there. I greeted him. He asked: What benefit did you have from your property? I replied: Allah Most High paid everything which was due from the Messenger of Allah ﷺ. Nothing remains now. He asked: Did anything remain (from that property)? I said: Yes. He said: Look, if you can give me some comfort from it, for I shall not visit any member of my family until you give me some comfort from it. When the Messenger of Allah ﷺ offered the night prayer, he called me and said: What is the position of that which you had with you (i. e. property)? I said: I still have it, no one came to me. The Messenger of Allah ﷺ passed the night in the mosque. He then narrated the rest of the tradition. Next day when he offered the night prayer, he called me and asked: What is the position of that which you had (i. e. the rest of the property)? I replied: Allah has given you comfort from it, Messenger of Allah. He said: Allah is Most Great, and praised Allah, fearing lest he should die while it was with him. I then followed him until he came to his wives and greeted each one of them and finally he came to his place where he had to pass the night. This is all for which you asked me.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3049
(مرفوع) حدثنا محمود بن خالد، حدثنا مروان بن محمد، حدثنا معاوية، بمعنى إسناد ابي توبة وحديثه، قال: عند قوله ما يقضي عني فسكت عني رسول الله صلى الله عليه وسلم فاغتمزتها. (مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، بِمَعْنَى إِسْنَادِ أَبِي تَوْبَةَ وَحَدِيثِهِ، قَالَ: عِنْدَ قَوْلِهِ مَا يَقْضِي عَنِّي فَسَكَتَ عَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاغْتَمَزْتُهَا.
اس سند سے بھی ابوتوبہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ جب میں نے کہا کہ نہ آپ کے پاس اتنا مال ہے اور نہ میرے پاس کہ قرضہ ادا ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے مجھے کوئی جواب نہیں دیا تو مجھے بڑی گرانی ہوئی (کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات پر توجہ نہیں دی)۔
The tradition mentioned above has also been transmitted by Muawiyah through a different chain of narrators to the same effect as narrated by Abu Taubah. This version has “I have nothing to pay from me. The Messenger of Allah ﷺ thereupon kept silence and this displeased me. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3050
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: حسن انظر الحديث السابق (3055)
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی ہدیہ میں دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟“ میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے مشرکوں سے تحفہ لینے کی ممانعت کر دی گئی ہے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/السیر 24 (1577)، (تحفة الأشراف: 11015)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/162) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی، مقوقس، اکیدر دومہ اور رئیس فدک کے ہدایا قبول کئے تو یہ «إني نهيت عن زبد المشركين» کے خلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ سب کے سب ہدایا اہل کتاب کے تھے نہ کہ مشرکین کے، گویا اہل کتاب کے ہدایا لینے درست ہیں نہ کہ مشرکین کے۔
Narrated Iyad ibn Himar: I presented a she-camel to the Prophet ﷺ. He asked: Have you embraced Islam? I replied: No. The Prophet ﷺ said: I have been prohibited to accept the present of polytheists.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3051
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن وللحديث شاھد عند أحمد (3/402 وسنده حسن)